میاں صاحب، خدا کا خوف کریں

سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے باوجود سابق وزیراعظم نواز شریف مسلم لیگ کے قائد ہیں اور قانونی مجبوری کے تحت جماعت کے صدر شہباز شریف ہیں، لیکن آج کل وہ بھی پس دیوار زنداں ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کا خیال تھا کہ ان کے خلاف مقدمات، سزائوں اور نااہلی پر احتجاج کرنے کے لیے پورے ملک کے عوام امنڈ آئیں گے اور وہ عام انتخابات کے نتیجے میں زیادہ اکثریت کے ساتھ دوبارہ برسر اقتدار آکر نہ صرف اپنے خلاف الزامات سے بری ہو جائیں گے، بلکہ نیب، سی بی آر اور ایف آئی اے سمیت کئی اداروں میں زبردست تبدیلیاں لاکر اپنی آئندہ نسلوں کے لیے مستقبل محفوظ کر جائیں گے۔ اس کے برعکس قدرت نے انہیں یہ ناقابل فراموش سبق سکھایا کہ وہ اپنے اس صوبے میں بھی حکومت سے محروم ہو گئے، جس کی زیادہ آبادی کی بنیاد پر وہ ملک بھر میں تین مرتبہ برسر اقتدار آئے، جبکہ قبل ازیں جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے پنجاب میں ان کی حکومت قائم رہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں کوئی غیبی ہاتھ یا نادیدہ قوتیں کارفرما رہیں یا نہیں، اس کے حتمی ثبوت و شواہد آج تک کوئی فراہم نہیں کر سکا۔ اس بنا پر یہ تاثر عام ہے کہ ماضی کے دو بڑے لٹیرے خاندانوں سے جان چھڑانے کے لیے لوگوں نے تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والی تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا۔ اس اخبار کے یہ کالم گواہ ہیں کہ ہم نے ملک میں مروجہ جمہوریت اور انتخابی نظام کو دلائل اور اعداد و شمار کی بنیاد پر ہمیشہ ڈھونگ اور فراڈ سے تعبیر کیا ہے۔ آج بھی تحریک انصاف کی جو حکومت قائم ہے اور عمران خان ملک کے وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں، انہیں عوام کی اکثریت ہرگز حاصل نہیں ہے، بلکہ انتخابی نظام کی خامیوں نے انہیں اس منصب تک پہنچا دیا ہے۔ حالیہ انتخابات میں یہ تبدیلی ضرور نظر آئی ہے کہ شریف اور زرداری خاندانوں کی موروثی سیاست کا عارضی طور پر خاتمہ ہو گیا ہے، لیکن نئی حکومت نے اپنے چالیسویں سے پہلے ہی جو گل کھلانے شروع کئے ہیں اور عوام کو مہنگائی اور اندرونی و بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کا جس تیزی سے آغاز کیا ہے، اس کی وجہ سے یہ اندیشہ برقرار ہے کہ اپنی مظلومیت کا رونا رونے والی ماضی کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں، مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی اپنے آزمودہ حربوں کے ذریعے دوبارہ برسراقتدار آسکتی ہیں۔ کسی جمہوری معاشرے میں، بالخصوص اسلامی نظام سیاست میں موروثی اقتدار کسی کا حق قرار نہیں پاتا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کوئی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے نہیں تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے شوہر یعنی آپؐ کے داماد ہونے کی وجہ سے اہل بیت میں شمار کیا جاتا ہے، جبکہ شرعی و قانونی نقطۂ نظر سے اس رشتے کے باعث موروثیت قابل قبول نہیں۔ تاہم حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کے ہاتھ پر مسلمانوں نے بیعت کی تو وہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ راشد قرار پائے۔ حضرت علیؓ کے بعد ملوکیت کا دور شروع ہوا تو بعد میں بادشاہت کا نظام اور موروثی اقتدار مسلم معاشرے میں در آیا۔
شومئی قسمت سے ان دنوں پاکستان کے دو بڑے حکمران خاندان ملکی اقتدار سے باہر اور دونوں کے متعدد افراد مقدمات اور سزائوں کی زد میں ہیں، لیکن اقتدار کی ہوس ان کے دلوں سے نہیں نکلی ہے۔ زرداری خاندان کا اپنا کوئی سیاسی پس منظر ہے نہ ملک و قوم کے لیے خدمات کا کوئی تاریخی حوالہ۔ وہ ’’بھٹو‘‘ کا نام استعمال کر کے مال و مناصب پر قابض ہوتا رہا۔ بدلے ہوئے حالات میں مقدمات کے خوف سے اس کا شور و غوغا کچھ کم ہو گیا ہے، لیکن شریف خاندان پنجاب کی عددی اکثریت کے باعث اب تک پرامید ہے کہ عمران خان سے عوام کی جلد اور شدید مایوسی کے بعد وہ ایک بار پھر برسراقتدار آکر اعلیٰ عدلیہ اور عسکری اداروں کی خوب خبر لیں گے، جنہوں نے ’’شریفوں‘‘ کے خیال میں عمران خان کو اقتدار منتقل کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لوٹی ہوئی اور اپنی ضرورت سے زائد ساری رقم واپس کر کے شریف خاندان آج بھی زیادہ مقبولیت اور نیک نامی حاصل کر سکتا ہے، لیکن وہ تو اپنی کوئی غلطی تسلیم اور توبہ کرنے، نیز عوام سے معافی مانگنے کے لیے بھی تیار نہیں، جنہیں نچوڑ کر وہ اپنی تجوریاں بھرتے اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو، پھر ان کے شوہر آصف علی زرداری اور اب بلاول بھٹو زرداری اقتدار کے حقدار قرار پا رہے تو دوسری طرف میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، کیپٹن صفدر اور ان کے صاحب زادے اقتدار کے ایوانوں میں جانے کے لیے اپنا حق جتا رہے۔ ماضی کے بعض موروثی بادشاہوں کی طرح ان دو خاندانوں میں سے بھی کوئی اپنی عیاشی کی زندگی کے بجائے، یا اس کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کے کوئی کام کرتا تو لوگ اسے خود سر پر بٹھانے کے لیے تیار ہو جاتے۔ میاں نواز شریف آمدنی سے کہیں زائد اپنے اثاثوں کا اعتراف کرنے کے بجائے فرماتے ہیں کہ آمدنی سے زائد اثاثوں کے کیس دیکھے جائیں تو غریب ہو یا امیر، پاکستان کا کوئی شخص نہیں بچ سکتا۔ صرف یہی بیان میاں صاحب کی کج فہمی اور غلط سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ وطن عزیز کے مظلوم عوام اگر ان کی طرح آمدنی سے زائد اثاثوں کے مالک ہوتے تو وہ دو وقت کی روٹی تو کجا، صاف پانی سے بھی محروم نہ ہوتے۔ شریف خاندان نے اپنے چالیس سال سے زائد اقتدار کے مختلف ادوار میں ملک کے اندر کوئی ایک بھی ایسا معیاری اسپتال قائم نہیں کیا، جہاں وہ خود اور ان کے خاندان والے علاج کرانا پسند کرتے۔ بیگم کلثوم نواز کا لندن کے ایک مہنگے اسپتال میں طویل علاج اور وہیں ان کی رحلت کا سانحہ بھی انہیں کوئی سبق نہیں سکھا سکا کہ وہ لندن جا کر اپنی اہلیہ کے آخری وقت میں بھی ان کے قریب نہیں رہے۔ میاں نواز شریف بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ کوئی ایک مثال بتا دیں کہ ہم نے کسی سے سیاسی انتقام لیا ہو۔ جواباً یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی سیاست کی ساری بنیاد مصلحت پسندی اور مفاد پرستی پر رہی۔ چنانچہ انہیں کسی سیاستدان سے تو انتقام لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی، البتہ بے قصور عوام سے دونوں بڑی جماعتوں نے خوب خوب انتقام لے کر انہیں ہمیشہ بدحالی میں مبتلا رکھا۔ چین کی پاکستان کے دو سال بعد آزادی کے باوجود مائوزے تنگ نے اپنے افیمی عوام کو دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت بنا دیا۔ لیکن پاکستان کے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ کر کے اپنے پیٹ کا جہنم اور اپنی تجوریاں بھرنے کے سوا کوئی مثبت اور تعمیری کام نہیں کیا۔ پھر بھی میاں نواز شریف اس جھوٹ اور ڈھٹائی پر قائم ہیں کہ آمدنی سے زائد اثاثے بنانے والوں میں غربت و افلاس اور شدید مہنگائی کے مارے ہوئے عوام بھی شامل ہیں۔ میاں صاحب اب تو خدا کا کچھ خوف کریں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment