انصاف پر چیف جسٹس کی خوش آئند توجہ

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کئی حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کا نوٹس لینے کے بعد اب خود عدالتوں کی جانب توجہ دی ہے۔ تو ان کا یہ نہایت خوش آئند اقدام ہے۔ اسپتالوں، تعلیمی اداروں، پانی اور بجلی کے محکموں کی کارکردگی جانچنے کیلئے چیف جسٹس نے سنی سنائی باتوں پر اعتبار نہیں کیا بلکہ جگہ جگہ پہنچ کر خود واقعات و حالات کا جائزہ لیا۔ یہاں تک کہ وطن عزیز کو پانی کی شدید قلت کا جو سامنا ہے اس پر ماضی کی حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں کی تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے ایک فنڈ قائم کر کے سب سے پہلے خود اس میں عطیہ دیا۔ بعد میں عمران خان اور ان کی حکومت بھی اس منصوبے میں شامل ہو گئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی اس پیش قدمی پر ملک میں نصف صدی سے اقتدار پر قابض رہنے والی سیاسی جماعتوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہئے تھا۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی اور اس کے جزوی چیئرمین بلاول زرداری یہ پھبتی کستے ہوئے نظر آئے کہ چیف جسٹس اور اعلیٰ عدالتوں کا کام ڈیم بنانا نہیں، وہ اپنے کام پر توجہ دیں۔ یاد رہے کہ ملک کو شدید اقتصادی بحران، مہنگائی اور بیروزگاری کے علاوہ قرضوں کے بوجھ تلے دبانے میں پیپلز پارٹی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ صوبہ سندھ پر وہ برسوں سے اقتدار میں ہے، لیکن آج بھی سندھ کے صحرائی علاقے میں لوگ پانی اور علاج کو ترس رہے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی وہاں گرمیوں کے موسم میں سینکڑوں بچے پانی، غذائی قلت اور علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ صرف رواں ماہ کے دوران پانچ سو سے زیادہ بچے صوبائی حکومت کی بدترین نااہلی اور بدعنوانی کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس کا بھی چیف جسٹس کو نوٹس لینا پڑا اور اب وہ خود صحرائے تھر کا دورہ کر رہے ہیں۔ بلا شبہ یہ کام سیاسی حکومتوں کو کرنے چاہئیں، لیکن بقول چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جب حکومتی ادارے کچھ نہ کریں تو کسی کو تو آگے آ کر عوام کی داد رسی کرنی چاہئے۔ ’’دیر آید، درست آید‘‘۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ فیصلوں میں تاخیر نظام انصاف میں ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے ایک قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کفر کا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے، لیکن جس معاشرے میں ناانصافی عروج پر پہنچ جائے، وہ قائم نہیں رہ سکتا۔ جس نظام کا ڈھانچا جھوٹ اور بددیانتی پر کھڑا ہو، وہ کیسے کوئی کام دکھا سکتا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ پاکستانی معاشرے میں عدلیہ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے، لہٰذا ججوں کو چاہئے کہ وہ پوری ایمانداری سے فیصلے کریں اور جتنی تنخواہ لیتے ہیں، اتنا کام بھی کریں۔ یاد رہے کہ پاکستانی معاشرے میں فوج و عدلیہ کو عوام کا بھرپور اعتماد حاصل ہے، جبکہ ان کی تنخواہیں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ چیف جسٹس کے مطابق ہر جج پر پچپن ہزار روپے یومیہ خرچ ہوتے ہیں، لیکن لوگ چیخ چیخ کر مر رہے ہیں کہ انہیں انصاف نہیں ملتا۔ اب تمام ججوں کا بھی احتساب ہو گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا ادارہ اب بہت متحرک ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کم مقدمات کے فیصلے کرنے والے ججوں کے خلاف بھی آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ہو گی اور انہیں چھٹی والے دن کی تنخواہ نہیں ملے گی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ کیا ہر جج پچپن ہزار روپے روزانہ والا کام کرتا ہے؟ فاضل چیف جسٹس کو معلوم ہو گا کہ پاکستان میں کرپشن کے بارے میں جب اور جو بھی سروے کیا گیا، اس میں ماتحت عدالتوں کو سب سے زیادہ ملوث پایا گیا۔ عام شہریوں کا واسطہ پولیس اور چھوٹی عدالتوں سے پڑتا ہے۔ وہاں قدم قدم پر رشوت اور تاخیری حربوں سے کام لیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سے معاملات پولیس اور وکیلوں کی وساطت سے مجسٹریٹوں کے چیمبرز ہی میں طے پا جاتے ہیں۔ جو ظاہر ہے کہ انصاف پر مبنی نہیں ہوتے۔ اعلیٰ عدالتوں کے مقدمات اور معاملات کا تعلق عام طور پر مقتدر و متمول طبقات سے ہوتا ہے، جو شاید کوئی زیادتی یا ناانصافی برداشت کر سکتے ہوں، لیکن جن غریبوں کو ماتحت عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا، وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انصاف سے محروم لوگوں کا جرائم کی جانب رجحان بڑھنے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ اب جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لوگوں کو انصاف کی فراہمی پر توجہ مبذول کر لی ہے تو اسے جلد از جلد نتیجہ خیز ثابت ہونا چاہئے، کیونکہ انصاف میں تاخیر بجائے خود انصاف سے انکار کے مترادف ہوتی ہے۔ اب تو ویسے بھی بہت دیر ہو چکی ہے، اس لئے ہمارا معاشرہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم کا مثالی اقدام
سندھ میں صوبائی حکومت کی ہر شعبے میں ناکامی کا اعتراف مقامی سطح پر ہی نہیں، قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی نظر آتا ہے۔ لیکن گزشتہ روز صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے ایک تاریخی اور انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے اپنی اکلوتی بیٹی اور دو بھتیجیوں کو حیدر آباد کے ایک گورنمنٹ گرلز اسکول میں داخل کرا دیا۔ داخلے کیلئے وہ خود پرنسپل کے دفتر میں گئے اور ایک عام شہری کی طرح فارم پر کر کے جمع کرائے۔ صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ کے اس اقدام کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، کیونکہ پاکستانی معاشرے میں حکمرانوں، بڑے بڑے سیاستدانوں، وڈیروں، نوکر شاہی کے کل پرزوں اور سرمایہ داروں کیلئے اعلیٰ ترین نجی تعلیمی ادرے قائم ہیں، جو ان کے لوٹ کے مال سے اپنا حصہ وصول کرتے ہوئے بھاری فیسیں اور مہنگی کتابوں کے ذریعے تعلیم فروخت کرتے ہیں، جبکہ کسی بھی مسلم معاشرے میں راعی و رعایا اور امیروں غریبوں سب کیلئے ایک تعلیمی نظام اور تمام تعلیمی ادارے کھلے ہونے چاہئیں۔ برطانیہ کے ایک وزیر اعظم کو سرکاری اسکول میں پڑھنے والے اپنے ایک بیٹے کے لئے ٹیوشن کا انتظام کرنے کو کہا گیا تو انہیں اسکولوں میں تعلیمی معیار گرنے کی فکر لاحق ہوگئی۔ حقیقت یہی ہے کہ سرکاری اداروں کا نظام خراب اور کارکردگی ناقص ہو تو نجی ادارے لوٹ مار کرتے ہیں۔ پاکستان میں اول تو سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں یکساں نظام تعلیم اور بلند معیار قائم کرنے کا اہتمام ہونا چاہئے تاکہ امیر اور غریب بچے سب اپنی صلاحیتوں کا خود بھی بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ملک و قوم کو بھی مستفید کر سکیں۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں سمیت تمام اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو قانونی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کرائیں، اس طرح چند ماہ میں سرکاری اداروں میں بھی اعلیٰ اور معیاری کارکردگی نظر آئے گی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment