وزیراعظم عمران خان نے اپنا منصب سنبھالنے کے چالیس روز بعد ہی اعتراف کرلیا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ کرنا مجبوری ہے، کیونکہ اس کا فوری علاج ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں نہ بڑھائیں تو قرضہ مزید بڑھ جائے گا، ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے۔ بدعنوان افراد کان کھول کر سن لیں کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت (NRO) نہیں ہوگی۔ نیب ایک آزاد ادارہ ہے، وہ تحقیق و تفتیش کے لئے مجھے بھی بلا رہا ہے، تاہم اس کی رفتار بہت سست ہے۔ یہ ادارہ اگر میرے ماتحت ہوتا تو اب تک پچاس بڑے مرغے جیل جا چکے ہوتے۔ کئی برسوں سے تواتر کے ساتھ تبدیلی لانے کا نعرہ لگانے والے عمران خان متعدد بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آچکی ہے‘‘۔ لیکن اب وہ فرماتے ہیں کہ فوری طور پر تبدیلی نہیں آسکتی، تبدیلی ایک سال بعد نظر آئے گی۔ انتخابی مہم کے دوران نہایت پرکشش منشور پیش کرنا اور جلسوں میں بلند بانگ نعرے لگانا بہت آسان ہے۔ سابقہ حکومتوں کی بدعنوانیوں اور نااہلی و ناانصافی کے ڈھول پیٹ کر عوام کو نت نئے خواب دکھانا ہر سیاسی جماعت کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل پاکستان کے مظلوم باشندے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کے طویل دور اقتدار کی بدترین کارکردگی اور قومی وسائل کی ان کے ہاتھوں انتہا درجے کی لوٹ کھسوٹ سے اس قدر بددل اور مایوس ہو چکے تھے کہ انہوں نے عمران کے تبدیلی کے نعرے کو آزمانے کے لئے تحریک انصاف کے امیدواروں کو زیادہ سے زیادہ کامیاب کراکے وفاق اور تین صوبوں میں حکومتیں تشکیل دینے کا موقع دیا۔ اس کے نتیجے میں فوری طور پر یہ تبدیلی ضرور آئی کہ چالیس پچاس سال سے باری باری برسر اقتدار آکر ملک کو لوٹنے والی دو بڑی جماعتوں کی جگہ پہلی مرتبہ ایک تیسری قیادت سامنے آئی، لیکن لوگوں کو نعروں اور چہروں کی تبدیلی مطلوب نہیں تھی۔ وہ توقع کررہے ہیں کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد اگر فوری طور پر کوئی بڑی اور بہتر تبدیلی نہ آئے تو کم از کم اس جانب پیش رفت تو دکھائی دے، مگر وائے افسوس کہ اس مرتبہ بھی انہیں نئی حکومت کے آغاز ہی میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اہل وطن کو اچھی طرح یاد ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات سے قبل میاں شہباز شریف اور کئی لیگی رہنماؤں نے اپنا یہ وعدہ مسلسل دوہرایا تھا کہ برسر اقتدار آتے ہی ملک بھر سے چھ ماہ کے عرصے میں لوڈشیڈنگ کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا جائے گا۔ وہ بخیر و خوبی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرکے اقتدار بدر ہو چکے، لیکن بجلی کا بحران نہ صرف برقرار ہے، بلکہ اس پر قابو پانے کے آثار موجودہ دور حکومت میں بھی نظر نہیں آتے۔ تبدیلی کے سب سے بڑے علمبردار عمران خان مہنگائی میں اضافے اور بجلی، گیس کی قیمتیں بڑھانے کو ناگزیر قرار دیں اور کہیں کہ تبدیلی فوری طور پر نہیں آسکتی، تو ان پر اعتبار کی کیا بنیاد باقی رہتی ہے۔ انہوں نے سو دن بعد وزیروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اشارہ دیتے ہوئے عوام کو ایک سال تک صبر کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جس کے بعد انہیں موجودہ اور سابقہ حکومت کی کارکردگی کا فرق معلوم ہوگا، چہ خوب۔
میاں شہباز شریف نے صرف ایک چیز یعنی لوڈشیڈنگ میں کمی کے لئے چھ ماہ کا وعدہ کیا تھا جو ہنوز شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے، تو عمران خان کا ایک سال کیا کرامت دکھا سکے گا؟ وہ تو ’’تبدیلی آچکی ہے‘‘ کا نعرہ لگانے کے چالیس روز بعد ہی مہنگائی میں اضافے کو مجبوری قرار دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کا فوری علاج ممکن نہیں ہے۔ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ گیس اور بجلی کی قیمتیں نہ بڑھائیں تو ملک پر قرضے کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا واضح اعلان کرنے کے بعد قرضے اور گدائی کا کشکول اس کے آگے پھیلانا بھی اس حکومت کی مجبوری ہے تو باخبر حلقوں، دانشوروں اور مبصرین کو اس پر کوئی حیرت نہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ سے یوٹرن کو تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاست کی بنیاد قرار دیتے چلے آئے ہیں۔ ہر دور میں حکمرانوں کو ڈاکٹر سلمان شاہ جیسے نام نہاد ماہرین معاشیات مل جاتے ہیں جو عوام کی ترجمانی کرنے اور ان کے مسائل کا قابل عمل حل پیش کرنے کے بجائے کہتے ہیں کہ حکومت کے سامنے قرضوں کے پہاڑ ہیں۔ ہمارے محفوظ ذخائر بھی قرضوں کی بنیاد پر بنے ہیں۔ ڈاکٹر سلمان شاہ کی طرح اور بہت سے ملکی ماہرین معاشیات، بین الاقوامی طور پر بڑی شہرت رکھتے ہیں، لیکن مختلف حکومتوں کے ساتھ دینے کے باوجود ان کی مہارت ملک اور عوام کے کچھ کام نہ آسکی۔ اس کے برعکس انہوں نے بدعنوان حکومتوں کی تائیدو حمایت اور انہیں لوٹ کھسوٹ کے نت نئے راستوں پر ڈالنے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار و استعمال کیا ہے۔ ڈاکٹر سلمان شاہ یہ تو بتانے میں کوئی تأمل نہیں کرتے کہ موجودہ حکومت کے سامنے بھی قرضوں کے پہاڑ ہیں، لیکن یہ اعتراف نہیں کرتے کہ سابق وزیر خزانہ کی حیثیت سے اور شوکت عزیز جیسے قومی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے والے وزیر خزانہ کے بطور مشیر اور نواز شریف کے ساتھ کام کرنے کے دوران قرضوں کے پہاڑ کھڑے کرنے میں ان کا کیا کردار رہا ہے۔ نیب کی سست رفتاری کا محض تذکرہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ موجودہ حکومت کو لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کیلئے اس کی رفتار بڑھانے کے اقدامات کے علاوہ کچھ نئی حکمت عملی اور تدابیر اختیار کرنی ہوں گی۔ عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا سب سے آسان ضرور ہے، لیکن یہ مسائل کا حل ہے نہ اچھی حکمرانی کی کوئی مثال۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتصادی بحران پر قابو پانے کیلئے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کو تمام کاموں پر فوقیت دینی ہوگی۔ ایک بار یہ کام پورے عزم اور جرأت کے ساتھ انجام پذیر ہوجائے تو دوسرے کام بھی آسان ہو جائیں گے اور موجودہ حکومت ناکامی و بدنامی کے داغ سے بھی بچ سکے گی۔ دلفریب نعروں کے ساتھ سابقہ حکومت کو گرا کر نئی حکومت بنانے اور برسر اقتدار آنے کا یہ شاید آخری موقع ہو، جو تحریک انصاف اور عمران خان کو ملا ہے۔ اگر چند ماہ میں یہ ثابت ہوگیا کہ عوام کو ایک بار پھر نئے انداز سے دھوکا دیا گیا ہے تو اس کا ردعمل اتنا شدید ہوسکتا ہے کہ سب کچھ ہی الٹ پلٹ کر رہ جائے اور پھر نہ بانس رہے نہ بانسری۔ ٭
٭٭٭٭٭