تھر کا بھوکا بیٹا اور شہر کا سرکاری بابو

’’بابو صاب! غربت بھلے نہ مٹاؤ، مگر غریبوں کا مذاق تو مت اڑاؤ!‘‘
یہ الفاظ کس نے، کہاں اور کب کہے؟ کسی کو نہیں معلوم!
ممکن ہے کہ یہ الفاظ ہری پور کی چمکتی ہوئی دوپہر یا ایبٹ آباد کی بجھتی ہوئی شام میں کسی مزدور نے کسی سفید گاڑی اور سفید لباس والے سرکاری اہلکار کو کہے ہوں! کیوں کہ سرسبز اور خوبصورت پہاڑوں کے سائے تلے جیتے ہوئے غریب لوگ سرکاری افسروں کو ’’بابو‘‘ بلاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ان حسین مگر غریب علاقوں میں ہر سفید پوش شخص کو بابو بلایا جاتا تھا۔ گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں بنی ہوئی اکثر پاکستانی فلموں میں ایک شہری بابو ہوا کرتا تھا۔ ایک پہاڑوں کی چھیل چھبیلی لڑکی جو شہری بابو کو اپنا دل دے بیٹھتی ہے اور شام کو ڈوبتے ہوئے سورج کے پس منظر میں ایک اداس گیت گاتی ہے۔ وہ انتظار کا گیت ہے۔ گاؤں کی گوری کا شہری بابو کے لیے انتظار!!
کیا وہ انتظار صرف کل تک محدود تھا؟ کیا اب ’’شہری بابو‘‘ کا انتظار ختم ہوگیا ہے؟
اگر وہ پہاڑوں میں شہری بابو کے لیے پکار نہیں تو پھر یہ الفاظ کس نے کہے کہ:
’’بابو صاب! غربت بھلے نہ مٹاؤ، مگر غریبوں کا مذاق تو مت اڑاؤ!‘‘
سندھ میں ریلوے کے ٹکٹ چیکر کو بھی بابو کہا جاتا ہے۔ سندھ میں لوکل ٹرینوں میں دس پندرہ منٹ یا آدھے گھنٹے کا سفر کرنے والے اور اپنے گاؤں کے چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر اترنے والے غریب لوگ عام طور پر ٹکٹ نہیں لیتے۔ وہ بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہیں۔ جب وہ کبھی پکڑے جاتے ہیں، تب وہ ریلوے کے بابو کے قدموں میں گر جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ شاید سندھ کے کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر رکی ہوئی لوکل ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے ایک غریب مسافر نے ریلوے بابو کی کوئی دلخراش بات سن کر دونوں ہاتھ باندھ کر اس سے معافی مانگتے ہوئے کہا ہو:
’’بابو صاب! غربت بھلے نہ مٹاؤ، مگر غریبوں کا مذاق تو مت اڑاؤ!‘‘
اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الفاظ کسی انسان کے ہونٹوں پر نہ آئے ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ الفاظ اس مور کی چیخ میں موجود ہوں، جو کسی بنگلے کے لان میں نہیں بستا۔ جو کسی چڑیا گھر کے پنجرے میں نہیں رہتا۔ جو اب بھی صحرائے سندھ کے خوبصورت پہاڑ کارونجھر کے قریب اڑ کر بیٹھتا ہے اور بھیگی ہوئی آنکھوں سے امیروں کو غریبوںکے ساتھ سیلفیاں بناتے دیکھتا ہے۔ اگر تھر کے مور تھر سے اس طرح محبت کرتے ہیں، جس طرح غریب بچے اپنی بھوکی ماں سے محبت کرتے ہیں۔ جب تھر کے مور تھر کے لوگوں کی توہین ہوتے دیکھتے ہیں، تو ان کے گلے میں غیرت کی لہر اٹھتی ہے اور وہ کوک کی صورت کارونجھر کی روح کو کاٹتی ہوئی بہت دور نکل جاتی ہے۔ ایسی کوئی کوک ایسے الفاظ میں ڈھل سکتی ہے کہ:
’’بابو صاب! غربت بھلے نہ مٹاؤ، مگر غریبوں کا مذاق تو مت اڑاؤ!‘‘
مگر غربت مٹانے پر بضد سیاسی شہزادے کسی کی نہیں سنتے۔ وہ اپنی بات کیے جاتے ہیں۔ وہ اس کا خیال بھی نہیں رکھتے کہ ان کی دل جوئی اہلیان تھر کے لیے دل آزاری کا باعث بن رہی ہے۔
گزشتہ دن ایسے ہی سندھ کے سیاسی شہزادوں اور سرکار کے بابو لوگوں کا ایک وفد تھر گیا اور اس وفد نے تھر میں قحط کا جائزہ لیا۔ میں نہیں جانتا کہ سیاسی شہزادوں اور بابو لوگوں کے اس وفد نے تھر میں قحط کی صورت حال کا جائزہ کس طرح لیا؟ وہ جو مٹھی میں پورے پروٹوکول کے ساتھ پہنچے۔ جنہوں نے وہاں پہنچ کر تھر کے خاص پکوان کھائے۔ جنہوں نے تھر میں پیپلز پارٹی کے ہندو لیڈران والے ’’ملانی خاندان‘‘ سے ملاقات کی۔ وہ جنہوں نے سرکاری افسران سے تھر کے قحط کے بارے میں بریفنگ لی اور میڈیا میں منہ دکھا کر اپنا فرض پورا کیا۔ ان کو نہیں معلوم کہ جب تھر میں بادل نہیں برستے، تب صرف مور اور ہرن ہی پانی کی بوند بوند کو نہیں ترستے، بلکہ تھر کے کنویں تھر کے لوگوں کی آنکھوں کے مانند سوکھ جاتے ہیں۔ جب تھر میں قحط پڑتا ہے، تب غریب خاندان شہر کی طرف روانہ ہونے لگتے ہیں اور اپنے گاؤں والوں سے گلے ملتے ہوئے جدائی کی اس گھڑی میں آنسو نہیں بہاتے۔ ان کو پانی کے ایک ایک قطرے کا احساس ہوتا ہے۔
قحط کیا ہے؟ قحط کیسے آتا ہے؟ قحط اپنے ساتھ کیا لے جاتا ہے؟ ایسے سوالات کو وہ وزیر نہیں سمجھ سکتے جو لوگوں کے مسائل حل کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں، مگر پانچ برس تک اپنا گھر بھرتے رہتے ہیں۔ جب وہ پکڑے جاتے ہیں اور کوئی سفارش ان کے کام نہیں آتی، تب وہ لوٹ کھسوٹ کے آدھے مال سے پلے بارگین کرتے ہیں۔
وہ سب شہری بابو جو قیمتی لباس پہن کر اور آنکھوں پر اصل سن گلاسز سجا کر تھر میں پہنچے اور جنہوں نے ایئر کنڈیشنڈ دفاتر اور بنگلوں میں بیٹھ کر تھر میں موجود قحط کا جائزہ لیا، ان سے کسی نے نہیں کہا کہ:
’’بابو صاب! غربت بھلے نہ مٹاؤ، مگر غریبوں کا مذاق تو مت اڑاؤ!‘‘
کیا سندھ کے وہ وزیر جو سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر تھر میں قحط کا جائزہ لینے آئے، کیا وہ واقعی قحط کا جائزہ لینے آئے تھے یا عمران خان سے سیاسی مقابلہ جیتنے کے لیے فوری طور وہاں پہنچے اور فوری طور پر واپس روانہ ہوئے۔ وہ اتنی دیر تک تھر میں رکے، جتنی دیر تک کوئی فضول خیال مصروف دماغ میں رہتا ہے۔ جب تک وفاقی حکومت کا کوئی وفد تھر جائے اور تھر کی صورت حال کا جائزہ لے اور میڈیا کو تھر کی افسوسناک صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے صوبائی حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنائے، اس سے قبل سندھ حکومت کا وفد تھر سے ہو آیا اور اب کہا جائے گا کہ تھر کے بارے میں سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ کیوں کہ سندھ حکومت کے وزیروں نے تھر کے قحط کا جائزہ وفاقی حکومت سے پہلے لیا ہے۔ اگر عمران خان اپنے وزیر صحت عامر محمود کیانی کو تھر میں بیماریوں کی صورت حال کا جائزہ لینے کو نہ کہتا تو شاید سندھ حکومت کو اپنے وزیروں اور سرکاری بابو لوگوں کے وفد کو تھر بھیجنے کا خیال تک نہ آتا۔
غریبوں کا خیال کس کو آتا ہے؟ اور وہ بھی تھر کے غریبوں کا! ان غریبوں کا جو گہرے رنگ کے کپڑے اس لیے نہیں پہنتے کہ وہ اچھے لگیں، بلکہ وہ لباس کے لیے تیز رنگوں کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں کہ وہ جلد میلے نہ نظر آئیں۔ وہ لوگ صوفوں اور کرسیوں پر نہیں بیٹھتے۔ وہ لوگ خاک نشین ہیں۔ وہ خاک پر چلتے ہیں۔ خاک پر بیٹھتے ہیں۔ خاک پر سوتے ہیں اور خاک میں دفن ہو جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں میڈیا کو نہیں معلوم کہ کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ وہ لوگ عام طور پر دن میں ایک بار کھانا کھاتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایک دن بغیر کھائے گزر جاتا ہے۔ جن لوگوں کے لیے پانی ایک خواب ہو، وہ لوگ کیوں نہ کہیں کہ ’’سائیں! گندم تو میوہ ہے‘‘ ان لوگوں کے بچے بھوک میں بڑے ہوتے ہیں۔ وہ پیاسی آنکھوں والے لوگ بڑے صبر والے ہیں۔ وہ لوگ کبھی احتجاج نہیں کرتے۔ کبھی دھرنا نہیں دیتے۔ کبھی کسی کا پتلا نہیں جلاتے۔ کبھی کسی کے خلاف نعرے نہیں لگاتے۔ شاید یہ لوگ اپنی اس اچھائی کی وجہ سے ابھی تک انصاف سے محروم رہے ہیں۔ جب ایسے سچے اور معصوم لوگوں پر سیاست چمکائی جاتی ہے، تب اقتداری سیاست اور بھی بری نظر آتی ہے۔ وہ بری سیاست ہے، جس نے میڈیا میں صرف یہ دکھایا ہے کہ ’’سندھ حکومت کے وزیروں نے تھر میں قحط کی صورت حال کا جائزہ لیا۔‘‘
کاش! میڈیا ان سے پوچھتا کہ آپ نے تھر میں قحط کا جائزہ کیسے لیا؟ آپ تھر کے کتنے دیہاتوں میں گئے؟ تھر کے گاؤں تو ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ پھر آپ نے مختلف دیہاتوں کے درمیاں کس طرح سفر کیا؟ کیا آپ کی گاڑی کا اے سی کام کر رہا تھا؟ کیا آپ نے منرل واٹر کی ٹھنڈی بوتلوں کا بندوبست کیا تھا؟ کیا آپ نے ایک ایک گاؤں میں اتر کر قحط کو دیکھا؟ قحط کو دیکھتے ہوئے آپ کے قیمتی کپڑے میلے تو نہیں ہوئے…!!؟
تو آپ کا کہنا ہے کہ آپ نے قحط کو دیکھا۔ مہربانی کرکے بتائیں کہ قحط کیسا ہوتا ہے؟ کیا قحط انسانوں جیسا ہوتا ہے؟ کیا قحط کی صورت ہوتی ہے؟ کیا قحط کی آنکھیں ہوتی ہیں؟ کیا قحط کی آنکھوں میں اہلیان تھر کو دیکھ کر آنسو بھر آتے ہیں؟ کیا قحط تھر میں آنے پر شرمندہ تھا؟ کیا آپ کی قحط سے بات ہوئی؟ آپ نے قحط سے کیا کہا؟ قحط نے آپ کو کیا جواب دیا؟ قحط آخر تھر میں کب تک رہے گا؟ قحط تھر سے کب جائے گا؟ ایسے اہم سوالات تو میڈیا نے تھر جانے اور واپس آنے والے وفد سے پوچھے ہی نہیں۔
اگر تھر کے دورے پر آئے ہوئے سندھ سرکار کے وفد کو بہت جلدی تھی تو میڈیا تھر کے کسی بھوکے اور بیمار شخص سے بات کرلیتا۔ اس سے پوچھتا کہ قحط کیسا ہوتا؟ قحط کب آتا ہے؟ اور قحط کب جاتا ہے؟ وہ تھری شخص میڈیا کو اپنی ذات جیسی ٹوٹی پھوٹی زبان میں بتاتا کہ:
’’سائیں! جب نہ بادل آئیں
اور نہ سرکاری بابو آئیں
تب قحط آتا ہے!
روتے ہوئے بچے کی طرح
مرتے ہوئے جانور کے مانند
قحط موسم گرما کے دن کی جلتی ہوئی رات ہوتا ہے
قحط سرد موسم کی روتی ہوئی رات ہوتا ہے
قحط خاموش بات ہوتا ہے
وہ خاموش بات بھوک کی وجہ سے مرجانے والے
شخص کے ہونٹوں پر جم جاتی ہے‘‘
اگر ماڈرن میڈیا کی تشفی نہ ہو اور وہ مزید معلوم کرنے کے لیے پوچھے کہ:
’’بابا! بادل تو ہم نے دیکھے ہیں
مگر یہ سرکاری بابو کون ہوتے ہیں؟
تب تھر کا بھوکا بیٹا
اپنی سوکھی ہوئی انگلی اس طرف اٹھائے گا
جس طرف پیپلز پارٹی کے بینر پر بلاول
اور پی ٹی آئی کے پینافلکس پر عمران خان
کی تصاویر لہراتی نظر آئیں گی!
٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment