سمرقند کی دوبارہ فتح، ایک انوکھا واقعہ (پہلا حصہ)

عبدالمالک مجاہد
وسطی ایشیا کی بلاد ما وراء النہر کی روسی ریاست ازبکستان کا مشہور شہر سمرقند بہت خوبصورت شہر ہے۔ ابن بطوطہ اس شہر کے بار ے میں لکھتے ہیں: یہ نہایت وسیع و عریض اور حسن وجمال میں یکتا شہر ہے۔ اس میں عالی شان محلات اور فن تعمیر کی شاہکار عمارات ہیں، جو اس کے باشندوں کی عالی ہمتی اور کاریگری پر دلالت کرتی ہیں۔ اس عظیم الشان شہر کو فتح کرنے والے مشہور مسلم جرنیل اور قائد قتیبہ بن مسلم باہلیؒ تھے۔ وہ 49 ہجری میں عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ محض 47 سال کی عمر میں وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں اور 96 ہجری میں ازبکستان میں ان کی قبر بنتی ہے۔ قتیبہ کے والد بہت بڑے فوجی افسر تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قتیبہ کی تربیت گھوڑوں کی پیٹھ پر ہوئی تھی۔
سمرقند ازبکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس شہر کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ سمرقند کا معنی ’’زمین کا قلعہ‘‘ ہے۔ قتیبہ بن مسلم باہلیؒ کے بارے میں اتنا جان لیجیے کہ ان کے جسم میں چین نہ تھا۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو گھوڑے پر سوار دیکھنا چاہتے تھے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے کتنی فتوحات کیں۔ 87 ہجری میں قتیبہ بن مسلم نے اموی دور حکومت میں سمرقند کو فتح کیا اور اس پر اسلام کا جھنڈا لہرایا۔
قارئین کرام! یہ سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ کے عہد خلافت میں ہونے والا ایک نہایت منفرد نوعیت کا واقعہ ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ دنیا میں ایسے عادل حکمران بھی گزرے ہیں۔
سمر قند کی ایک گہری سرد رات میں ایک شخص اپنے گھر سے چاروں طرف گھپ اندھیرے میں نکلتا ہے۔ اس کا رخ شاہی محل کی طرف ہے۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اندھیرے میں راستہ تلاش کرتا بالآخر محل کے قریب جا پہنچا۔ اس کے ایک جانب معبد ہے۔ اس کے دروازے پر ایک بہت بھاری پتھر رکھا ہوا ہے۔ جس پر مورتیاں کھدی ہوئی ہیں۔ اس پر رعب طاری ہے۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ معبد میں داخل ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے اس کو کبھی یہ موقع میسر نہیں آیا۔
یہ بھاری بھرکم نوجوان بزدل نہیں، بلکہ نہایت بہادر شخص ہے۔ اس کا قد خاصا لمبا ہے۔ نہایت ذہین وفطین ہے۔ سوچ و فکر بلند ہے۔ نہایت مدبر ہے۔ مقامی زبان تو اس کی مادری ہے، مگر اس میں ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ اس کو عربی زبان پر عبور حاصل ہے اور وہ فر فر عربی زبان بولتا ہے۔ اسے معبد کے سب سے بڑے عہدے دار نے ملاقات کے لیے بلوا رکھا ہے۔ اس ملاقات کے شوق اور خوف نے اسے ایک عجیب کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کا جسم کانپ رہا ہے۔ اس معبد میں بہت کم لوگ ہی داخل ہو سکتے ہیں اور جو اس کے ذمہ داران ہیں، وہ تو ایک مرتبہ داخل ہوتے ہیں اور پھر ساری زندگی ان کو سورج کی روشنی نصیب نہیں ہوتی۔ وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتا گیا۔ اس کے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔
اگلے کمرے کے وسط میں اس نے ایک عظیم ڈیل ڈول والے شخص کو دیکھا۔ اس کی سفید لمبی داڑھی تھی۔ اس نے اس کو اس کے نام سے پکارا اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اسے سمجھ آگئی کہ یہ معبد کا چوکیدار ہے۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ کئی غلام گردشوں سے گزرنے کے بعد کاہنوں کے سردار کے سامنے جا پہنچا۔ ان کو کسی نے نہیں دیکھا۔ وہ معبد سے کبھی نکلتے ہی نہیں۔ بہت کم لوگ ہی ان سے ملاقات کر پاتے ہیں۔ اس ملک کے حقیقی حکمران یہی کاہن تھے۔ کوئی بھی ان کی مخالفت کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ لوگوں میں یہ بات معروف تھی کہ ان کی حکم عدولی دراصل خدائوں کی نافرمانی کے مترادف ہے اور ایسے لوگ لعنت کے مستحق ہوں گے۔
اس نوجوان کی نگاہیں دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا۔ کاہن ایک صف میں کھڑے تھے۔ اس نے بڑے کاہن کی طرف اپنے کان لگا دیئے، جو آہستہ آہستہ گفتگو کر رہا تھا۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہ آئی، مگر بتدریج اس کو مفہوم سمجھ آنے لگا کہ وہ سمرقند کی تاریخ، اس کا ماضی بیان کر رہا تھا… اور پھر کس طرح مسلمانوں نے اس ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہم نے اس قبضہ کے خلاف کتنی ہی ناکام کوششیں کیں، مگر اب ان کا اقتدار بتدریج پکا ہوتا جا رہا تھا۔ اب ہم آخری حربہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
ہم نے سنا ہے کہ اس قوم کا بادشاہ نہایت عادل شخص ہے، وہ دمشق میں رہتا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے پاس اپنا ایلچی بھیجا جائے۔ جس کے ہاتھ ہم اپنی شکایت ارسال کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کرتا ہے۔ چونکہ تم عربی زبان سے واقف ہو، لہٰذا ہم نے اس اہم کام کے لیے تمہیں منتخب کیا ہے۔ تم نہایت ذہین اور دلیر بھی ہو۔ گفتگو کا فن جانتے ہو۔ کیا تم اس کام کے لیے آمادہ ہو؟
نوجوان نے اثبات میں جواب دیا۔
بڑا کاہن کہنے لگا: پھر فوری طور پر اپنے سفر پر روانہ ہو جائو۔ تمہیں زاد راہ وافر مہیا کر دیا جائے گا۔ نوجوان وہاں سے نکلا تو خوشی اور مسرت اس کے چہرے پر عیاں تھی۔ وہ سوچ رہا تھا: آج سب سے بڑے کاہن نے مجھے شرف باز یابی بخشا ہے۔ مجھے ایک عظیم مشن کے لیے منتخب کیا ہے۔ اب وقت ہے کہ میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکوں۔ سمرقند کو آزادی دلانے میں میرا بھی حصہ ہو گا۔ وہ گھر واپس آیا اور سفر کی تیاری کرنے لگا۔ معبد کی طرف سے اس کو زاد راہ وافر مقدار میں مہیا کر دیا گیا۔ اس کا تیز رفتار گھوڑا اس کے ہمراہ تھا۔ وہ اس پر سوار ہوا۔ اس کا رخ بخارا کی طرف تھا۔ وہ مہینوں کا سفر ہفتوں میں طے کرتا حلب پہنچ گیا۔ دمشق اس کی آخری منزل تھی، جو اب بالکل قریب تھی۔ پھر وہ دن بھی آیا جب وہ دمشق میں داخل ہو رہا تھا۔
دمشق جو مسلمانوں کا دارالخلافہ تھا۔ ان کی عظمت کا نشان بہت بڑا شہر، نہایت صاف ستھرا، تہذیب یافتہ، اسے یہ سمر قند سے کہیں بڑا نظر آیا۔
وہ ایک سرائے میں اترا اور اس کے مالک سے پوچھا کہ امیر المؤمنین سے ملنے کا کیا طریقہ ہے؟
سرائے کے مالک نے کہا کہ ہمارے امیر المؤمنین سے ملنا نہایت آسان ہے۔ تم مسجد اموی کی طرف چلے جائو، وہاں کسی بھی شخص سے ان کے گھر کا راستہ پوچھ لینا۔ وہاں پر کوئی پہرے دار نہیں ہے، نہ ہی ملاقات پر کوئی پابندی ہے۔
وہ مسجد اموی میں داخل ہوا۔ ایسی خوبصورت عمارت اس نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ اس نے خیال کیا کہ یہی شاہی محل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے ایک شخص سے پوچھ ہی لیا۔ اس کے لہجے اور شکل سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اس شہر میں اجنبی ہے۔ اس نے کہا: کیا تم قصر خلافت کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟
مگر کیا یہ قصر خلافت نہیں ہے؟ اس نے تعجب سے پوچھا۔ اس شخص نے مسکراہٹ بھرے لہجے میں کہا: نہیں اجنبی دوست! یہ تو خدا کا گھر ہے، یہ مسجد ہے، مسلمانوں کی عبادت کی جگہ ہے۔ کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟
نماز… میں کیسے نماز ادا کر سکتا ہوں۔ میں تو سمر قند کے کاہنوں کے دین پر ہوں۔ جس دین کو کاہنوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، جو اسرار ورموز سے بھرا ہوا ہے؟!
آدمی نے سمر قندی سے دوبارہ سوال کیا تو اس نے کہا: میں نماز کیسے پڑھوں، مجھے نماز کا طریقہ بھی معلوم نہیں۔
اس نے پوچھا: تمہارا دین کیا ہے؟
کہنے لگا: میں سمر قند کے کاہنوں کے دین پر ہوں۔
سوال ہوا: ان کا دین کیا ہے؟
جواب ملا: مجھے معلوم نہیں۔
سوال : پھر تمہارا رب کون ہے؟
اس نے جواب دیا: معبد کا خدا۔
اب اس نے اگلا سوال کیا: اگر تم اس سے مانگو تو کیا تمہیں عطا کرتا ہے اور اگر تم بیمار ہو تو تمہیں شفا دیتا ہے؟
کہنے لگا: مجھے معلوم نہیں۔
اس شخص نے موقع غنیمت جانا کہ ایک شخص شکل و صورت سے ذہین و فطین ہے، اجنبی ہے، اس کا کوئی دین اور مذہب نہیں، اس کو دین کے اصول بتائے جائیں۔ چنانچہ اس نے اسلام کی خوبیاں بیان کیں اور پھر چند ساعتوں کی بات تھی، اس سمر قندی کے دل کا غبار چھٹ گیا اور اس نے کلمہ توحید پڑھ لیا اور دین اسلام میں داخل ہو گیا۔
اب اس شخص نے اپنے اس نو مسلم بھائی سے کہا: چلو! ہم امیر المؤمنین سے ملنے کے لیے چلتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ وقت انہوں نے گھر والوں کے لیے مختص کیا ہوا ہے، مگر پھر بھی وہ ہم سے مل لیں گے، کیونکہ وہ بہت متواضع ہیں۔ مسجد سے نکل کر وہ گلی میں آئے۔ نہایت ہی سادہ سے دروازے کی طرف اشارہ کر کے اس نے بتایا کہ یہ امیر المؤمنین کا گھر ہے۔ اس سمرقندی کو سخت تعجب ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ بڑا عالیشان محل ہو گا، مگر یہ تو معمولی گھر ہے!! اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
خلیفہ عادل عمر بن عبد العزیزؒ نے اس کا حال پوچھا۔ آنے کا مقصد معلوم کیا: بتائو کیا مسئلہ ہے؟ اس نے عظیم سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ ہمارے ملک پر مسلمانوں نے قبضہ کیا ہے۔ یہ قبضہ دھوکے سے ہوا ہے، نہ تو اعلان جنگ ہوا اور نہ ہی ہمیں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔
عمر بن عبدالعزیز فرمانے لگے: ہمارے نبیؐ نے ہمیں ظلم کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ ہمیں عدل و انصاف کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ آواز دی: اے غلام! کاغذ اور قلم لایا جائے۔
غلام دو انگلیوں کے برابر کاغذ لے کر حاضر ہو گیا۔ اس پر دو سطریں لکھیں، اس پر مہر لگائی، اس کو سر بمہر کر کے سمر قندی سے کہا کہ اسے اپنے شہر کے حاکم کے پاس لے جائو۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment