سرفروش

قسط نمبر: 136
عباس ثاقب
میں نے اسلم سے کہا ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن روانگی کے لیے مزید تین دن انتظار بہت بیزار کن ہے۔ کاش ایک آدھ دن بعد کا ٹکٹ مل جاتا!‘‘
میری بات سن کر وہ کچھ شرمندہ سا ہوگیا ’’معافی چاہتا ہوں بھیا۔ دراصل پٹیالا میں ایک بہت قدیم گردوارا ہے، گردوارا شری دکھون وارا صاحب، وہاں سکھوں کا ایک سالانہ مذہبی اجتماع ہونے والا ہے۔ اس لیے ہندوستان بھرسے سکھ اس طرف جارہے ہیں۔ پنجاب میل کے ذریعے بھی یاتریوں کی بہت بڑی تعداد وہاں پہنچے گی، اس لیے ٹکٹوں کی شدت قلت ہے۔‘‘
اس کے لہجے میں شرمندگی کی جھلک محسوس کرکے مجھے خود شرمندگی ہوئی ’’ارے بھائی معذرت کیسی؟ اس میں آپ کا کیا قصور ہے؟ اور آپ نے یہ تو بہت اچھی خبر سنائی۔ پٹیالا میں دوسرے شہروں کے لوگوں کے ہجوم سے مجھے اپنا کام نمٹانے میں آسانی ہوگی۔ میں بھی سکھ بن کر وہاںپہنچوں گا۔ سردار بہادر سنگھ !‘‘
اسلم نے میری بات سن کر کہا ’’لاہوری لہجے والی ہی سہی، پنجابی زبان تو آپ جانتے ہیں۔ شرنارتھی کے روپ میں کھپ جائیں گے، لیکن کیا سکھوں کے رہن سہن، مذہبی رسوم و رواج اور عبادتوں کے بارے میں خاطر خواہ معلومات رکھتے ہیں؟ اورآپ کو سکھوں والی داڑھی اور کیس کا بھی انتظام کرنا پڑے گا۔‘‘
میں نے ہلکا سا قہقہہ لگا کر کہا ’’آپ فکر نہ کریں، میں نے سوچ لیا ہے کہ اپنے موجودہ حلیے اور سکھ مذہب کے بارے میں برائے نام معلومات کے ساتھ کیسے کام چلانا ہے۔‘‘
اسلم کے اصرار پر میں نے بتادیا کہ میں کس شخصیت کو اپنا کر وہاں جاؤں گا۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا ’’لگتا ہے بات تو بن جائے گی۔ ہماری دعائیں تمھارے ساتھ ہیں۔‘‘
اسلم مجھ سے گرم جوشی سے مصافحہ کرکے رخصت ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد میں حسب ِ معمول آنے مشکل مراحل کے بارے میں غور و فکر شروع کیا۔ اس نے تو اپنی طرف سے بہت اچھا مشورہ دیا تھا کہ بٹھنڈا اتر کر سو میل کا فاصلہ مسافر بس کے ذریعے طے کرکے پٹیالا چلا جاؤں لیکن مجھے بخوبی علم تھا کہ بٹھنڈا میں میرے کارناموں کی وجہ سے وہاں میرے کتنے پرستار موجود ہیں۔ درجنوں لوگ میری شکل پہچانتے تھے، جن میں میرے ’’مداح‘‘ دونوں سردار گھرانوں سے لے کر پولیس اہل کاروں تک سب ہی شامل تھے۔ وہ قصبہ باآسانی میرے گلے کا پھندا بن سکتا تھا۔
میں نے پنجاب کے نقشہ کا بغور جائزہ لے رکھا تھا اور میں پنجاب میل کے روٹ سے بھی کافی حد تک واقف ہوچکا تھا، چنانچہ کچھ سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ بٹھنڈا کے بجائے وہاں سے لگ بھگ تیس میل پہلے مانسا ریلوے اسٹیشن پر اترجاؤں گا اور بس پکڑکر پٹیالا کی طرف روانہ ہوجاؤں گا۔ ہوسکتاہے فاصلہ کچھ طویل ہوجائے لیکن بٹھنڈا میں منڈلاتے خطرات کے مقابلے میں یہ زحمت مجھے گوارا ہے۔
اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد میں نے پنجاب میں اپنی نئی شناخت کے حوالے سے اپنے لیے جزیات طے کیں اور باقی معاملات سے حسبِ موقع اور حسبِ معاملہ نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ایک مسئلے کا میں باوجود کوشش کے، حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ وہ یہ کہ اگر میں اپنی خواہش اور ارادے کے مطابق، کسی نہ کسی طرح مٹھو سنگھ کی قید میں موجود تینوں کشمیری لڑکیوں کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو بھی گیا، تو انھیں کہاں لے کر جاؤں گا؟ موجودہ صورتِ حال میں وہ بہرحال ہندوستانی شہری ہیں، ایسے میں پاکستان لے جانے کیلئے انہیں سرحدکیسے عبور کراؤں گا؟ اگر انھیں اناتھ شرم سے زبردستی فرار کراؤں گا تو پولیس بھی پیچھے پڑجائے گی۔ ایسے میں انہیں اس ملک میں کیسے پوشیدہ رکھ پاؤں گا؟
ان سوالات کا کوئی شافی جواب نہ ملنے پر میں نے اس معاملے کو بھی حالات پر چھوڑ دیا۔ میں نے باقی دن گھر تک محدود رہ کرگزارنے اور صرف کھانے کے لیے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن دوسرے دن کی شام ہی اسلم ایک بار پھر میرے گھر پہنچ گیا۔ میری آنکھوں میں سوال دیکھ کر اس نے کہا ’’بھائی، افتخار صاحب آپ سے ایک اور ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ کل صبح تیار رہنا۔‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک ہے، اس بار انہوں نے ملاقات کو نگراں نظروں سے بچانے کے لیے کون سا انوکھا طریقہ سوچا ہے؟‘‘
میری بات سن کر اسلم نے قہقہہ لگایا ’’بھائی وہی طریقہ جو دلّی میں اختر صاحب نے تم سے ایک ملاقات کے لیے کامیابی سے آزمایا تھا۔ کل جمعہ ہے، جامع مسجد میں ان کے ساتھ نماز جمعہ ادا کریں اور اسی دوران آپس میں باتیں کرلیں۔ یہ شہر کی سب سے بڑی اور قدیم مسجد ہے جہاں جمعہ کے دن پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ افتخارصاحب اکثر جمعہ کی نماز وہیں ادا کرتے ہیں اور ان کے نگران ڈیڑھ دو گھنٹے کی چھٹی مناتے ہیں۔‘‘
میں نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا ’’یاد آیا، میں نے ابا جان کے ساتھ وہاں ایک بار نماز پڑھی تھی۔ یہ تو وہیں کہیں ہے نا، جہاں سے ہم نے سونے کی گنیاں خریدی تھیں؟‘‘
اسلم نے اثبات میں سر ہلا کر کہا ’’ہاں، جوہری بازار وہاں سے قریب ہی ہے۔ تم تیار رہنا، میں تمھیں لینے آؤں گا۔‘‘
میںنے کہا ’’بھیا اس جگہ کا میرے گھر سے پونے میل کا فاصلہ بھی نہیں ہے۔ آپ زحمت نہ کریں، میں خود پہنچ جاؤں گا۔ آپ مسجد میں ان سے ملاقات کا مقام بتا دیں۔ میں ان سے مل لوں گا۔‘‘
اس نے کہا ’’چلو ٹھیک ہے۔ تم نماز سے لگ بھگ آدھے گھنٹے پہلے وضو خانے سے دائیں طرف والے برآمدے میں دیوار کے ساتھ بیٹھ جانا۔ وہ وہاں پہنچ جائیں گے۔ اس کے بعد وہ جیسے کہیں، اس پر عمل کرنا۔‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک ہے۔ مجھے یاد ہے وہ تو بہت بڑی مسجد ہے۔ ہزاروں نمازی ایک ساتھ بارگاہِ الٰہی میں سربسجود ہوسکتے ہیں۔‘‘
اس نے میری تائید کی ’’ہاں، جامع مسجد دلّی جیسی تاریخی تو نہیں، لیکن پھر بھی، ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ قدیم مسجد ہے۔ اس کا رقبہ بھی کم ازکم آٹھ دس کنال تو ضرور ہوگا۔ اچھا پرسوں تیار رہنا، میں تمھیں ٹرین پر سوار کرانے کے لیے آؤں گا۔‘‘
میں نے اسے منع کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بضد رہا۔ بالآخر میں نے اس کی بات مان لی۔ اس کے جانے کے بعد میں ایک بار پھر پٹیالا میں درپیش ممکنہ حالات کے بارے میں خیالات کے گھوڑے دوڑاتا رہا۔ اگلے روز میں نے غسل کرکے نیا جوڑا پہنا اور مقررہ وقت سے چالیس منٹ پہلے ہی گھرسے نکل گیا اور گنجان آباد گلی کوچوں اور بازاروں میں ٹہلتا ہوا اپنے اندازے کے مطابق جامع مسجد کی طرف روانہ ہوا اور حلیے سے مسلمان دکھائی دینے والے ایک دکان دار سے رہنمائی حاصل کرکے باآسانی منزل پر پہنچ گیا۔ اس وقت تک مسجد میں زیادہ ہجوم نہیں تھا۔ میں نے وضو کیا اور دائیں طرف والے برآمدے میں دیوار کے پاس بیٹھ کر تسبیح و درود شریف پڑھنے لگا۔ لگ بھگ پندرہ منٹ بعد ایک صاحب نے میرے پاس سے گزرتے ہوئے دھیرے سے کھنکارا۔ میں بغیر دیکھے پہچان گیا۔
افتخار صاحب کے بیس پچیس قدم آگے بڑھنے کے بعد میں بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ وہ پہلو کے دروازے سے نکلے اور احاطے میں آگے بڑھتے ہوئے عقبی دروازے سے باہر نکل گئے ۔ میں دیکھا کہ سامنے سڑک پر اسلم اپنی ٹیکسی لیے کھڑا ہے۔ افتخار صاحب ٹیکسی کی عقبی نشست پر جا بیٹھے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ والی سیٹ سنبھال لی۔ اس کے ساتھ ہی اسلم نے ٹیکسی چلادی۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment