مسعود ابدالی
پاکستان نے انسداد قزاقی کی مشترکہ ٹاسک فورس یا Counterpiracy Combined Task Force (CTF) سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔CTF-151 کے نام سے مشہور یہ ادارہ 2009ء میں خلیج عدن اور صومالیہ کے ساحلوں پر پے درپے بحری قزاقی کی وارداتوں کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، جرمنی، جاپان اور ہندوستان سمیت 25 ممالک اس کے رکن ہیں۔ یہ دراصل CTF-150 کا تسلسل ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں سمندر کے ذریعے ہونے والی دہشت گردی پر نظر رکھنا ہے۔ پاکستان اس ٹاسک فورس کا اہم رکن تھا اور بیڑے میں شامل پاکستان کے بحری جہازوں نے بہادری اور مہارت سے قزاقی کی کئی وردات کو ناکام بنایا ہے۔ مغربی بحر ہند، بحر احمر، نہر سوئز، خلیج عدن، رودبار موزمبیق اور اس کے قرب و جوار کے جغرافیہ پر پاکستانی ملاحوں کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ یمن، صومالیہ، جبوتی، کینیا، تنزانیہ اور جزیرہ مڈغاسکر میں مغربی پرچم لہراتے جہاز وں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جب کہ ساحل پر آباد عرب، سواحلی اور افریقی مسلمان سبز ہلالی پرچم میں اپنائیت محسوس کرتے ہیں، اسی بنا پر مغربی بحر ہند میں CTF جہازوں کے قافلے کی قیادت پاکستانی پرچم بردار جہاز کرتے ہیں۔ ٹاسک فورس کے اولین کمانڈر پاکستانی بحریہ کے کموڈور علی عباس تھے اور گزشتہ نو برسوں کے دوران 5 بار CTF کی کمان پاکستانی بحریہ کو سونپی جاچکی ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی CTF سے پاکستان کی علیحدگی کی بنیادی وجہ ہے۔ ضابطے کے تحت CTF میں شامل جہازوں کے ایندھن کا خرچ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ قزاقی سے سب سے زیادہ خطرہ امریکہ کے تجارتی جہازوں کو ہے۔ جیسے افغانستان میں فراہم کئے جانے والے سامان اور خدمات کے عوض دیا جانے والاکولیشن سپورٹ فنڈ روک لیا گیا، اسی طرح امریکہ نے دو سال سے CTF کے پاکستانی جہازوں کے ایندھن کا خرچ بھی منقطع کر دیا ہے۔ پاکستانی بحریہ ادھر کچھ عرصے سے عام ڈیزل کے بجائے ماحول دوست میرین ڈیزل استعمال کررہی جو خاصہ مہنگا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے چند ہفتہ پہلے CTF کمانڈر سنگاپور کے نائب امیر البحر (ریئر ایڈمرل) سا شی ٹٹ (Saw Shi Tat) کو آگاہ کر دیا تھا کہ اگر ایندھن کا مسئلہ حل نہ ہوا تو پاکستان CTF سے نکل جائے گا۔
الجزیرہ کے مطابق کل بحرین میں کمبائنڈ میری ٹائم فورس Combined Maritime Forces (CMF) کی ترجمان محترمہ Wendy Wheatley نے بتایا کہ پاکستان اب CTF کا حصہ نہیں رہا۔ ترجمان نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی بحریہ کے تجربے، مہارت اور صلاحیت سے اتحادیوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور پاکستانی بحریہ کی کمی بری طرح محسوس کی جائے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ (شکایت دور ہونے پر) پاکستان دو بارہ CTF کاحصہ بن جائے گا، جس کی ہمیں شدید ضرورت ہے۔
امریکہ کے صدر نکسن کہا کرتے تھے: There is no free lunchپاکستان کا یہ قدم صدر نکسن کے قول کی عملی تشریح ہے۔
شاباش قطر:
کئی سال بعد گزشتہ روز پہلی بار ڈیزل سے بھرے ہوئے 6 ٹرک غزہ پہنچے۔ یہ ایندھن قطر کی جانب سے اپنے فلسطینی بھائیوں کیلئے تحفہ ہے۔ قطری حکومت نے ڈیزل کی خریداری کیلئے 6 کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان غیر تحریری معاہدے کے تحت کل اسرائیل نے جنوبی غزہ میں کریم شلوم گیٹ کھول کر 6 ٹینکروں پر مشتمل قافلے کو غزہ جانے دیا۔ ان ٹینکروں کے ذریعے ساڑھے چار لاکھ لیٹر ڈیزل غزہ پہنچا دیا گیا۔ حماس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سے غزہ کے لوگوں کی مشکلات کم ہوں گی۔ اسکولوں، اسپتالوں اور شہری خدمات کے اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر ڈیزل فراہم جائے گا۔
یہ خبر دنیا کے ہر اس شخص کیلئے خوشی کا باعث ہے، جس کے دل میں انسانیت کی ہلکی سی بھی رمق موجود ہے، لیکن قارئین کو یہ سن کر حیرت ہوگی کی مقتدرہ فلسطین PA اور محمود عباس اس بات پر سخت برہم ہیں۔ ان کے کٹھ پتلی وزیر اعظم رامی حمد اللہ کو اس خبر پر سخت تشویش ہے۔ ان کے ترجمان نے کہا کہ ایندھن PA کی اجازت کے بغیر غزہ بھیجا گیا ہے، جو کسی صورت قابل قبول نہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو غزہ کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ PA کا مطالبہ ہے کہ ایندھن براہ راست غزہ بھیجنے کے بجائے قطر یہ رقم محمود عباس حکومت کو دے، جو خود ڈیزل خرید کر غزہ بھیجے گی۔ یعنی غزہ میں ایڑیاں رگڑتے بچوں کی امداد سے بھی انہیں اپنا بھتہ چاہئے۔ سنگ دلی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭