تخت سے کٹہرے کا سفر

بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کی سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد وہاں سے باہر نکلنے کی فوٹیج دیکھ کر یہ شعر یاد آگیا:
صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا ہے
یہ شعر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے منسوب ہے، وہی بہادر شاہ ظفر جو بہادر نہ رہا تو قدرت نے اس سے شاہی بھی چھین لی، وہ ظفر بھی رہ سکا اور اس وقت کالا پانی کہلانے والے برما کے موجودہ دارالحکومت ینگون کی کسی کال کوٹھڑی میں انگریزوں کی قید میں زندگی کے آخری دن گزارنے پر مجبور ہو گیا۔ رب العالمین کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتے۔ بلکہ وہ اس کے برعکس انسان کو مہلت دیتے رہتے ہیں، لیکن جب کوئی انسان حد سے تجاوز کرتا ہے، تو پھر وہ اپنے کرموں کا پھل پاتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہی میرے رب کا وعدہ ہے اور میرا رب اپنا وعدہ پورا کرتا ہے۔ یہ میرے رب کی سنت ہے کہ وہ انسان کی موت سے پہلے اس کے بارے میں بہت سے راز کھول دیتا ہے، تاکہ باقی انسان اس سے عبرت پکڑیں، وہ ان گناہوں اور غلطیوں سے بچیں۔ نمرود، شداد اور فرعون کی مثالیں قرآن پاک میں اسی لئے دی گئیں کہ انسان اس سے سبق سیکھیں۔ پھر بڑے بڑے بادشاہوں کے انجام سے تاریخ کو اس نے بھر دیا۔ جس نے بھی اپنے آپ کو اس زمین پر بڑا سمجھا، جو بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوا کہ وہ ناقابل شکست ہے، اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، جس نے بھی تکبر کیا، اسے میرے رب نے دنیا میں ہی دکھا دیا۔ رب العالمین کو تکبر پسند نہیں، اس لئے جس نے بھی تکبر کیا، وہ خود اور اس کے تکبر کا سبب بننے والی سلطنت تباہ ہوگئی۔ قرآن پاک میں اس حوالے سے دو باغوں کے مالک کا واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے، جو پھلوں سے لدے ہوئے تھے، لیکن جب ان باغوں کے ایک مالک نے تکبر کیا، ان پھلوں کو اپنی محنت کا نتیجہ قرار دیا، تو دوسری صبح جب وہ اپنے باغ میں پہنچا تو اس کا باغ اجڑ چکا تھا۔ اسے اس کے تکبر کا پھل مل چکا تھا۔
اب ہم واپس آتے ہیں ملک ریاض کی طرف۔ زیادہ وقت تو نہیں گزرا، تین، چار برس ہوئے ہوں گے، ملک ریاض کو پاکستان کا سب سے طاقتور شخص کہا جاتا تھا اور کچھ غلط بھی نہیں تھا، طاقت کے سارے مراکز ان کی جیب میں تھے یا ان کے ساتھ ہوتے تھے، چیختا چنگھاڑتا میڈیا ان کے سامنے گونگا، بہرہ اور اندھا بن جاتا تھا، صرف وہ بولتا اور دکھاتا تھا جو ملک ریاض چاہتے تھے، ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ان کے سامنے آکر چھوٹی ہو جاتی تھیں، ان کے سرمائے کی محتاج دکھائی دیتی تھیں، ان سے کاروباری شراکت کے لئے ہر قانون کو بلڈوز کرنے پر تیار ہو جاتی تھیں، ان کے گھر پر دونوں جماعتوں کی قیادت کے مشترکہ اجلاس ہوتے تھے، ان کے ہیلی کاپٹر، جہاز اور بلٹ پروف گاڑیوں پر رہنما سفر کرنا فخر سمجھتے تھے، سیاسی اتحاد ہو یا حکومت سازی، ملک ریاض کی مشاورت سے فیصلے ہوتے تھے، ان کا مشورہ حکم کا درجہ سمجھ کر مانا جاتا تھا، بڑے بڑے وکیل اور ریٹائرڈ جج ان کے ملازم تھے، جنہیں وہ عدالتی امور سے نمٹنے کے لئے بڑی مہارت سے استعمال کرتے تھے، اسی طرح ریٹائرڈ فوجی افسران کو انہوں نے ملازمتیں دے رکھی تھیں اور ان کے سابق عہدوں کو وہ اپنے اثر و رسوخ، مقاصد اور رعب کے لئے استعمال کرتے تھے، پورے ملک میں انہوں نے ایسا نیٹ ورک بنا رکھا تھا کہ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس زمین پر ہاتھ رکھ دیں، وہ سرکاری ہو یا نجی، وہ ان کی ہو جاتی ہے، وہ پیسے سے لوگوں کا منہ بند کر دیتے تھے اور اگر کوئی انکار کرے تواس کی سننے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔ پولیس سے لے کر قانونی نظام تک، میڈیا سے لے کر سیاستدانوں تک، کوئی ملک ریاض کے متاثرین کی داد رسی کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ متاثرین تھک ہار کر ان کی پیشکش قبول کرلیتے تھے یا پھر اپنا مقدمہ رب کے حوالے کرکے گھر بیٹھ جاتے تھے۔
ملک ریاض بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ان کا کوئی کام نہیں رکتا۔ وہ فائلوں کو ’’پہئے‘‘ لگاتے ہیں۔ اس لئے ان کی فائلیں قانونی ہوں یا غیر قانونی، اس طرح دوڑتی تھیں جیسے فائلوں میں میراتھن ہو رہی ہو۔ لیکن پانچ برس قبل حالات بدلنا شروع ہوئے، ملک ریاض کی سلطنت کمزور ہونا شروع ہوئی، ان کے ہاتھ سے ریت سرکنے کا آغاز ہوا، وہ قدرت کے چکر کا شکار ہونا شروع ہوئے۔ ان کے پہیوں نے آواز دینی شروع کردی۔ پہلے رفتار آہستہ کرنی پڑی، پھر اسپیڈ بریکر پر بریکیں لگنا شروع ہوئیں۔ اس عمل کا آغاز اداروں نے کیا اور پھر یہ سلسلہ آگے برھنے لگا، اگرچہ میڈیا کا بڑا حصہ اب بھی ان کے ہاتھ میں ہے، اب بھی ایسے ادارے اکثریت میں ہوں گے، جہاں اسلام سے لے کر پاکستان اور سیکورٹی اداروں کے خلاف پروگرام کئے جا سکتے ہیں، کئے جاتے ہیں، لیکن ملک ریاض ان کے لئے شجر ممنوعہ ہے، حتیٰ کہ ان کے خلاف عدالت کی سماعت بھی نشر اور شائع نہیں کی جاتی، لیکن اب میڈیا کا ایسا حصہ بھی وجود میں آچکا ہے، جو ان کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت رکھتا ہے، بڑے بڑے وکیل اب بھی ملک ریاض کا کیس لڑ رہے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا کیس اب بڑی عدالت کے بڑے ججوں کے پاس پہنچ چکا ہے، ان کے خلاف ایک فیصلہ آچکا ہے، ان کی سلطنت بکھرنے کا تاثر قائم ہوتا جا رہا ہے، اب عام آدمی ان کے بارے میں باتیں کرتا ہے، ان کے قبضوں پر بحث کررہا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس انہیں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے سرمائے سے کچھ حصہ اس ملک کے لئے دے دیں، اس ملک کے لئے جس نے انہیں ملک ریاض بنایا، ایک کلرک سے ایک کنگ میکر تک پہنچایا۔ جس کی مٹی کو انہوں نے سونا بنا کر بیچا۔ ملک ریاض نے 25 فیصد دینے کی پیشکش بھی کی، جو عدالت نے مسترد کر دی۔
کبھی وہ بھی وقت تھا کہ ملک ریاض سپریم کورٹ میں پیش ہوتے تھے تو میڈیا اور وکلا کی بڑی تعداد ان کے آگے پیچھے ہوتی تھی، ان کے ساتھ فوٹو بنوانے کے لئے دھکم پیل ہو رہی ہوتی تھی، ہر چیز لائیو دکھائی جا رہی ہوتی تھی، ان کی مرضی کے سوال پوچھے جا رہے ہوتے تھے، ان پر کتنا ہی سنگین الزام کا مقدمہ کیوں نہ ہو، وہ ریلیکس اور اٹھے ہوئے سر کے ساتھ تڑاک جواب دے رہے ہوتے تھے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ان کے خلاف کیس کی سماعت کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے افتخار چوہدری کو ناک آئوٹ کردیا تھا، ان کے بیٹے کو خرید لیا تھا ،کیس ملک ریاض کے خلاف تھا، لیکن جان چھڑانا افتخار چوہدری کے لئے مشکل ہوگیا تھا، لیکن آج سب کچھ بدل چکا ہے، عدالت کے اندر اب انہیں روسٹرم پر کھڑا ہوکر جواب دینا پڑتا ہے، ان کے بڑے بڑے وکیلوں کے لئے ان کا دفاع مشکل ہو گیا ہے، اب انہیں ایسی عدلیہ کا اور ایسے چیف جسٹس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جن پر وہ نہ اثر انداز ہو سکتے ہیں اور نہ انہیں دھمکا سکتے ہیں، بلکہ اب انہیں وہاں اپنی بیماری کی کتھا سنا کر رعایت مانگنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ اسی طرح اب وہ سپریم کورٹ سے باہر نکلے تو ان کی باڈی لینگویج سے جلال نہیں، پریشانی جھلک رہی تھی۔ آگے پیچھے وکلا کی فوج ظفر موج تھی اور نہ ٹی وی کیمروں کا اژدھام۔ وہ سر جھکائے چلتے ہوئے نظر آئے۔
قدرت کا یہ نظام آپ بہت سے دوسری شخصیات پر بھی لاگو ہوتا دیکھ رہے ہوں گے، کیوں کہ قدرت کا نظام کسی ایک فرد کے لئے نہیں ہوتا، یہ ہر اس فرد پر لاگو ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا، جس نے دنیاوی طاقت پر مان کیا، جو خود کو طاقتور سمجھ بیٹھا، جس نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا۔ جس نے رب کی ناراضگی کو دعوت دی، جس نے رب کی مخلوق کو تنگ کیا، جس نے رب کی دی ہوئی نعمتوں کا کفران کیا، وہ اس چکر میں ضرور پھنسے گا، یہ میرے رب کی سنت ہے، جو کبھی بدلے گی نہیں۔٭

Comments (0)
Add Comment