وزیراعظم عمران خان نے اپنے سابقہ اعلان پالیسی کے بالکل برعکس اب کھل کر کہہ دیا ہے کہ قرضے اتارنے کے لئے قرضے لینے پڑیں گے، وطن عزیز کو تاریخ کے سب سے بڑے خسارے کا سامنا ہے۔ ان کی جانب سے آئی ایم ایف سے قرضے نہ لینے کے اعلان کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ تحریک انصاف کا ’’یوٹرن‘‘ ایک بار پھر سامنے آگیا۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لئے مذاکرات کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ وطن عزیز کی کرنسی اور اشیائے صرف کی قیمتیں شدید دباؤ کا شکار ہوگئیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ڈالر کبھی ایک سو سینتیس روپے کی بلند ترین سطح پر نہیں پہنچا تھا۔ ڈالر کی بلندی اور پاکستانی روپے کی پستی پر کسی کو شاید اتنی حیرت نہ ہوتی اگر عمران خان اور ان کے ہم نواؤں نے 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران قومی دولت کے لٹیروں کے زبردست نوحے اور مرثیے نہ پڑھے ہوتے۔ انہوں نے مفلس و مفلوک الحال پاکستانی باشندوں کو اس خوش فہمی میں مبتلا کردیا تھا کہ بس ان کی حکومت آتے ہی ملک و قوم کی کایا پلٹ جائے گی اور سب سے پہلی اور بڑی تبدیلی یہ آئے گی کہ عام شہری مہنگائی اور لاقانونیت سے نجات حاصل کرکے آرام اور سہولت کی زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے گا۔ جنرل ایوب خان کے دور سے پہلے ڈالر کی پاکستانی قیمت جو بھی رہی ہو، لیکن ان کے دور میں ڈالر پانچ روپے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ پھر کچھ سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے اسے اتنا بڑھا دیا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور تک ایک ڈالر ساٹھ روپے کا ہوگیا، لیکن اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آتے ہی ڈالر کو پر لگ گئے اور پھر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے باری باری حکومت کرتے ہوئے ڈالر کو سو روپے سے بھی آگے پہنچا دیا اور اب نیا پاکستان اور تبدیلی کے نعروں کے ساتھ برسر اقتدار آنے والی عمران خان کی حکومت نے پاکستانی کرنسی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے امریکی ڈالر کا وقار اس قدر بلند کردیا کہ وہ ایک سو سینتیس روپے کی حد بھی پار کر گیا اور یہ اس وقت ہوا جب تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا اپنا فیصلہ بدل کر بالآخر اس کے آگے سجدہ ریز ہونا پسند کیا۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف سے مذاکرات مکمل ہونے تک ڈالر کی قیمت ایک سو چالیس روپے تک پہنچ سکتی ہے، جبکہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہوگا کہ اسے ایک سو پچاس روپے تک لایا جائے۔ ڈالر کی پرواز اور اسٹاک مارکیٹ کے عدم استحکام اور تیل، گیس، بجلی کے نرخوں میں سرکاری طور پر اضافے کی وجہ سے روزمرہ ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں جو طوفان آرہا ہے اور جس کی شدت میں آئندہ بہت اضافہ ہونے والا ہے، اس پر غریب عوام ہی فکر مند نہیں ہو رہے، بلکہ خود تحریک انصاف کی صفوں میں بھی بھونچال دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ اس کے رہنما نہایت متضاد اور مضحکہ خیز بیانات دے کر خود کو اور عوام کو فریب دینے میں مصروف ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے بعد ڈالر کی قیمت اور مہنگائی میں کمی نظر آئے گی تو کوئی دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہتا ہے کہ حکومت مخالف طبقوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے متفقہ طور پر ڈالر کو مہنگا کیا ہے تاکہ عمران خان کی حکومت بدنام اور ناکام ہو جائے۔
اہل وطن تو موجودہ حکومت کی سیاسی بصیرت اور اقتصادی مہارت کا اندازہ صرف ایک بات سے کر رہے ہیں کہ خزانہ خالی ہونے کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کر دیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو بھی کہنا پڑا کہ پچاس لاکھ مکان بنانا خالہ جی کا گھر نہیں، یہ صرف اعلان سے نہیں بن جائیں گے۔ یہ اگر محض اپنا سیاسی قد بلند کرنے کا حربہ نہیں تو تحریک انصاف کی حکومت پہلے ڈالر اور اشیائے صرف کے نرخوں پر قابو پا کر اپنی صلاحیت ثابت کرے۔ آئی ایم ایف کے بارے میں محب وطن پاکستانی کبھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوئے کہ سب سے بڑا سود خور یہ عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان اور اس کے عوام کی محبت اور ان کی ترقی و خوشحالی کے لیے قرضے دیتا ہے۔ اس کا واحد مقصد پاکستان کو سودی نظام کے شکنجے میں جکڑنا اور امریکی مفادات کے تحت اپنی شرائط منوا کر پاکستان پر سیاسی اور اقتصادی دباؤ بڑھانا ہے۔ دور رس نظریں یہ کہتی ہیں کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھاتے بڑھاتے اس کے تمام تاریخی و ثقافتی ورثے، اہم عمارتوں اور شاہراہوں کو گروی رکھنے کے بعد بالآخر ہمارے ایٹمی اثاثوں تک پہنچنا اور ان پر قابو پانا اصل ہدف ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک سربراہ کے بارے میں تو یہ خبریں شائع ہو چکی ہیں کہ انہوں نے دوبارہ اقتدار کی خاطر امریکی حکام کو یہ پیشکش کر دی تھی کہ اس کے بدلے انہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی دے دی جائے گی۔ آئی ایم ایف کی پاکستان دشمنی کا اندازہ اس امر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس نے پاکستانی معیشت میں چین کی شمولیت کو خطرناک قرار دے دیا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی سالانہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے اقتصادی امور کے ماہر مورس اوبسٹ فیلڈ نے کہا ہے کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی اور غیر لچکدار کرنسی کی وجہ سے سرمایہ کاری کے بڑے خلا کا سامنا ہے۔ تاہم چینی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ پاکستان اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کے لیے چین سے رجوع نہ کرے، ہم ہیں ناں! موصوف کے مطابق پاکستان کو انفرا اسٹرکچر ترقی کی زیادہ ضرورت ہے، جس میں سی پیک کے تحت چین کی سرمایہ کاری پاکستان کے لیے مفید تو ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس کی شمولیت سے پاکستان کو خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مذکورہ ماہرین کو وزیراعظم عمران خان یا ان کے وزیر خزانہ کیا یہ بتانے کی جرأت کر سکتے ہیں کہ پاک و چین راہداری منصوبے (سی پیک) میں ان دو ممالک کے علاوہ دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں۔ آخر میں شامل ہونے والے سعودی عرب نے تو گوادر میں دنیا کا سب سے بڑے آئل سٹی تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وہاں سے چین کو براہ راست تیل فراہم کیا جا سکے گا، جبکہ راستے کے تمام ممالک بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔ یہ آئی ایم ایف کی طرح کڑی شرائط اور بھاری سود پر قرضے دینے کا معاملہ نہیں، بلکہ پاکستان سمیت کئی ممالک میں ترقی اور روزگار کی فراہمی کے بہت بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ محض پاکستانی معیشت میں چین کی شمولیت نہیں کہ اس سے پاکستان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو۔ کہیں آئی ایم ایف کے دباؤ ہی پر تو عمران خان نے ی پیک منصوبوں پر نظرثانی کا اعلان نہیں کیا ہے؟
٭٭٭٭٭