اس بات کا فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ موت کا کون سا طریقہ کم تکلیف دہ ہوتا ہے؟ دنیا کے وہ ممالک جہاں اب تک سزائے موت ممنوع نہیں ہے، وہاں کہیں پر پھانسی پر لٹکا کر مارا جاتا ہے اور کہیں پر سر میں یا گردن میں گولی اتاری جاتی ہے۔ پاکستان، جاپان اور سنگاپور میں سزائے موت کے قیدی کو پھانسی دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مارنے کا آسان طریقہ ہے۔ جب گردن کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے، تو جسم سے زندگی چھوٹ جاتی ہے۔ پھر رسی سے لٹکتا ہوا قیدی تڑپ کا خاموش ہو جاتا ہے۔
روس اور چین میں موت کے قیدی پر انڈونیشیا کی طرح زیادہ گولیاں ضائع نہیں کی جاتیں۔ انڈونیشیا میں سزائے موت کا طریقہ یہ ہے کہ قیدی کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے اور اس پر ایک دم گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔ مگر چین اور روس میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں بندوق چلانے والے جلادوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے کہ کس طرح ایک گولی سے کسی کو موت کی آغوش میں پہنچانا ہے۔ دنیا میں کچھ لوگوں کا مؤقف ہے کہ موت کا یہ طریقہ کم تکلیف دیتا ہے۔
تائیوان، تھائی لینڈ اور ویتنام میں زہر سے بھرا ہوا انجیکشن قیدی کے جسم میں اتارا جاتا ہے اور وہ ابدی نیند سو جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مارنے کا یہ انداز کم تکلیف والا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زہر کے انجکشن سے زیادہ آسان موت بجلی کے کرسی پر بٹھا کر بہت بڑا جھٹکا دے کر ہلاک کرنے والا ہے۔ کیوں میں اس میں انسان کو تکلیف کم آتی ہے۔ امریکہ اور فلپائن نے موت کے اس انداز کا انتخاب کیا تھا۔ اب امریکہ میں زیادہ تر قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے زہر کا انجکشن دیا جاتا ہے، لیکن اگر کوئی قیدی کہے کہ اسے الیکٹرک چیئر پر بٹھا کر موت کی وادی میں بھیجا جائے تو اس کی آخری خواہش پر عمل کیا جاتا ہے۔
ویسے تو تاریخ کی آنکھوں نے موت کے بہت سارے روپ دیکھے ہیں۔ کہیں انسان کو خونخوار جانوروں کے پنجرں میں ڈالا جاتا تھا۔ کبھی اس کو دھرتی سے باندھ کر اس کے سینے پر ہاتھی کا پاؤں رکھوایا جاتا تھا۔ کہیں اس کو بلند پہاڑ کی چوٹی سے پھنکوایا جاتا تھا۔ کہیں اس کو سانپ سے ڈسوایا جاتا تھا۔ کبھی اور کہیں اسے زہر سے بھرا ہوا پیالہ پلوایا جاتا تھا۔ کہیں انسان کا سر قلم کیا جاتا تھا۔ انسان کے سر کو قلم کرنے کی روایت یورپ میں بہت عام تھی۔ موت کے اس انداز کو ’’گلوٹین‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ قیدی کا سر گلوٹین پر رکھ کر اس کے اوپر بھاری کلہاڑی گرائی جاتی تھی۔ دوستو وسکی نے موت کے اس طریقے پر تفصیل سے لکھا ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب قیدی کو گلوٹیں پر لایا جاتا ہے، جب اس کا سر گلوٹین پر رکھوایا جاتا ہے اور اس کے ہاتھ پیچھے کس کر باندھ لیے جاتے ہیں، پھر کلہاڑی کی پلیوں کو حرکت دی جاتی ہے۔ وہ سارے موت کے مراحل ہوتے ہیں۔ تیز دھار آلے سے سر تن سے الگ کر دینے کی سزا قانونی طور آج بھی سعودی عرب میں مروج ہے۔ سعودی عرب میں موت کی سزا ملنے والے قیدیوں کا سر تلوار سے الگ کیا جاتا ہے۔
موت کے ان سارے قانونی اور غیر قانونی طریقوں میں ایک طریقہ اور بھی ہے۔ وہ طریقہ جس کو نازی جرمنی نے غیر قانونی طور پر شروع کیا، مگر پھر اس طریقے کو امریکہ میں قانونی حیثیت بھی حاصل ہوئی۔ جی ہاں! ہم اس ’’گیس چیمبر‘‘ کی بات کر رہے ہیں، جس پر بہت ساری ڈاکیومینٹریز اور بہت ساری فلمیں بنی ہوئی ہیں۔ اب بھی ’’بلیک ان وائٹ‘‘ فلموں میں بچوں اور بوڑھوں کی قطاریں نظر آتی ہیں، جو آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھتے ہیں۔ ان سب کو ایک بند کمرے میں رکھا جاتا ہے۔ پھر اس کمرے میں زہریلی گیس چھوڑی جاتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ سب لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح گیس چیمبر کے فرش پر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
نازی جرمنی کے بعد دنیا کو اپنا غلام بنانے اور سارے ممالک کو فتح کرنے کی کوشش کرنے والے امریکہ کو موت کا یہ ہٹلری انداز بہت پسند آیا۔ اس لیے امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی بہت ساری ریاستوں میں موت کی سزا ملنے والے قیدیوں کو گولی سے مارنے یا ان کی رگ میں موت کا انجکشن اتارنے یا ان کو بجلی کی کرسی پر بٹھانے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں گیس چیمبر میں مارا جائے گا۔ امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک تھا۔ اس کے گیس چیمبر والے مقتل ہٹلر کی طرح سیمنٹ اور پتھروں سے بنے ہوئے نہیں تھے۔ اس نے اپنے قانونی گیس چیمبرز کیلئے شیشے کی دیواریں بنائی تھیں۔ شیشے کی ان موٹی دیواروں سے صاف نظر آتا تھا گیس چیمبر میں زہریلی گیس کا پھیلنا اور اس گیس کے باعث قیدی کا اس طرح تڑپ کر مرنا جس طرح مچھلی پانی کے بغیر مرتی ہے۔
اس وقت ٹھیک سے یاد نہیں کہ اس منظر پر کس نے لکھا تھا؟ شاید ہیمنگوے نے اپنے ناول میں اس منظر کو سمایا تھا، جس میں ایک نوجوان لڑکی کو موت کی سزا ملتی ہے۔ جب اس کو مقرر دن گیس چیمبر کے سامنے لایا جاتا ہے، تب گیس چیمبر میں ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹر کو لڑکی پر ترس آجاتا ہے۔ وہ اس کے لیے اور تو کچھ نہیں کرسکتا، مگر اس سے کہتا ہے کہ ’’سنو! جب چیمبر میں گیس چھوڑی جائے، تب تم کوشش کرکے تیز اور گہری سانس لینا‘‘ لڑکی نے ڈاکٹر سے پوچھا ’’کیوں‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا ’’اس سے موت جلدی آجاتی ہے۔‘‘
کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک بھی ایک بہت بڑا گیس چیمبر ہے۔ جہاں غربت اور افلاس کی زہریلی گیس چھوڑی جاتی ہے۔ جہاں لوگ تڑپ تڑپ کر جیتے ہیں اور مچل مچل کر مر جاتے ہیں۔ اس گیس چیمبر میں صرف امیر لوگ اپنے چہروں پر ماسک چڑھا کر چلتے ہیں۔ ان پر غربت کی زہریلی گیس اثر انداز نہیں ہوتی۔ ان کو محسوس ہی نہیں ہوتا ہے کہ ان کے ماسک سے باہر کس قدر بدبو ہے۔ کس قدر جلن ہے۔ کس قدر تکلیف ہے! جس طرح انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ غریب ممالک میں امیر لوگ پانی کے مخصوص بلبلے میں رہتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے حکمرانوں، ان کے یاروں اور ان کے وفاداروں نے اپنے منہ پر ایسے ماسک چڑھائے ہیں کہ انہیں اس معاشرے میں پھیلتی ہوئی غم
اور غربت کی زہریلی گیس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ وہ زہریلی گیس ہمارے معاشرے کے نہ صرف عورتوں، مردوں، بوڑھوں اور خاص طور پر بچوں کے پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتی ہے اور وہ ایسی کیفیت محسوس کرتے ہیں، جیسی کیفیت Insulted and Humiliated کا وہ کردار محسوس کرتا ہے، جس کو ہر شام ماسکو میں آکسیجن کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ جو امیر پیروں کے تلے کچلے ہوئے شہر کی گلیوں میں پھرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ہوا… ہوا… ہوا… کہاں ہے ہوا؟‘‘ لوگ اسے کہتے ہیں کہ ’’پاگل اتنی ہوا تو ہے! اتنی تیز اوے اتنی سرد‘‘ مگر وہ اس ہوا کا پتہ پوچھتا ہے جو سانس لینے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ وہ سانس لینے والی ہوا جو گیس چیمبر اور ہمارے ملک میں کم ہوتی جاتی ہے۔
یہ شعر تو کسی فلسطینی شاعر کا ہونا چاہئے تھا یا اس شعر کو کوئی ہسپانوی شاعر لکھتا تو بھی ٹھیک تھا، مگر حیرت کی بات ہے کہ یہ شعر سندھی زبان کے ایک سینئر شاعر امداد حسینی نے لکھا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ:
’’یہ جو بارود کی بو سے بھریبندوق کی نالی ہےوہ میرے گھر کی گلی کیوں ہو؟‘‘
کبھی کسی اردو یا پشتو یا پنجابی زبان کے عوامی شاعر کو ایسا کوئی خیال بھی آسکتا ہے اور وہ پی ٹی آئی یعنی تحریک انصاف کی بے انصافی پر مبنی حکومت سے مخاطب ہوکر کہہ سکتا ہے کہ:
’’یہ جو گیس چیمبر ہےجس میں میرا دم گھٹ رہا ہےوہ میرا ملک کیوں ہو؟‘‘
یعنی: گری ہے جس پہ کل بجلیوہ میرا آشیاں کیوں ہو؟
ہمارا ملک گیس چیمبر میں تبدیل کیوں کیا گیا ہے؟ کیوں اس میں غربت کی زہریلی گیس چھوڑی گئی ہے۔ کیوں اس میں لوگ تڑپ رہے ہیں؟ کیوں لوگ آہستہ آہستہ مرنے کی اذیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے خود کشیاں کر رہے ہیں؟
اس ملک کے عوام بہت اذیت میں ہیں۔ اس ملک کے حکمران مسرت کی آغوش میں مسکرا رہے ہیں۔ اس ملک کے لوگوں پر ہر دن ایک نیا عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ عوام کا دھیان ایک طرف لگا کر ان کو دوسری طرف سے چوٹ لگائی جاتی ہے۔ اس ملک کے لوگوں سے کہا گیا کہ پروٹوکول کا خاتمہ کیا جائے گا اور پھر سی این جی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کیا گیا۔
ملک کا معاشرہ عجیب انداز سے گرتا، سنبھلتا، چوٹ کھاتا اور لڑکھڑا کے آگے بڑھتا ہے۔ اس ملک کو معلوم نہیں تھا کہ انصاف کے نام پر اس ملک کے عوام سے تاریخی ناانصافی ہوگی۔ اس ملک کے عوام کو معلوم نہیں تھا کہ عوام کے کندھوں پر پڑا ہوا غربت کا بوجھ کم کرنے کے وعدے کرتے ہوئے انہیں مہنگائی کے جال میں اس طرح پھنسایا جائے گا کہ انہیں تڑپنے کے لیے جگہ بھی نہ مل پائے۔
تو ہم بات کر رہے تھے گیس چیمبر کی!
گیس چیمبر میں کیا ہوتا ہے؟
گیس چیمبر میں گیس کی مقداربڑھائی جاتی ہے توانسان کی سانس رک جاتی ہےمگر جب پورا معاشرہ گیس چیمبر ہوتب گیس کی قیمت بڑھا کرمعاشرے کو تڑپنے کی اجازت دے دی جاتی ہے!!