نکاح کا پیغام سن کر وزیربیگم کو اندیشوں نے گھیر لیا

وزیر خانم کی بہن بڑی بیگم کو توقع تھی کہ مغرب کے پہلے پہلے چھوٹی کے یہاں پہنچ جائوں گی۔ لیکن خانم کے بازار میں چھوٹی کے گھر سے ذرا دور اچانک اس کی پالکی کے ایک کہار کے پیٹ میں شدید درد اٹھا اور وہ پالکی چھوڑ کر سرِ راہ گھٹنوں کو پیٹ کی طرف موڑ کر اور سر جھکا کر بیٹھ گیا اور ابکائیاں لینے لگا۔ لیکن مزدور پیشہ شخص کو بدہضمی کہاں ہوتی ہے۔ استفراغ کی ساری کوششیں بیکار گئیں تو ایک دکاندار نے ازراہ انسانیت کسی عطار کے یہاں سے کوئی جوارش یا معجون لاکر اسے چٹایا تو چند لمحوں کے بعد اس کی طبیعت کچھ ٹھہری۔ پھر بھی، اس نے خود میں پالکی اٹھانے کی ہمت نہ دیکھی۔ تین کہاروں سے پالکی اٹھ نہ سکتی تھی، لہٰذا وہ اپنے ساتھیوں سے یہ کہہ کر آہستہ قدم اپنے گھر چلا گیا کہ چیلوں کے کوچے سے ابھی ایک کہار بھیجتا ہوں۔ بڑی بیگم پالکی کے اندر بیٹھی خود سے الجھتی رہی کہ کس بری ساعت میں گھر سے نکلنا ہوا تھا۔ وہ گھبرا بھی رہی تھی کہ کہیں یہ کوئی برا شگون نہ ہو، آج مدتوں بعد وہ ایسے کام پر نکلی تھی، جسے صحیح معنی میں مہم قرار دیا جا سکتا تھا اور جس میں اس کی کامیابی سے اس کی بدنصیب چھوٹی بہن کی تقدیر دوبارہ چمک سکتی تھی۔ سر راہے یوں پالکی میں بند انتظار کی گھڑیاں کاٹنا اسے بہت مشکل لگ رہا تھا، لیکن انتظار کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔ اسے یہ بھی فکر لگی ہوئی تھی کہ اگر نئے کہار کو آنے میں بہت دیر ہوئی تو مغرب کی نماز قضا ہو سکتی تھی۔
وہ اسی ادھیڑبن میں تھی کہ نیا کہار گھڑی بھر میں دوڑتا ہوا آ پہنچا اور چاروں کہاروں نے تیز قدم اپنا سفر دوبارہ آغاز کیا اور بات کی بات میں بڑی بیگم کو چھوٹی کے دروازے پر لا اتارا۔ اس وقت ہر طرف مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں اور وزیر آبدار خانے میں وضو کر رہی تھی۔ بڑی کے آنے کی خبر سن کر وہ یوں ہی باہر نکل آئی کہ آستینیں چڑھی ہوئی تھیں اور کہنی سے کچھ اوپر تک کے بازوئوں کی سلونی اور سڈول گولائیاں سرمئی شعلوں جیسی لگ رہی تھیں۔ ماتھے اور ٹھوڑی پر وضو کے پانی کی بوندیں فالسے کے شربت جیسی بہار دکھا رہی تھیں۔ بڑی بڑی پلکوں پر ایک آدھ بوند یوں آکر ٹھہر گئی تھی گویا چلمن مژگاں سے گلستان رخسار میں تاک جھانک کر رہی ہو۔ اکبری خانم جب بھی وزیر کو دیکھتی تھی اسے یقین نہ آتا تھا کہ یہ وہی چھوٹی بیگم ہے جو سولہ سال کی ہوتے ہوتے ماں بن چکی اور جس کے گلشن آغوش میں اللہ رکھے ایک چھوڑ چار چار گلاب کھل چکے ہیں۔ اور یہ نہ تھا کہ بڑی بیگم کو وزیر اس لیے کمسن لگتی تھی کہ دونوں میں چھوٹائی بڑائی تھی۔ سچ پوچھئے تو ان کی عمروں میں تفاوت کچھ ایسا نہ تھا۔ لیکن اس زمانے کے اعتبار سے اتنا فرق بھی بہت تھا اور وزیر کو اس فرق کا لحاظ بھی تھا۔ لیکن وزیر کی جنت حسن ہمیشہ اس قدر یکساں کیونکر تھی، اس کا جواب بڑی کے پاس نہ تھا۔ وہ اسے قدرت خدا کا ایک کرشمہ ہی سمجھنے پر مجبور تھی۔ اور اس پر طرہ، بلکہ طرۂ شاہی، وزیر کے چہرے کی تمکنت اور تیج کہ جس کے سامنے ولیم فریزر جیسے جہاندیدہ بھی چکاچوند ہو گئے تھے۔ اکبری خانم نے اب تک کسی اور لڑکی یا عورت کے منہ پر خودداری اور حفظ توقیر اور حجاب و پاس وضع کی ایسی ٹھنڈی پھوار برستے نہ دیکھی تھی۔ لگتا تھا یہ حسینہ کسی کے رعب یا دبائو میں آنے والی نہیں۔ خود اس کا احساس حسن اس درجہ تکمیلیت آگیں ہے کہ کسی مدافعت یا تحفظ کے تصور کو جگہ نہیں مل سکتی۔
اس شام بھی جب اکبری خانم نے چھوٹی کو دیکھا تو بے اختیار اس کے منہ سے صل علیٰ نکل گئی۔ ادھر بڑی بہن کو، جس کی شفقتوں کی وہ ہمیشہ متمنی رہی تھی، غیر متوقع طور پر اپنے دروازے پر دیکھ کر وزیر بھی خوشی سے بے حال ہو گئی اور سارا تکلف بالائے طاق رکھ کر بڑی سے لپٹ کر بولی: ’’ہائے اللہ بڑی باجی آپ ادھر کیسے بھول پڑیں! زہے قسمت۔ مگر مجھے بلوا لیا ہوتا، دونوں وقت ملتے ہیں۔ اس وقت تو آپ گھر سے نکلتی نہیں ہیں…‘‘۔
’’بس چپ کر، پہلے اپنے مکھڑے کو دیکھ‘‘۔ بڑی نے وزیر کی بلائیں لیتے ہوئے کہا۔ ’’ایسا سونا سلونا منہ ہوگا تو اسے دیکھنے کو جی چاہے گا ہی۔ چل جلدی سے نماز پڑھ لیں، پھر باتیں ہوں گی‘‘۔
’’مگر تم اس وقت اچانک کیسے…‘‘۔ وزیر نے کچھ گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ ’’…بھائی جان تو ٹھیک ہیں؟ فاطمہ کیسی ہے؟‘‘۔
’’اے ہے دھیا، زبان ہے کہ کترنی سی چلی جاتی ہے۔ بابا سب خیریت ہے۔ ابھی پورا حال بتائوں گی۔ پہلے جلدی سے وضو کر لوں، نماز پڑھ لوں…‘‘۔
اتنی دیر میں حبیب النسا سلام کرتی ہوئی پانی سے بھرا آفتابہ لے آئی اور بولی: ’’بڑی بیگم صاحب آپ یہیں دالان میں وضو کر لیں، چوکی بھی پاس میں بچھی ہوئی ہے۔ آپ نماز گزار لیں، اتنے میں شربت بنا کر حاضر کرتی ہوں‘‘۔
’’ہاں لائو وضو اور نماز تو میں یہیں کئے لیتی ہوں‘‘۔ اکبری خانم نے مسکرا کر کہا۔ ’’شربت کی دیکھی جائے گی‘‘۔
وزیر سلام پھیر کر اٹھنا چاہتی تھی کہ بہن کی کچھ ضیافت کا انتظام کرے، لیکن بڑی کی آنکھ کا اشارہ پاکر وہ اندر حجرے میں چلی گئی۔ بڑی بیگم بھی بعد مغرب کے وظیفے اپنے ختم کر کے اندر آگئیں اور دروازہ انہوں نے بند کر لیا۔
’’اللہ خیر تو ہے بڑی باجی تم…‘‘۔
’’شش!‘‘۔ بڑی نے وزیر کو بالکل اپنے پاس کھینچتے ہوئے کہا۔ ’’چپ، دھیان سے سن، ابھی کچھ کہیو نہیں‘‘۔
وزیر کی شربتی آنکھوں میں الجھن کے آثار جھلکے، لیکن وہ سعادت مندانہ آکر بڑی بہن سے پہلو ملاکر بیٹھ گئی۔ ایک لحظہ چپ رہ کر، گویا اپنی سانس برابر کر رہی ہو۔ اکبری خانم نے ساری بات وزیر کو بتا دی۔ اس وقت بڑی کی گفتگو میں وہ روانی اور خود اعتمادی نہ تھی جو عموماً اس کے لہجے کا حسن تھی۔ گویا کوئی خوش الحانی لیکن دھیمی آواز میں تلاوت کر رہا ہو۔ اس کے دل میں ڈر تھا کہ وزیر شاید نکاح کی تجویز نہ مانے۔ نواب شمس الدین احمد مرحوم والا معاملہ کرنا چاہے…۔ اسے خبر نہ تھی کہ وزیر کو نواب شمس الدین احمد ہر طرح مطلوب تھے، ورنہ نکاح کی متمنی تو وہ بہرحال تھی…۔ دوسرا خوف اسے یہ تھا کہ وزیر شاید نکاح ہی نہیں، کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کر دے اور کہے کہ میرا دل اب ان باتوں سے بھرگیا۔ مجھے اب اوڑھنی اپنی میں منہ چھپا کر کسی کونے میں پڑ رہنا ہی اچھا لگتا ہے۔
وزیر کو چپ کسی خیال میں گم سا دیکھ کر بڑی کے دل کا ہول اور بھی بڑھا۔ اللہ جانے کس گھڑی میں یہ بات اٹھی تھی۔ اب خدا ہی ہے جو میری بات کی پچ رکھ لے۔ لیکن وزیر کا تذبذب کسی اور وجہ سے تھا۔ اسے اپنے بیٹوں کی فکر تھی۔ مگر وہ اس بات کا تصفیہ اپنے دل میں کرنے سے خود کو معذور پاتی تھی کہ پہلے بیٹوں کے بارے میں بات اٹھائے یا پہلے پیام نکاح کا جواب اثبات میں دے اور پھر بچوں کا سوال پیش کرے۔ یہ بات کہ اس عمر میں بھی وہ کسی کی منظور نظر ہو سکتی تھی اور وہ بھی ولی عہد سوئم جیسے والا مرتبت شخص کی، اس کے لیے کسی خاص اطمینان یا مباہات کا باعث نہ تھی۔ اسے اپنے بارے میں نفس مطمئنہ حاصل تھا۔ وہ خوب جانتی تھی کہ اس کی خوب صورتی ماہ و سال اور وقت و مقام کی پابند نہ تھی، اور یہ بھی کہ خوب صورتی صرف متناسب الاعضا ہونے یا ناک نقشے کی درستی کا نام نہیں۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment