ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
جب تک ٹرمپ امریکی صدر ہیں، عالمی اور امریکی منظر نامے میں وہ رونق لگاکر رکھیں گے، ان کی حرکتیں دیکھ کر تو بھائی بھلکڑ یاد آجاتے ہیں، جن کی کہانی بچے پڑھتے تھے۔ ٹرمپ کی پانچ خصوصیات ہیں: ایک تو ٹوئٹ جو ان کا ایسا طوطہ بھی کہا جا سکتا ہے، جس میں ان کی جان ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے ٹوئٹ سے اکثر کسی نہ کسی کی ’’جان‘‘ لے لیتے ہیں اور ان کا نشانہ اکثر ان کے اپنے ساتھی ہی ہوتے ہیں، جنہیں وہ ٹوئٹ کے ذریعے عہدوں سے فارغ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ دوسرا ان کے اسکینڈل ہیں اور وہ بھی خواتین سے متعلق۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے، جب ٹرمپ خود اسکینڈلز میں ملوث ہیں، تو وہ اہم عہدوں پر بھی چن چن کر ایسے لوگوں کو لانا چاہتے ہیں، جو ان کی طرح ہوں، تاکہ سب ایک دوسرے سے کانے ہوں اور کوئی دوسرے پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ تیسر ا وہ برطرفیوں کا ناغہ بالکل نہیں کرتے۔ اگر کچھ دن گزر جائیں اور انہوں نے کسی کو برطرف یا استعفیٰ نہ لیا ہو تو لگتا ہے ٹرمپ کی طبیعت بگڑنے لگتی ہے، اس لئے وہ کسی نہ کسی کو باہر کی راہ دکھاتے رہتے ہیں۔ چوتھا وہ عالمی منظر نامے پر کوئی نہ کوئی اپنا ’’نقش‘‘ مستقل چھوڑتے رہتے ہیں، ایسے ’’نقش‘‘ جنہیں دیکھ کر عالمی رہنمائوں کے لئے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پانچویں خصوصیت تو ویسے اچھی ہے، وہ ہر چیز زبان پر لے آتے ہیں، جس میں پیسے سے ان کی محبت بھی شامل ہے، جس طرح انہوں نے تیل کی پیداوار بڑھوانے کے لئے سعودی قیادت کو دھمکی دی یا جس طرح پولینڈ کے صدر کی جانب سے اڈے کے لئے دو ارب ڈالر دینے کی پیشکش پر ان کی رال ٹپکتی نظر آئی اور فوراً پیشکش کو سنجیدہ قرار دے دیا۔ یہ اس کی تازہ مثالیں ہیں۔
خیر اس بار برطرفی نما استعفیٰ کا قرعہ فال اقوام متحدہ میں میں امریکی سفیر اور ٹرمپ کی چہیتی سمجھنی جانے والی نکی ہیلی کے نام نکلا ہے۔ لگتا ہے کوئی اور نہیں مل رہا ہوگا یا اسٹیبلشمنٹ نے کچھ آنکھیں دکھائی ہوں گی کہ مذاق بند نہیں کر سکتے تو اس کی رفتار ہی کچھ آہستہ کردو، اس لئے ٹرمپ نے نکی کو ہی نکا (چھوٹا) کرنے کا فیصلہ کیا۔ نکی ہیلی ٹرمپ کی چاہے کتنی بھی چہیتی ہوں، لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے وہ نکی ہی ہیں، کیوں کہ وہ اصلی نہیں، بلکہ نقلی امریکن ہیں، یعنی بھارتی نژاد ہیں۔ نکی نے اپنے آبائی ملک کی خدمت بھی بھرپور طریقے سے کرنے کی کوشش کی اور ٹرمپ اور اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لئے اسرائیل کا بھی ایسا ساتھ دیا، جیسے وہ خود اسرائیلی ہوں، لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے کہیں کوئی غلطی کی ہے، اس لئے ان کے خلاف سرکاری خرچ پر نجی طیاروں میں موج مستی کا اسکینڈل سامنے لایا گیا اور یوں ٹرمپ اور ان کی چہیتی کو پیغام دے دیا گیا کہ نکی کو اب بڑے گھر یعنی اقوام متحدہ سے واپس بلا کر گھر بھیجنے کا وقت آگیا ہے۔ سو نکی اپنے بڑے، ٹرمپ کو استعفیٰ دے کر گھر چلی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم ہر بار لکھتے ہیں کہ ٹرمپ ہمارے سیاستدانوں سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں، سو انہوں نے اور ان کی نکی نے استعفیٰ کی وجہ ’’ذاتی مصروفیات‘‘ بتائی ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں بتائی جاتی ہیں۔ چلیں کچھ بھی ہو، اس بہانے ٹرمپ کا اس ماہ کا برطرفی کا کوٹہ پورا ہوگیا اور ہمیں بھی کچھ فائدہ ہو سکتا ہے، کیوں کہ نکی کی جگہ جو بھی آئے گا، وہ پاکستان کے بارے میں اتنا نکا ذہن تو نہیں رکھتا ہوگا جتنا نکی ہیلی رکھتی تھی، کیوں کہ اس کی رگوں میں بھارتی ہندو خاندان کا خون دوڑ رہا تھا۔
ٹرمپ نے حال ہی میں ختم ہونے والے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا تھا، جو خطاب کم اور مذاق زیادہ تھا، اس لئے اجلاس میں موجود عالمی رہنما اپنی ہنسی پر قابو نہ پا سکے اور سب نے ایک ساتھ قہقہہ لگا دیا، جنرل اسمبلی اجلاس میں رہنما عالمی مسائل پر بات کرتے ہیں اور امریکی صدر کا خطاب تو بہت اہم سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ہے، لیکن ٹرمپ نے خطاب میں عالمی مسائل پر کم اور امریکہ میں اپنی حکومت کی کارکردگی پر زیادہ زور دیا۔ انہوں نے معیشت سے لے کر دیگر امور پر اپنی حکومت کی کامیابیاں گنوانا شروع کردیں، جس پر عالمی رہنما ہنسی ضبط نہ کر سکے۔ اس ہنسی پر بھی نادم ہونے کے بجائے ٹرمپ نے جو جواب دیا، اس سے لگتا ہے واقعی ان کے اندر ایک بھائی بھلکڑ چھپا ہوا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مجھے پتہ تھا آپ لوگ ہنسیں گے۔ لگتا ہے دنیا میں اہم سمجھا جانے والا امریکی صدر کا خطاب مذاق بن جانا بھی نکی ہیلی کو نکی بنانے کا سبب بنا ہے، کیوں کہ اقوام متحدہ میں سفیر اور چہیتی ہونے کی وجہ سے وہاں وہی ان کی مشیر تھیں۔
ٹرمپ اور ٹوئٹ تو لازم و ملزوم ہیں، ان کی ٹیوئٹر سے محبت دیکھ کر لگتا ہے ہو نہ ہو اس ویب سائٹ کو چلانے والی کمپنی میں بھی ان کے شیئرز ہوں گے، اس لئے وہ اس کمپنی کی مشہوری کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ امریکی حکام تو ان کے ٹوئٹ سے تنگ ہی نظر آتے ہیں، لیکن اب ان کی اہلیہ میلانیا نے بھی کہہ دیا ہے کہ انہیں ٹرمپ کی ٹوئٹ کرنے کی عادت زیادہ پسند نہیں، اس لئے وہ انہیں روکنے کے لئے بعض اوقات فون چھپا دیتی ہیں۔ خیر میلانیا کو تو اپنے شوہر کی اور بھی بہت سی عادتیں پسند نہیں ہوں گی، مگر ٹرمپ کو اپنے جیسے ہی لوگ پسند ہیں، اب ان کے مقرر کردہ سپریم کورٹ کے نئے جج کا معاملہ لے لیں۔ ٹرمپ سے پہلے امریکہ میں کسی نامزد عہدیدار پر کوئی ہلکا سا الزام بھی لگ جائے تو وہ دستبردار ہو جاتا تھا، حکومت بھی پیچھے ہٹ جاتی تھی، لیکن ٹرمپ نے جو نیا امریکہ بنایا ہے، اس میں بریٹ کیونگ نئے سپریم کورٹ کے جج بن گئے ہیں، جن پر ایک نہیں دو تین خواتین نے زیادتی کے الزامات لگائے، لیکن اس کے باوجود نہ نامزد جج پیچھے ہٹے اور نہ ٹرمپ بلکہ کانگریس میں لڑائی کرکے ٹرمپ نے اس کی منظوری لے لی۔ شاید یہ بھی پہلی بار ہوا کہ اس جج کی تعیناتی پر سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے مظاہرے کئے گئے۔ اس جج کے بارے میں پریس کانفرنس کے دوران دو صحافیوں نے سوال کرنے کی جرأت کی تو ٹرمپ نے جواب دینے کے بجائے ان خواتین صحافیوں کی نقلیں اتار کر انہیں ایسا جواب دیا کہ آئندہ وہ سوال کرنے سے پہلے سوچیں گی ضرور۔ ٭
٭٭٭٭٭