وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت سی پیک منصوبوں کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے۔ بلوچستان کو اس کے جائز حقوق دیں گے اور اس کے تحفظات دور کریں گے۔ کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کو فعال کئے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ وفاقی حکومت بلوچستان کی حکومت کے ساتھ بطور پارٹنر (شراکت دار) کام کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے ہفتے کو کوئٹہ میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔ گورنر بلوچستان، وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے کئی ارکان نے عمران خان سے ملاقات کی۔ بعدازاں وزیراعظم نے سدرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز جاکر خطاب کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ ایئربیس آمد پر وزیراعظم عمران خان کا استقبال کیا۔ تحریک انصاف، اس کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان سے کئی امور پر اختلافات کے باوجود اہل وطن اور مبصرین کے لئے یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ وہ اور افواج پاکستان ملک کے اکثر معاملات پر یکساں نقطہ نظر رکھتے ہیں اور سول ملٹری تعلقات بہت عرصے بعد ہم آہنگ اور خوشگوار نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف اعلیٰ عدالتیں، نیب، ایف بی آر، سی آئی اے، ایف آئی اے جیسے ادارے بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ آزاد اور فعال دکھائی دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن اگر موجود بھی ہے تو اس طرح کہ ’’ہر چند کہیں ہے، مگر نہیں ہے‘‘۔ اس کی پارٹیاں اپنی اپنی مصلحتوں اور مفادات کے تحت مختلف ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ ایسا ہموار ماحول جو تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کو ملا ہے، اس کی ماضی میں مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ اس کے باوجود اگر وہ ملک و قوم کے مفاد میں مثبت فیصلے اور اقدامات نہ کرپائیں تو یہ نہ صرف ان کی ناکامی ہوگی، بلکہ وطن عزیز کی بھی بدقسمتی قرار پائے گی۔ عمران خان کے ابتک دیئے جانے والے بیانات اور فیصلوں پر اختلاف کی گنجائش کم ہے، لیکن پاکستانی قوم کو سالہا سال سے دلکش نعروں اور خوش کن بیانات سے بے وقوف بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس بنا پر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان نے بھی انہیں فریب میں مبتلا کرکے بعض مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی تو قوم کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کی وجہ سے اب انہیں ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ کچھ اس لئے بھی کہ انہوں نے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا کر اور پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کرکے لوگوں کی توقعات بہت زیادہ بڑھا دی ہیں۔ سی پیک منصوبوں پر نظرثانی موجودہ حکومت کا حق ہے کہ اس میں اگر کہیں گڑبڑ اور بدعنوانی پائی جائے تو اسے دور کیا جائے۔ تاہم سی پیک کے بنیادی مقاصد اور اہداف کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے، کیونکہ ان منصوبوں سے صرف چین اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی وابستہ نہیں ہے، بلکہ اردگرد کے ممالک اور عالمی برادری کو بھی روزگار اور اپنی صنعت و تجارت کو فروغ دینے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے۔ سعودی عرب کی سی پیک میں شرکت اور گوادر میں آئل سٹی قائم کرنے کی پیشکش بلاشبہ منصوبوں کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانے میں بہت ممدو معاون ثابت ہوگی۔ سی پیک منصوبوں پر پاک فوج کی بھی گہری نظر ہے اور اس کی جانب سے سیکورٹی کے غیر معمولی اقدامات قابل ستائش ہونے کے علاوہ منصوبوں کو قابل عمل بنانے میں بھی نہایت اہم کردار ادا کریں گے۔
بلوچستان کے مسائل پر وزیراعظم عمران خان کی توجہ قابل ستائش ہے، لیکن سابقہ حکومتوں کی طرح یہ بھی محض وقتی اور سطحی ثابت نہ ہو۔ بلوچستان کے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ کوئی ایسا وعدہ نہیں کروں گا جیسے پورا نہ کر سکوں۔ سیاست اور حکومت میں آنے کے بعد اکثر رہنما اس قسم کے دعوے اور وعدے ببانگ دہل کرتے ہیں اور پھر انہیں پورا کئے بغیر اپنے اقتدار کی مدت پوری کرکے چلے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان یوں بھی ’’یوٹرن‘‘ لینے کی شہرت رکھتے ہیں۔ تاہم ان کی مدت کے سو دن پورے ہونے تک اہل وطن ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اس کے بعد ہی وہ موجودہ حکومت کے بارے میں کوئی اچھی یا بری رائے قائم کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ تحریک انصاف کے قول اور فعل میں تضاد کی فوری طور پر دو مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایک، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا اعلان جو یوٹرن کی نذر ہو چکا ہے۔ دوم، عوام کو سہولتیں دینے اور ان پر کوئی نیا بوجھ نہ ڈالنے کا اعلان۔ نئی حکومت نے آتے ہی گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں تو آئندہ پانچ برسوں کے دوران ان کا کیا حشر ہوگا؟ بلوچستان میں افواج پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں بہت حد تک امن قائم ہو چکا ہے۔ لہٰذا وہاں ترقیاتی پروگراموں اور کاموں کو آگے بڑھانا اب زیادہ مشکل نہیں رہا۔ جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں فوج آج بھی صوبے کی ترقی و خوشحالی میں پیش پیش ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے چھوٹا اور رقبے میں سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باعث بلوچستان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ صوبے کے عوام بے کس و بے حال ہیں تو صوبے کے قدرتی و معدنی وسائل بے پایاں۔ بلوچستان کے عوام کو سب سے زیادہ نقصان سرداری نظام نے پہنچایا ہے۔ صوبے کے سردار و نواب سارے وسائل پر قبضہ کرکے اور معدنی ذخائر پر حکومتوں سے پیش بہا رائلٹی وصول کرکے خود اپنے علاقوں میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے۔ وہ اور ان کی آل اولاد کراچی، اسلام آباد اور بیرون ملک کئی شہروں میں عیش سے بڑھ کر عیاشی کی زندگی گزارتی ہے اور وہاں سے بلوچ عوام کی محرومیوں اور مایوسیوں کا پروپیگنڈا کرکے قومی و بین الاقوامی سطح پر ہمدردیاں سمیٹتی ہے۔ غریب بلوچ باشندے تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والے اور ان سے ہمدردی کا ناٹک رچانے والے خود ان کے سردار ہیں۔ وہ بلوچستان میں تعلیمی ادارے قائم نہیں ہونے دیتے کہ تعلیم کے ذریعے بلوچوں میں شعور پیدا ہوگیا تو وہ سب سے پہلے ان کے وسائل لوٹ کر دنیا بھر میں عیش کرنے والے سرداروں اور نوابوں پر نظر ڈالیں گے۔ اسی طرح یہ بلوچ رہنما صوبے میں صحت کی سہولتیں فراہم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ نئی صوبائی حکومت سے باشعور بلوچ باشندوں نے اچھی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ بلوچستان کو پاکستان کا معاشی مستقبل قرار دینے والے عمران خان فوج کے تعاون سے صوبائی حکومت کی فی الواقع شراکت دار بن جائیں تو صوبے اور ملک کی حالت فی الواقع تبدیل ہو سکتی ہے اور عمران خان کا تبدیلی لانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔٭