قسط نمبر: 143
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
مجھے اصل فکر بشن دیپ کے بڑے بھائی امر دیپ کے حوالے سے تھی۔ اتفاق سے اب تک اس کا تفصیلی ذکر نہیں ہوا تھا۔ خدا جانے وہ کس مزاج کا شخص ہوگا۔ ہو سکتا ہے وہ گھاگ قسم کا آدمی ہو جو میری فرضی رام کہانی پر آسانی سے یقین نہ کرے۔ ہو سکتا ہے وہ کسی اجنبی شخص کو خاندانی حویلی میں مہمان بنانے کے فیصلے کی بھی مزاحمت کرے۔ ان خدشات میں مزید دماغ کھپانے کے بجائے اسے بشن دیپ اور براہم دیپ سنگھ جی پر چھوڑ دیا۔ وہی اصرار کر کے مجھے وہاں لے جا رہے ہیں۔ کسی مزاحمت کی صورت میں وہی امر دیپ سے نمٹیں گے۔
صبح سے رات تک کے اس سفر میں بشن دیپ کا چھوٹا بیٹا من دیپ سنگھ عرف مانو مجھ سے کافی مانوس، بلکہ بے تکلف ہوگیا۔ مجھے اس کی یہ عادت اچھی لگی تھی کہ خاصا شوخ اور شرارتی ہونے کے باوجود کسی بھی قسم کی بدتمیزی سے گریز کرتا تھا۔ اس نے نچلی سیٹ پر کھڑے ہوکر مجھے دیکھا اور مجھے پوری طرح جاگتا پاکر ماں باپ کے منع کرنے کے باوجود میرے پاس آگیا۔ میں نے اس سے خاندانی حویلی اور اس کے مکینوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لالچ میں کروٹ کے بل ہوکر جگہ بناتے ہوئے پُرجوش انداز میں خوش آمدید کہا۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا۔ ’’انکل، میں آگیا۔ اب اپنے وعدے کے مطابق مجھے کہانی سناؤ!‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’دھیرے بول یار، ورنہ تمہارا بھائی پریتم دیپ بھی اوپر آجائے گا۔ یہاں اتنی جگہ نہیں ہے‘‘۔
اس نے فوراً اپنی آواز دھیمی کرلی۔ ’’ٹھیک ہے، آپ نے کہا تھا آپ کو بہت سی کہانیاں آتی ہیں۔ اب جلدی سے مجھے شیر چیتے والی کوئی کہانی سنا دو‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’مانو یار، کہانی سننے اور سنانے کے لیے ماحول بنانا پڑتا ہے۔ ہم دونوں کچھ دیر گپ شپ کریں گے، پھرکہانی کی باری بھی آجائے گی‘‘۔
اس نے ضد کرنا چاہی۔ لیکن جب میں نے اسے نیچے بھیجنے کی دھمکی دی تو وہ سیدھے راستے پر آگیا۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا مانو، یہ بتاؤ، تم لوگوں کو حویلی میں تو بہت مزا آتا ہوگا؟‘‘۔
اس نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’حویلی میں تو نہیں، حویلی کے باہر بہت دل لگتا ہے۔ حویلی کے چاروں طرف بہت سارے درخت ہیں۔ آم کے، امرود کے، جامن کے… ہم موسم کے پھل کھاتے ہیں اور درختوں پر خوب موج مستی کرتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ تمہارے تاؤ امر دیپ منع نہیں کرتے یہ بدمعاشیاں کرنے سے تمہیں؟‘‘۔
اس نے جھٹ سے کہا۔ ’’وہ کیوں منع کریں گے؟ وہ تو خود ہمیں اچھے پھلوں والے درختوں کا بتاتے ہیں۔ بس یہ کہتے ہیں کہ پھل توڑ کر حویلی میں لے آیا کرو، کیونکہ پھل دھوکر کھانے چاہئیں۔ لیکن ہم ان کی بات کبھی نہیں مانتے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تو وہ تمہیں ڈانٹتے نہیں ہیں؟‘‘۔
مانو نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا۔ ’’نہیں، وہ تو ہماری ہر شرارت پر ہنستے رہتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’وہ نہ سہی، ان کی گھر والی، تمہاری تائی تو ناراض ہوتی ہوں گی تم لوگوں کی ہڑبونگ سے ؟‘‘۔
مانو نے حیرانی سے مجھے دیکھا۔ ’’کون سی تائی؟ ہماری تو کوئی تائی نہیں ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’کیا واہگورو کے پاس چلی گئی؟‘‘۔
اس نے ایک بار پھر نفی میں گردن ہلائی۔ ’’ناں جی، ہمارے تاؤ جی نے تو کبھی بیاہ کیا ہی نہیں، پھر تائی کہاں سے آئے گی؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تو اتنی بڑی حویلی میں وہ اکیلے رہتے ہیں؟‘‘۔
مانو نے شرارتی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر کہا۔ ’’اکیلے کیوں رہیںگے؟ دادو اور دادی اماں رہتی ہیں ناں ان کے پاس۔ ہمارے پاس تو کچھ دن کے لیے ہی آتے ہیں یہ دونوں !‘‘۔
یہ سب سن کر میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ یہ شخص امر دیپ تو بھلا آدمی لگتا ہے۔ بچوں سے اتنی محبت کرنے والا شخص برا کیسے ہو سکتا ہے؟ سب سے اطمینان بخش بات تو یہ ہے کہ وہ بیوی بچوں کے بکھیڑوں سے آزاد ہے، جو میرے لیے اضافی الجھن بن سکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ شخص اتنی پکی عمر کو پہنچنے کے باوجود شادی کے بند ھن سے کیسے اور کیوںآزاد ہے؟ خیر اس سوال کا جواب تو شاید حویلی پہنچنے پر مل ہی جائے گا۔
مجھے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر مانو خاصا جزبز ہو رہا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے خیالات کا ٹوکرا وقتی طور پر ایک طرف رکھ کر اسے بوڑھے شیر کی کہانی سنائی، جو بڑھاپے کی وجہ سے شکار کا پیچھا کر کے اسے مار گرانے کے قابل نہیں رہا تھا اور ایک لومڑی ہرن اور دیگر جانوروں کو شیر کی جگہ جنگل کا بادشاہ بنانے کا جھانسا دے کر اس کے غار میں لایا کرتی تھی۔
میری توقع کے عین مطابق کہانی مانو کو بہت پسند آئی اور اس نے زور زور سے تالیاں بجاکر خوشی کا اظہارکیا۔ بس وہیں مانو کو اکیلے اکیلے کہانی سنانے کے جرم کا پردہ فاش ہوگیا اور اس کے بھائی بہنوں نے احتجاج کرتے ہوئے اتنا ادھم مچایا کہ مجھے برتھ چھوڑ کر نیچے جانا پڑا اور وہ کہانی دوبارہ سنانی پڑی۔ یہی نہیں، بطور جرمانہ خرگوش کی چالاکیوں پر مشتمل ایک اور کہانی سنانے پر بھی مجبور کیا گیا۔ اس دوران بچوں کی دادی برتھ پر جاکر سوگئی تھی۔ البتہ ان کے والدین اور دادا میری کہانیوں سے کافی محظوظ ہوئے۔
بچے مزیدکہانیاں سننے کے متمنی تھے، لیکن ان کی ماں نے رات زیادہ ہونے کا کہہ کر انہیں سونے کا حکم دیا۔ اس نے فرش پر ایک دری بچھاکر دونوں لڑکوں اور چھوٹی لڑکی کو سلا دیا۔ بڑی بیٹی کو اس نے گود میں سر رکھ کر سیٹ پر سلا رکھا۔ بڑے صاحب کو نیم دراز حالت میں آدھے سوتے، آدھے جاگتے دیکھ کر بشن دیپ نے دوسری خالی برتھ پر جاکر سونے کی صلاح دی۔ لیکن براہم دیپ سنگھ اپنے بھاری بھرکم جثے کے ساتھ اوپر چڑھنے میں ہچکچاہٹ دکھارہے تھے۔ تاہم بشن دیپ اور میں نے مل کر انہیں کسی نہ کسی طرح برتھ پر چڑھا ہی دیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ گہری نیند سو چکا تھا۔ (جاری ہے)