حکومت پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرضے کے حصول کے لئے باضابطہ درخواست دے دی۔ جمعرات کو انڈونیشیا کے جزیرے مالی میں وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹن لیگارڈ سے ملاقات کی اور درپیش اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لئے آئی ایم سے مالی مدد کی اپیل کی۔ آئی ایم ایف کی ایک ٹیم آئندہ ہفتوں میں اسلام آباد کا دورہ کرے گی۔ جہاں اس سود خور عالمی ادارے کی جانب سے قرض کی شرائط و دیگر تفصیلات طے کی جائیں گی۔ وطن عزیز کو اس وقت کئی اقتصادی مشکلات درپیش ہیں۔ مالی خسارہ، برآمدات میں مسلسل کمی اور آمدن و اخراجات میں عدم توازن سمیت کئی عوامل ہیں، جن کے باعث ملکی معیشت انتہائی دبائو کا شکار ہے۔ پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں جنوبی ایشیا کی سب سے سستی کرنسی بن چکی ہے۔ جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ بلاشبہ ان مسائل کی ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہے۔ تاہم اس بحران سے نکلنے کیلئے اس نے وہی طریقہ اپنایا ہے۔ جس پر پی ٹی آئی کے زعما سابقہ حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ عمران خان نے متعدد بار کہا تھا کہ وہ خود کشی کرلیں گے، لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی اسی قسم کے دعوے سننے کو ملتے رہے۔ لیکن بالآخر نئی حکومت نے بھی کشکول گدائی تھامنے کا اعلان کر دیا۔ تمام تر قدرتی و افرادی قوت سے مالامال ہونے کے باوجود شروع سے ہی ہمارے حکمرانوں کو قرضے لینے کی لت پڑ چکی ہے۔ ایوب خان کے دور میں پہلی بار ایک سو اسّی ملین ڈالر بیرونی قرضے واپس کر دیئے گئے۔ جبکہ پاکستان جرمنی جیسے ممالک کو بھی قرض دینے لگا تھا۔ پھر بھٹو دور میں بڑے پیمانے پر بیرونی قرضے لینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ضیاء الحق کے طویل دور اقتدار میں بہت کم بیرونی قرضے لئے گئے۔ لیکن بعد میں بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور پرویز مشرف نے اپنے ادوار میں اتنے قرضے لیے کہ اب ملک تقریباً بانوے ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے۔ جس کا صرف سود ادا کرنا ہی مشکل ہو رہا ہے۔ اب ہر پاکستانی تقریباً چار لاکھ روپے کا مقروض ہے اور مزید قرضوں کیلئے قومی اثاثوں کو بھی گروی رکھنا پڑ رہا ہے۔ نواز شریف نے اپنے آخری دور حکومت میں پینتیس ارب ڈالر سے زائد قرضے لے کر سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس سے قبل زرداری دور میں چودہ ارب ڈالر سے زائد قرضے لئے گئے تھے۔ مگر کسی حکمراں نے یہ نہیں سوچا کہ ان قرضوں کو کون اور کیسے اتارا جائے گا؟ ہر نئی آنے والی حکومت اپنے پیش روئوں پر خزانہ خالی کرنے کا الزام دھر کر عالمی سود خور اداروں کے سامنے کشکول گدائی لے کر پہنچ جاتی ہے۔ چونکہ تحریک انصاف کرپشن، منی لانڈرنگ، قومی خزانے کی لوٹ مار کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کر کے برسراقتدار آئی ہے۔ اس لئے عوام بجا طور پر یہ امید رکھ رہے تھے کہ نئے پاکستان کے کار پردازوں نے زمام اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی معاشی حکمت عملی اور جامع پالیسی مرتب کی ہوگی۔ اقتدار میں آکر اس پر عمل درآمد کر کے ملکی معیشت کی ڈولتی کشتی کو کنارے لگانے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر انہوں نے بھی سابقہ حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دست سوال پھیلانے کو معاشی بحران کا حل قرار دے دیا۔ حالانکہ اس کے متبادل بھی کئی آپشن موجود تھے۔ مثلاً قومی خزانے کو لوٹ کر غیر ملکی اکائونٹس میں دولت کا جو انبار لگایا گیا ہے، ان میں سے صرف سوئس اکائونٹس میں موجود رقوم واپس لانے کے جتن کئے جاتے تو نہ صرف تمام بیرونی قرضوں سے نجات مل سکتی ہے، بلکہ اس بھاری رقم سے ملکی ترقی کے کئی جامع منصوبے بھی تشکیل پا سکتے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے بقول سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں پاکستان کے دو سو ارب ڈالرز غیر قانونی طور پر چھپائے گئے ہیں۔ دنیا بھر کے لٹیرے اپنی ناجائز آمدنی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں محفوظ کرتے رہے ہیں۔ جہاں سے اس کی بازیابی کیلئے کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ تاہم دو ہزار دس میں سوئس پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا، جو دنیا کے ہر ملک کو اپنے اثاثوں کی واپسی کا حق دیتا ہے۔ کئی ممالک اس قانون سے فائدہ اٹھا کر وہاں سے اپنے اربوں ڈالر نکال چکے ہیں۔ ان ممالک میں نائجیریا جیسا غریب ملک بھی شامل ہے۔ سابقہ حکومت کے کل پرزے خود کرپشن میں بری طرح ملوث تھے، اس سے ان رقوم کی واپسی کی کوئی امید بھی نہیں تھی۔ مگر تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اس حوالے سے ابھی تک چپ سادھ رکھی ہے۔ سوئس اکائونٹس میں موجود رقوم کے بارے میں تمام باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ ان کا بیشتر حصہ آصف زرداری کی ملکیت ہے۔ زرداری دور حکومت میں عدالت عظمیٰ بار بار وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کے نام خط لکھنے کا حکم دیتی رہی، مگر انہوں نے عہدے کو تو قربان کر دیا، مگر اپنے قائد کے خلاف کے ناجائز اثاثوں سے متعلق خط نہیں لکھا۔ موجودہ حکومت قرضے لینے کا سخت فیصلہ کرنے اور عوام کو کڑوا گھونٹ پینے کا مشورہ دے رہی ہے۔ مگر قوم کے خون پسینے سے کمائی اس دولت کو واپس لانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ تبدیلی کے دعویداروں نے بھی پی پی قیادت سے کوئی خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے؟ علاوہ ازیں کرپٹ عناصر کے خلاف احتساب کا جو سلسلہ جاری ہے، اس کی سست روی اور ملزمان کے خلاف ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ملکی خزانے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ اس حوالے سے فوری قانون سازی کی ضرورت ہے۔ برطانیہ کی طرح ایسا قانون بنانا چاہئے کہ کسی بھی شخص کے پاس اپنی جائز آمدنی سے زائد اثاثے ہوں تو اسے اپنے ذرائع آمدنی بتانے کا پابند کیا جائے۔ اور اگر وہ ثابت نہ کر سکے تو اس کے اثاثے بحق سرکار ضبط کرلئے جائیں۔ برطانیہ نے Unexplained wealth order نامی یہ قانون رواں برس کے اوائل میں بنایا تھا۔ گزشتہ روز اس قانون کی زد میں آنے والی ایک آذربائیجانی خاتون کا نام بھی منظر عام پر لایا گیا۔ جس نے لندن کے مہنگے علاقے میں ایک کروڑ پندرہ لاکھ پائونڈ میں عالیشان گھر خریدا تھا۔ یہ ایک بینکر کی بیوی ہے، جو آذربائیجان سے لوٹی ہوئی دولت لندن میں پانی کی طرح بہاتی رہی۔ اب اس کے کروڑوں پائونڈ کے اثاثے بحق سرکار ضبط ہوجائیں گے۔ ہمارے ملک میں بھی راتوں رات ارب پتی بننے والوں کی کمی نہیں۔ جس کی تازہ مثال رائو انوار نامی ایک معمولی پولیس افسر ہے، جو اربوں روپے کے اثاثوں کا مالک ہے۔ ہمیں بھی ایسے سخت قوانین بنانے چاہئیں۔ جس سے کرپٹ عناصر کے خلاف کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اگر عمران خان نے لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی کے لئے ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کئے تو وہ بھی سابق حکمرانوں کی طرح تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائیں گے۔ ٭
٭٭٭٭٭