اتباع رسولؐ کیوں ضروری ہے؟

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
تاریخ انسانی ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس سے ماضی، حال مستقبل کا عکس آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر تہذیب و تمدن کی تاریخ کے مختلف ابواب پر نظر ڈالی جائے اور بطور خاص ان انقلابات کا بغور مطالعہ کیا جائے جن کی بدولت حیات انسانی کی بنیادی اقدار بلند سے بلند تر ہوتی رہی ہیں اور جن کے ذریعے مادی ترقی کے علاوہ زندگی کے اخلاقی اور روحانی پہلوئوں نے جلد حاصل کی ہے تو ہمیں کوئی بھی انقلابی تحریک اسلام سے زیادہ موثر اور نتیجہ خیز نظر نہیں آتی اور اس میں قطعی شک کی گنجائش نہیں کہ اسلام کی مکمل اور صحیح تصویر رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ ہے۔ آپ ؐ کی شخصیت کے ہر پہلو کا عکس دوسرے تمام انبیائے کرام اور دیگر مذاہب کے بانیوں سے ممتاز اور خوبصورت ہے۔ آپؐ ہی کی زبان مبارک کے ذریعے قرآنی آیات انسانوں تک پہنچیں اور آپ ؐ ہی کے اقوال و افعال نے اسلامی انقلاب کو عملی جامہ پہنایا۔ جو نزول قرآن کا مقصد تھا۔ اسی خصوصیت اور امتیاز نے آپؐ کی زندگی کو تاریخ کا اہم ترین باب بنا دیا۔ جس کے ہر گوشے کا مطالعہ کرنا اور اس پر عمل کرنا مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ صرف ان ہی لوگوں کے لئے یہ امر ضروری نہیں جو آپ ؐ کی اتباع کو اپنے لئے ذریعہ نجات اور باعث صد افتخار سمجھتے ہیں، بلکہ تاریخ کے ہر اس طالب علم کے لئے ضروری ہے جو ترقی کی ارتقائی منازل کا تفصیلی جائزہ لینا چاہتا ہے اور اخروی نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے نبی اکرم ؐ کی حیات طیبہ کو سمجھنا اور اس کی صحیح اور مکمل تصویر دیکھنا بہت اہم ہے۔ آپ ؐ کی ذات مبارکہ کاملیت اور جامعیت کی حامل ہے۔ آپ ؐ نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے جن جن بنیادی اصولوں کی تعلیم دی وہ ہمیشہ کے لئے دوامی حیثیت اختیار کر گئے۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں ان اصولوں کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا رہا ہے اور انسانی تہذیب و تمدن اور اس کے ارتقائی مدارج کا تجزیہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی تاریخی شخصیت کے حالات اور اقوال اس طرح محفوظ نہیں کئے جیسے آنحضرتؐ کے کئے گئے ہیں۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کے علاوہ بعض مستشرقین نے بھی آپ ؐ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
SPINGER نے اپنی تصنیف میں سیرت پر لکھی جانے والی کتابوں اور مصنفین کے بارے میں لکھا ہے ’’ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری اور نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم فن ایجاد کیا ہو، جس کی بدولت آج پانچ لاکھ اشخاص کا حال معلوم ہو سکتا ہے۔‘‘ ان تفصیلات کے محفوظ کئے جانے کے سلسلے میں یہ سب سے اہم بات ہے کہ رسول اکرم ؐ کا ہر عمل خواہ اس کا تعلق نجی زندگی سے ہو ، خانگی زندگی سے ہو یا معاشرتی زندگی سے۔ وہ اسی قدر نمایاں اور ظاہر تھا جیسے وہ اقدامات یا مسائل جن کے متعلق اعلانات وہ ہدایات جو مسجد نبوی ؐ میں جاری کی جاتی تھیں۔ ایک بظاہر بلند اور اعلیٰ شخصیت رکھنے والا اپنی نجی زندگی میں اپنے بیوی بچوں اور گھریلو ملازموں کے سامنے بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ ان تمام افراد کو اس کی بشری کمزوریوں کا علم ہوتا ہے۔ کیونکہ بقول VOLTAIRE کے کوئی شخص اپنی نجی خدمت گار کی نظر میں ہیرو نہیں ہو سکتا، لیکن رسول اکرم ؐ کی زندگی اور حیات طیبہ ؐ کا ہر ہر لمحہ اس اصول سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ؐ کی شریک حیات ’’حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ،آپؐ کے غلام حضرت زید ؓ بن حارثہ، آپ ؐ کے چچا زاد بھائی حضرت علی ؓ اور آپ ؐ کے عزیز ترین دوست حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے۔ یہ چاروں افراد وہ تھے جو ہر وقت آپؐ کو دیکھتے پرکھتے تھے۔ ان کے سامنے نبوت سے پہلے کی زندگی کے چالیس سال آپ ؐ کی صداقت و سچائی کی دلیل تھی اور زندگی کا ہر باب کھلی کتاب کی مانند روشن پاکیزہ اور آئینہ کی طرح بے ملمع تھا۔ دنیا کی تاریخ میں کسی بڑے سے بڑے انسان نے بھی اپنی رفیقہ حیات کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ خلوت و جلوت میں ہر بات برملا کہہ دے۔ مگر حضور ؐ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ آپ ؐ نے ایک وقت میں نو ازواج مطہراتؓ رکھتے ہوئے بھی ہر ایک کو یہ اجازت دے رکھی تھی کہ ’’خلوت میں مجھ میں جو کچھ دیکھو وہ جلوت میں برملا سب سے بیان کر دو۔ جو رات کی تاریکی میں دیکھو وہ دن کی روشنی میں ظاہر کر دو، جو بند کوٹھریوں میں دیکھو اس کو کھلی ہوئی چھتوں پر پکار کر کہہ دو ‘‘۔ اس حوصلے، اخلاق، وثوق اور اعتماد کا دعویٰ وہی کر سکتا ہے جس کی سیرت و کردار میں کوئی کمی اور کھوٹ نہ ہو۔ دنیا کے بڑے سے بڑے رہنما کی زندگی میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ ذاتی اخلاق و اوصاف کی پاکیزگی کا حیرت انگیز مجموعہ کسی دوسری ایسی شخصیت میں نظر نہیں آتا۔ جس نے نسل انسانی کی روحانی قیادت کے ساتھ ساتھ معاشرتی مساوات اور مادی ترقی اور خوشحالی کے لئے موثر اور انقلابی اقدامات کئے ہوں۔ جس نے ہمیشہ دوسروں کی خاطر اپنے نفس پر سختی کی ہو۔ جس نے خود بھوکا رہ کر دوسروں کا پیٹ بھرا ہو۔ جس نے راتیں جاگ جاگ کر ذکر و عبادت میں گزاری ہوں اور دن کے وقت میدان جنگ میں معمولی سپاہی کی طرح جان کی بازی لگائی ہو اور وسیع پیمانے پر کامیابیاں حاصل کر کے ایک بڑے ملک میں فلاحی نظام حکومت قائم کیا ہو، جس نے حکمرانی کی ذمہ داری اور اقتدار کے باوجود فقر و غنا پر فخر کیا ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’ میں حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؐ بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے تھے۔ میں نے آپؐ سے اس کا سبب دریافت کیا آپ ؐ نے فرمایا ’’بھوک‘‘ یہ سن کر میں رو پڑا۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’ابوہریرہ رو نہیں، قیامت کے دن اس بھوکے شخص کا حساب سختی سے نہ لیا جائے گا، جس نے ثواب کی نیت سے دنیا میں بھوک کو برداشت کیا ہو‘‘۔ بہیقی کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’حضور اکرمؐ نے تین دن تک لگا تار پیٹ نہیں بھرا، اگر آپؐ چاہتے تو پیٹ بھر سکتے تھے، مگر آپؐ کی عادت شریفہ تھی کہ اپنے نفس پر ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دیتے تھے اور غریبوں کو کھلا دیا کرتے تھے۔ حضرت ابوطلحہؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں نے غزوئہ خندق کے موقع پر حضورؐ سے شکایت کی اور اپنا کرتا اٹھا کر اپنے اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا دکھایا۔ آپؐ نے اپنی قمیض مبارک ہٹائی تو آپؐ کے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔
ابن جریرؒ کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’ہمارے گھر میں چالیس چالیس دن آگ اور چراغ نہیں جلا۔ میں نے پوچھا پھر آپ لوگوں کی گزر اوقات کس چیز سے ہوتی تھی؟ آپؓ نے فرمایا دو کالی چیزوں سے کھجور اور پانی سے اور وہ بھی جب میسر آ گیا۔ آپؐ آسائش کے اسباب دوسروں کو مہیا فرماتے تھے، مگر اپنی فیاضی، ہمدردی اور کشادہ دلی کی وجہ سے خود ان آسائشوں پر صبر کرتے تھے۔ یہ صبر سب سے زیادہ مشکل اور سب سے زیادہ محمود ہے اور بڑے ضبط نفس کی بات ہے اور اس صبر کا تعلق تسلیم و رضا سے ہے۔ آپؐ نے کاروبار زندگی، معاملات، اجتماعی زندگی، سیاست انسانی نفس کے تمام احساسات کو خدا کے احکام کے تابع کر دیا تھا۔ یہی سنت اور اسلام کا مقصد ہے اور اتباع رسولؐ اسی لئے ضروری ہے۔٭

Comments (0)
Add Comment