پچھلے مضمون میں ’’بزرگوں کا علم تمثیل‘‘ کے نام سے راقم نے چند ایسی مثالیں پیش کی تھیں، جو اللہ والوں نے علمی، فقہی اور معاشرتی دقیق علوم کو سمجھانے کے لئے بیان فرمائی ہیں، یہ بڑا عجیب علم ہے۔ جہاں تک راقم کو معلوم ہے ایسی مثالیں کسی ایک جگہ جمع نہیں کی گئی ہیں۔ اس مضمون کو لکھنے کے بعد خیال آیا کہ اگر اس طرح کی کچھ اور مثالیں مہیا ہو جائیں تو یہ ایک مفید کام ہوگا۔ چنانچہ بعد میں چند مثالیں یاد آئیں، اس لئے وہ عرض کرتا ہوں۔
دینی مدارس کی ایک اہم روایت ہے کہ صحیح بخاری شریف کے ختم کے موقع پر طالب علم بخاری کی آخری حدیث کی تلاوت کرتا ہے اور استاد اس کی کچھ تشریحات بیان کرتا ہے، پھر خضوع و خشوع کے ساتھ دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مشہور بھی ہے اور تجربہ بھی کہ اس موقع پر اخلاص کے ساتھ دعا قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ اس موقع پر مدارس میں اچھے خاصے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی غالباً بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ صحاح ستہ کی تدوین سے پہلے کسی حدیث کو بیان کرنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ اس حدیث کو بیان کرنے والا اپنے آپ سے لے کر تمام راویوں کا نام لے کر بتاتا تھا کہ یہ حدیث میں نے فلاں سے فلاں نے فلاں سے سنی ہے اور یہ سلسلہ کسی صحابیؓ کے ذریعے سے حضور اقدسؐ تک پہنچ جاتا تھا۔ مگر بخاری، مسلم اور دوسری صحیح کتابوں کے آنے کے بعد اب صرف یہی کافی ہوتا ہے کہ کتاب کا حوالہ دیا جائے کہ میں نے یہ حدیث بخاری یا مسلم یا کسی دوسری صحیح کتاب کے فلاں باب سے لی ہے یا حدیث کا نمبر دے دیا جائے۔ اس طرح آج جو بھی طالب علم دورئہ حدیث مکمل کرتا ہے، اس کا سلسلۂ روایت ان محدثین کے ذریعے رسول اقدسؐ سے جاکر مل جاتا ہے۔ یہ بہت ہی عظیم سعادت ہے، جو فاضلین درس نظامی کے طلباء کو حاصل ہو جاتی ہے، بشرطیکہ وہ اس مبارک زنجیر کے تقدس کو اپنے اعمال و اخلاق سے جلا دیتے رہیں۔
بجلی کے کھمبے:
ایسے ہی ایک موقع پر حضرت شیخ ڈاکٹر عبد الحئیؒ نے طلبا کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بہت عمدہ مثال دی۔ فرمایا: دیکھو یہ سڑک کے کنارے تم لوگوں کو بجلی کے کھمبے نظر آرہے ہیں، یہ اس طویل سڑک پر آخر تک لگے ہوئے ہیں، اسی طرح شہر کی ساری سڑکوں پر یہ کھمبے لگے ہوئے ہیں۔ (اور دیکھو! ان میں سے ہر کھمبے کا تعلق دوسرے کھمبے کے ساتھ ایک برقی تار کے ذریعے جڑا ہوا ہے) اور پھر ان سب کھمبوں کا تعلق پاور اسٹیشن تک چلا گیا ہے۔ پاور اسٹیشن برقی قوت کا منبع ہے۔ رات کو ایک سوئچ آن کر دیا جاتا ہے اور پورے شہر کی سڑکیں روشن ہو جاتی ہیں۔
یہ راویانِ حدیث کی مثال ہے، ان میں سے ہر راوی دوسرے قریبی راوی سے مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جیسے ہی کوئی قولی یا عملی حدیث بیان ہوتی ہے، باطن کے پاور اسٹیشن کا سوئچ آن ہو جاتا ہے اور باطن کا شہر روشن ہو جاتا ہے، پھر اگر کسی جگہ پر برقی تار ٹوٹ جاتا ہے تو اس سے پہلے کھمبوں کا تعلق پاور اسٹیشن سے باقی نہیں رہتا۔ اس کے علاوہ اگر بیچ کا ایک کھمبا موجود نہیں ہے، یعنی کوئی راوی بیچ میں چھوٹ گیا ہے تو اس حدیث کو ایک خاص نام (منقطع) دیا جاتا ہے اور اس کی وہ حیثیت نہیں ہوتی، جو غیر منقطع راویوں کی حدیث کی ہوتی ہے۔ اس تمثیل کو علم حدیث کے مختلف درجوں تک پھیلایا جا سکتا ہے۔
خشوع و خضوع کی حقیقت:
قرآن کریم نے نماز میں خشوع اور خضوع کا بہت تاکیدی حکم دیا ہے اور نماز میں بعض حرکات تو ایسی ہوتی ہیں کہ ان سے نماز ہی نہیں ہوتی، پہلے دونوں الفاظ کا مفہوم سمجھ لینا ضروری ہے۔ خشوع کے معنی ہیں قلب کا سکون، یعنی قلب پوری طرح حق تعالیٰ کے سامنے متوجہ ہو اور دوسرے خیالات سے دل پاک ہو۔ خضوع کا مطلب ہے، جسم کا سکون اور تواضع، یعنی جسم سے غیر ضروری حرکات سرزد نہ ہوں۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں پہلے تو خشوع کی تعریف بیان فرمائی کہ قلب کے سکون کو خشوع کہتے ہیں۔ عرض کیا کہ خشوع کیسے حاصل ہو؟ فرمایا کہ قلب یعنی فکر میں حرکت روکنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ قلب کو کسی محمود شے کی طرف متوجہ کردے، اس سے غیر محمود حرکات بند ہو جائیں گی۔ مثلاً خود کو خانہ کعبہ کے سامنے تصور کرے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ کی طرف متوجہ ہو جائے۔ یعنی الفاظ دھیان سے ادا کرے۔
توجہ کی مثال:
اب سوال یہ ہے کہ کسی محمود چیز کی طرف توجہ کی حد کیا ہو؟ کیونکہ بعض لوگ اس توجہ میں بہت مبالغہ کرتے ہیں، جو نقصان دہ ہے۔ زیادہ کاوش کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس کا درجہ ایک مثال سے بیان کرتا ہوں۔ وہ مثال یہ ہے کہ ایک کچا حافظ ہے، اس کو استاد نے حکم دیا کہ نفلوں میں قرآن سنائو۔ یہ چونکہ پکا حافظ نہیں ہے، اس لئے وہ بے توجہی سے ہرگز نہ پڑھے گا۔ سوچ سوچ کر پڑھے گا، لیکن اس کی یہ سوچ اتنی زیادہ نہیں ہوگی کہ کسی دوسری چیز کا بالکل تصور ہی نہ آئے، بلکہ یہ سوچ اوسط درجے کی سوچ ہوگی۔ بس اس درجے کی سوچ اگر ہو جائے تو خشوع حاصل ہوگیا۔ اس کو ایک دوسری مثال سے سمجھئے۔ آپ آنکھ سے کسی چیز کو ارادتاً دیکھیں، آپ کا مقصد صرف اسی چیز کو دیکھنے کا ہے۔ لیکن جب آپ اس چیز کو دیکھتے ہیں تو اس کے ماحول پر بھی نظر جاتی ہے، اب جو چیزیں ماحول میں نظر آرہی ہیں، وہ اس شخص کا فعل نہیں ہیں۔ اس لئے وہ بھی خشوع کے منافی نہیں ہے۔
وساوس کی مثال:
نماز اسلام کا ایسا بنیادی رکن ہے کہ وہ تمام کامیابیوں اور فلاح کی کنجی ہے، اسی لئے شیطان نماز پر بڑی محنت کرتا ہے۔ مختلف قسم کے وساوس دل میں پیدا کر دیتا ہے، اس سے خیالات منتشر ہو کر ارکان نماز میں بھول ہو جاتی ہے اور خشوع جس کا ذکر اوپر آیا وہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے مشائخ اپنے مریدین اور طالبین کو اس کی تعلیم دیتے ہیں کہ ان وساوس کا علاج ان کو دور کرنے کی کوشش کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہی اس کا علاج ہے۔ مثلاً اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چار رکعات کی نماز میں کسی بھی جگہ یہ شبہ ہو جاتا ہے کہ پتہ نہیں تین رکعات پڑھیں یا چار۔ شروع میں تو یہ کرنا چاہئے کہ ظن غالب پر عمل کرکے سجدہ سہو کرلے۔ اگر یہ شبہ بار بار ہوتا ہو تو پھر اکثر یہ شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ اس کا علاج بزرگوں نے یہی لکھا ہے کہ پھر نہ اس کو دور کرنے کی کوشش کرے اور نہ اس کی خاطر تواضع کرے۔
ننگا تار:
حکیم الامت حضرت تھانویؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ایسے وساوس کی مثال بجلی کے ننگے تار جیسی ہے۔ اس کو دور کرنے کے لئے بھی اس کو نہیں چھونا چاہئے اور نہ اس کو لپٹنا چاہئے کہ ان خیالات میں مشغول ہو جائے۔ واقعی عجیب مثال ہے۔ تجربات سے اس علاج کا مفید ہونا معلوم ہوتا ہے۔
کچی اور پکی ہنڈیا:
مشہور مقولہ ہے کہ نیا شادی شدہ اور نیا مرید راتوں کو جاگتا ہے، اس قسم کے مقولے تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ نئے شادی شدہ جوڑے کی راتیں جاگ کر گزرتی ہیں۔ جوانی کا اور نئی زندگی کا سب سے انوکھا تجربہ شادی ہوتا ہے۔ اگر مزاجوں میں موافقت اور محبت کا جذبہ دونوں طرف ہے تو اگلی زندگی جنت بن جاتی ہے اور اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں تو پھر چند راتوں کے جاگنے کی قیمت عمر بھر ادا کرنی پڑتی ہے۔
نیا نیا مرید بھی راتوں کو جاگتا ہے، طبیعت میں جوش ہوتا ہے اور ذکر شغل میں بڑی محنت کرتا ہے۔ ذکر الٰہی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ذاکر کے مزاج کو لطیف بنا دیتا ہے۔ بعض لوگوں کو کشف و الہام ہونے لگتا ہے۔ بعض پر گریہ طاری ہو جاتا ہے، بعض پر خوف طاری ہو جاتا ہے اور وہ غل غپاڑہ شروع کر دیتے ہیں، جوش کا غلبہ ان تینوں قسم کے مریدوں پر ہوتا ہے۔
حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے نئے مرید کی ان کیفیات کو ایک حکیمانہ مثال سے سمجھایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ نئے مرید کی مثال کچی ہنڈیا جیسی ہے، چولہے پر رکھنے کے بعد یہ ہنڈیا کھد پھد چٹخ پٹخ کی آوازیں نکالنی شروع کردیتی ہے، لیکن جب یہ ہنڈیا پک کر تیار ہو جاتی ہے تو اس کا شور شغب ختم ہو جاتا ہے اور یہ پرسکون ہوجاتی ہے۔ یہی حال نئے اور پرانے مرید کا ہے۔ پرانا مرید اس جوش بھری ہنڈیا سے گزر کر صاحب مقام ہوگیا ہے۔ اسے تمکین حاصل ہوگئی ہے۔ پھر فرمایا کہ کچی ہنڈیا میں تبدیلی کرنا آسان ہوتا ہے، پانی کم ہے، زیادہ کردو۔ نمک مرچ میں کمی ہے تو اسے حسب ذائقہ بنالو۔ لیکن جب ہنڈیا پک کر تیار ہوگئی تو اب اس میں تبدیلی کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لئے مشائخ کچی ہنڈیا پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، تاکہ جب ہنڈیا پک کر تیار ہو تو اس میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔ کیسی عمدہ اور چسپاں مثال ہے۔
چھوٹے انسان:
عربی کی ایک بہت ہی بلیغ اور بہت مشہور مثال مغرور آدمی کے بارے میں ہے۔ مغرور کا لفظ ’’غرور‘‘ سے بنا ہے۔ اس کے معنی دھوکے کے ہیں۔ متکبر آدمی کو مغرور اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ اس دھوکے میں مبتلا ہے کہ ’’میں بڑا آدمی ہوں‘‘ بڑائی صرف اور صرف حق تعالیٰ جل شانہٗ کی خاص صفت ہے، جن و انسان میں سے کوئی بڑا ہو ہی نہیں سکتا۔ البتہ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ فرض کیجئے آپ کا گھر بہت بڑا ہے، آپ کے پاس قیمتی گاڑیاں ہیں، بڑا کاروبار ہے، درجنوں خادم آپ کے ملازم ہیں، اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص غریب ہے، نہ مکان بڑا ہے اور نہ اس کے پاس گاڑیاں ہیں، معمولی ملازم ہے۔ اب اگر آپ اپنے آپ کو اس سے مال و دولت میں بڑا سمجھتے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ البتہ اگر اس کو حقیر سمجھتے ہیں تو یہ تکبر ہے، آپ اس سے مال و دولت میں بہتر تو ہیں، مگر افضل نہیں۔
تکبر کی مثال:
مغرور شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے، جو کسی اونچی پہاڑی پر کھڑا ہو، وہ جب نیچے والے لوگوں کو دیکھتا ہے تو سب اسے چھوٹے اور بالشیے نظر آتے ہیں، مگر جب نیچے والے اسے دیکھتے ہیں تو وہ سب کو بونا اور چھوٹا نظر آتا ہے۔ مغرور آدمی انسانوں کی نظر میں حقیر ہوتا ہے۔ فرعون، ہامان، نمرود اور قارون سب غرور کے پتلے تھے، مگر کوئی معمولی شخص بھی خود کو ان بادشاہوں کی اولاد کہلانا پسند نہیں کرے گا۔٭
٭٭٭٭٭