سیرت کاملہ کی امتیازی خصوصیات

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے گزرے ہیں، جنہیں مہد سے لحد تک اتنے مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو، جو رسول اقدسؐ کی تریسٹھ سالہ حیات مبارکہ میں پیش آئیں۔ آپؐ تقویم اسلامی کے تیسرے ماہ مبارک یعنی ربیع الاول میں پیدا ہوئے۔ عربی زبان میں ربیع الاول کے لغوی معنی پہلی بہار کے ہیں۔ آپؐ کی ولادت با سعادت سے کائنات میں بہار آئی۔ ازلی سعادت اور ابدی مسرتوں کا نور چمکا۔ رشد و ہدایت اور ایمان کی ایسی بہار آئی کہ جس کے بعد کوئی خزاں نہیں۔ ربیع الاول پہلی اور ابدی بہار بن کر انسانیت کو حیات جاودانی عطا کر گئی۔ آپؐ کی پیدائش سے پہلے پوری انسانیت جہالت اور گمراہی کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کاروان زندگی اپنی راہ اور منزل گم کرکے بھول بھلیوں میں سرگرداں تھا۔ حیات انسانی مجرموں، ظالموں اور استحصالی قوتوں کی محکوم و غلام تھی، کوئی نجات دہندہ، رہبر، فریاد رس اور غمخوار نہ تھا۔ روح انسانی ہی نہیں، روح کائنات بھی مضطرب و پریشان تھی۔ کیونکہ اسے اس نجات دہندہ کا انتظار تھا جسے خاتم النبیین، سید المرسلین اور رحمۃ للعالمین بن کر انسانوں کیلئے نہیں، بلکہ تمام عالمین کے لیے انقلاب برپا کرنا اور معاشرے کی مثالی تعمیر و تشکیل کرنا تھی۔ آپؐ حضرت ابراہیمؑ کی اسی دعا کی تکمیل تھے، جو انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ مکرمہ میں خدا کے حضور کی تھی۔ اے ہمارے رب! انہی میں سے ایک رسول بھیج دے، جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقیناً تو غلبے والا، حکمت والا ہے۔ (سورۃ بقرۃ)
حق تعالیٰ نے اپنے خلیلؑ کی دعا قبول کی اور کعبہ شریف کو رشد و ہدایت کا پہلا مرکز قرار دیا اور فرمایا ’’یہ گھر جو لوگوں کیلئے بنایا گیا ہے وہی ہے جو مکہ میں ہے، مبارک اور دنیا کیلئے موجب ہدایت۔‘‘ پھر فرمایا ’’اے لوگو تمہارے پاس ایک پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تم میں سے ہیں، جنہیں تمہاری ذرا سی تکلیف بھی نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، ایمان والوں کیلئے شفیق اور مہربان ہیں۔‘‘ (سورۃ القلم)
’’بے شک مسلمانوں پر خدا کا بڑا احسان ہے کہ انہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو انہیں خدا کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، انہیں پاک صاف کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ (سورۃ آل عمران)
پھر رسول اکرمؐ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے محمدؐ! ہم نے تمہیں لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے، جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے درحقیقت خدا کی اطاعت کی اور جس نے منہ موڑ لیا تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘ (سورۃ النسائ)
’’رسول خدا کی حیات طیبہ میں تمہارے لئے ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب) ’’جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا کامیابی کو پالے گا۔‘‘
(سورۃ انفال) ’’اور رحم تو جب ہوگا جب خدا اور اس کے رسول کا حکم مانو۔‘‘ (سورۃ آل عمران)
نبی اکرمؐ کی سیرت مجسم قرآن تھی، آپؐ کی ہستی میں حسن صورت اور حسن سیرت کے تمام محاسن موجود تھے۔ حق تعالیٰ نے آپؐ میں تمام اوصاف اور کمالات عطا کئے تھے، جو دیگر پیغمبروں میں تھے۔ خاتم النبیینؐ حسن جمال کا ظہور کامل اور آپؐ کی ذات افضلیت اور اکملیت کا معیار آخر ہے۔ آپؐ نہ صرف حسن و جمال کا پیکر تھے، بلکہ آپؐ کی سیرت اور اسوۂ حسنہ احسن ترین صورت میں چودہ سو سال سے جلوہ افروز ہے۔ آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین بلندی پر فائز تھے۔ ’’بے شک آپؐ اخلاق کے بلند مقام پر فائز ہیں۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے اخلاق کے بارے میں فرمایا ’’آپؐ کا اخلاق قرآن ہی ہے۔‘‘ آپؐ کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ آپؐ قیامت تک کیلئے تمام بنی نوع انسان کے لیے نبی ہیں۔ آپؐ پر جو کتاب نازل کی گئی، وہ بھی زندہ و جاوید ہے اور آپؐ کے سینکڑوں معجزات میں سے سب سے بڑا امتیازی معجزہ ہے، جو ہر زمانے میں انسانوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ اس کتاب کی زندہ تفسیر خود آپؐ کی سیرت طیبہ ہے، جو زندگی کے ہر گوشے میں کمال زندگی کا آئینہ دار ہے۔
اس دنیا میں بہت سے ایسے انسان گزرے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی ایک یا ایک سے زائد شعبوں میں کمال حاصل کر لیا ہو اور تاریخ ساز کارنامہ انجام دیدیا ہو، لیکن زندگی کے تمام شعبوں میں عہد آفریں و تاریخ ساز مثبت تعمیری کام انجام دینے والی ہستی صرف نبی اکرمؐ کی ذات مقدسہ ہی ہے۔ آپؐ نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود صرف تیئس سال میں زندگی کے ہر شعبے میں ایسا عہد آفرین انقلاب برپا کیا کہ دنیا کی تاریخ بدل گئی۔ ہادی عالمؐ نے ایسے عالمگیر مثالی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کی جو ہر قسم کے ظلم و استحصال سے پاک اور اخوت و محبت، صبر و استقلال اور حریت و مساوات کی بنیادوں پر استوار تھا۔ حجۃ الوداع کے تاریخی خطبے میں حقوق انسانی کا مکمل تحفظ اور احاطہ کیا گیا، چودہ سو سال پہلے پیش کیا جانے والا یہ چارٹر ملکوں، نسلوں، قبیلوں، رنگوں اور زبانوں کی حدود پھاند کر پوری انسانیت کے تمام ادوار کو اپنی حدود میں سمیٹ لیتا ہے۔ آپؐ توحید کے سب سے بڑے داعی، انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار، محبت و شفقت، عفو و درگزر کے مثالی پیکر، پاکیزہ تہذیب و تمدن و ثقافت کے بانی، عظیم ترین مصلح، سب سے بڑے مدبر و مفکر، رہبر اور دنیا کے کامل ترین انسان ہیں۔
سرکار دو عالمؐ بیٹے کے روپ میں ہوں، شوہر یا باپ کے، شہری ہوں، ہمسائے ہوں، دوست یا رشتے دار، مبلغ ہوں یا جرنیل، فاتح کی حیثیت میں ہوں یا حکمراں کی، زاہد کی حیثیت میں ہوں یا عابد کی، جج کی حیثیت میں ہوں یا طبیب کی، معلم کی حیثیت میں ہوں یا تاجر کی، رہبر کامل کی حیثیت میں ہوں یا عظیم قائد کی غرضیکہ تمام حیثیتوں میں آپؐ کی ذات اقدس ہمہ جہت، جامع الصفات عظیم ترین اور مثالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے ساتھ قرآن کریم میں ہر جگہ نبی اکرمؐ کی اطاعت پر زور دیا۔ یعنی خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے نبی اکرمؐ سے محبت اور آپؐ کی اطاعت ضروری ہے۔ خدا کے بعد جس ہستی کی قرآن میں سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہے، وہ رحمۃ للعالمینؐ کی ذات مبارکہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک ہم نے آپؐ کو روشن فتح عطا کی اور آپؐ کے لیے آپؐ کا ذکر بلند کیا۔‘‘ (الم نشرح)
آپؐ کے ذکر کے بغیر نہ اذان مکمل ہوتی ہے، نہ نماز۔ قرآن میں آپؐ کو کائنات کا سراج منیر کہا گیا۔ آپؐ میں نہ صرف انسانیت کے اوصاف حمیدہ، ایفائے عہد، مہمان نوازی، شجاعت، سخاوت وغیرہ بدرجہ اتم موجود تھے، بلکہ لوگوں کی خیر خواہی، ہمدردی، غمخواری، دریا دلی، رحم دلی جیسے جذبات و احساسات بھی اکمل طور پر موجود تھے۔ یہ وہ جواہر ہیں، جن کا اہل عرب میں فقدان تھا۔ یہ وہ اوصاف ہیں جن کا اعتراف آپؐ کے دشمنوں نے بھی کیا۔ آپؐ کی قوت برداشت کا یہ عالم تھا کہ سر پر کوہ الم ٹوٹ پڑا، مگر آپؐ کے قدم مبارک میں لغزش نہ آئی، حتیٰ کہ آپؐ کو وہ اذیتیں سہنا پڑیں کہ اپنا وطن اپنا شہر چھوڑنا پڑا۔ مکہ چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا، مدینہ میں آپؐ نے فلاحی ریاست کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ یہ ایک ایسی مثالی فلاحی ریاست تھی، جس کی بنیادیں حق تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ، رسول اقدسؐ کی قائدانہ سیاست، ملت اسلامیہ کی اخوت و مساوات، احترام انسانیت اور تمام بنی آدم کی محبت کے عظیم اصولوں اور عملی نمونوں پر قائم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام کو مقامی یا قومی رنگ دینے کے بجائے اسے بین الاقوامی حیثیت دی گئی۔ اس کے نتیجے میں جو مدینہ میں استحکام قائم ہوا، وہ حجازی عربی اصطلاحات پر مبنی نہیں تھا، بلکہ قرآن میں اسے ’’امت‘‘ کہہ کر پکارا گیا۔ یہ انقلاب آفرین تصور تھا اپنی ماہیت کے اعتبار سے۔ یہ نظریہ ان تمام سماجی تعریفوں، سیاسی اونچ نیچ اور اقتصادی ناہمواریوں کی نفی کرتا تھا، جس کی بنیاد خون کے رشتے پر قائم معاشرے پر ہوتی ہے۔ چنانچہ رنگ نسل، وطن، قومیت کے تمام تفرقے مٹ گئے اور امت مسلمہ میں وہ تمام لوگ شامل ہوگئے جو اسلام کو ماننے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔ امت کے اسلامی تصور نے بحیثیت مجموعی تمام عالم اسلام کو جس مضبوط رشتے میں پرو دیا، اس کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک قوت تسلیم کر لیا گیا۔ آپؐ کی سب سے بڑی امتیازی شان یہ ہے کہ کرئہ ارض پر آباد کوئی خطہ زمین ایسا نہیں، جہاں شب و روز خدا کی وحدانیت و حقانیت اور رحمۃ للعالمینؐ کی رسالت کا اعلان نہ ہوتا ہو۔ دن کے چوبیس گھنٹوں میں زمین کے کسی نہ کسی کونے اور دنیا کی آبادی کے کسی نہ کسی گوشے میں اذان کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے، ہر روز پانچ مرتبہ بلندو بالا میناروں سے جس نام کی پکار خالق کے نام کے ساتھ فضاؤں میں گونجتی ہے، وہ اس عظیم و مقدس ہستی کی ہے، جس بصیرت سے محروم دنیا نے ایک زمانے میں محض ایک بے کس یتیم کی حیثیت سے آپؐ کو جانا تھا، پوری دنیا میں اب اس یتیم کا راج ہے۔ آپؐ کی شخصیت کی جامعیت اور عظمت کے لئے اتنا کہنا کافی ہے۔
یا صاحب الجمال یا سید البشر
من و جہک المنیر لقد نور القمر
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment