نوابزادہ نصر اﷲ خان اپنی وضع کے آدمی تھے۔ سیاست اور ادب دو ایسے موضوع تھے، جن پر ان کی طبیعت رواں تھی۔ لمبی چوڑی گفتگو کے بجائے ایک شعر میں بات نمٹا دیتے۔ 77ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلی تو ابتداء میں بھٹو صاحب نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔ کراچی والے اس طرح کی تحریکوں میں پہل کرتے، مگر جب تک پنجاب ہمقدم نہ ہوتا حکمراں غور و فکر کو غیر ضروری جانتے۔ اس زمانے میں وفاقی سیکریٹری داخلہ فضل حق چوہدری ہوتے تھے، ایک بے رحم اور حکومت کے تابع مہمل آدمی تھے۔ وزیر اعظم نے انہیں آزمانے کا فیصلہ کیا اور انہیں پنجاب پولیس کا سربراہ بنا کر بھیجا گیا۔ انہوں نے لاہور میں جو ستم ڈھائے، ان کو ضبط تحریر لاتے ہوئے قلم کانپتا ہے، لیکن عوام کے جذبوں کے سامنے قوت گھمنڈ پانی کا بلبلہ ثابت ہوا۔ بالآخر حزب اختلاف سے مذاکرات پر آمادہ ہوئے، لیکن حزب اختلاف کے رہنما تو جیلوں میں بند تھے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قومی سطح پر انتخاب دوبارہ کرائے جائیں۔ سوال پیدا ہوا کہ حزب اختلاف کو مذاکرات پر کیونکر اور کون آمدہ کرے؟ کسی ذہین مشیر نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا کہ یہ کام مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم کر سکتے ہیں، مگر وہ تو خود جیل میں تھے، سو یہ کام مصطفی صادق سے لیا گیا۔ وہ پلندری جیل میں مجاہد اول سے ملے۔ انہیں رہا کیا گیا، مگر مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کے بجائے ایک اور مارشل لاء کا سبب بن گئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے 3 جولائی کو صبح دس بجے شروع ہونے والے مذاکرات تمام دن اور ساری رات جاری رہے۔ کسی خبر کے منتظر اخبار نویس وزیراعظم ہائوس کے لان میں سو گئے۔ صبح آنکھ کھلی تو ایک عجیب منظر تھا۔ وزیراعظم کے دفتر کے باہر فوجی حکام کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ یہ کوئی اچھی علامت نہیں تھی۔ خلاف واقعہ آج کوئی بریفنگ بھی نہ ہوئی۔ اخبار نویسوں نے حزب اختلاف کے رہنمائوں کو گھیر لیا۔ نوابزادہ نصر اﷲ خان تو ایک فقرے میں بات ختم کر کے گاڑی میں سوار ہو گئے کہ ’’کمزور سے کمزور حکومت بھی اپنے فیصلوں میں فوج کو شامل نہیں کرتی۔‘‘ البتہ پروفیسر غفور احمد نے بتایا کہ معاملہ بلوچستان سے فوج کی واپسی کا تھا، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فوری حکم کے ذریعے یہ نہیں ہو سکتا، اس کیلئے وقت درکار ہو گا۔ ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اگلے دن وزیر اعظم غیر ملکی دورے پر روانہ ہو گئے۔ ایک بے یقینی کی کیفیت تھی۔
4 اور 5 جولائی کی رات کو جماعت اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات چوہدری صفدر غریب خانے پر تشریف لائے اور اطلاع دی کہ فوجی پروفیسر غفور کو لے گئے۔ گمان گزرا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پھر فوج سے مدد لی ہے، مگر یہ چند لمحوں کی غلط فہمی تھی۔ یہ جمہوریت کی کھڑکی بند کر کے ’’ون مین‘‘ شو کا پھاٹک کھولنے کا عمل تھا۔ بات دور نکل گئی۔ ذکر نوابزادہ نصر اﷲ خان کا تھا، جو عجیب طبیعت اور تضادات کا شکار تھے۔ ملک میں جمہوریت بھی چاہتے تھے اور جاگیردارانہ نظام کے بھی حامی تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ ایک بڑے جاگیردار تھے، تاہم ترقی پسندانہ سوچ رکھتے تھے۔ اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران انہوں نے زرعی اصلاحات لانے کا اعلان کیا تو نوابزادہ نصر اﷲ خان نے ’’انجمن تحفظ زمینداران تحت شریعۃ‘‘ تنظیم بنائی۔ وہ جمہوریت اور جاگیردانہ نظام کو ساتھ لے کر چلنے کے آرزو مند تھے اور اپنی ساری جاگیریں نذر کر کے کہتے تھے کہ لینڈ تو رہی نہیں، اب ہم صرف لارڈ ہیں۔ بھٹو صاحب کے خلاف تحریک، انتخاب میں دھاندلی کے خلاف اور ازسر نو انتخاب کرانے کیلئے تھی، مگر مارشل لا پر مطمئن ہو کر بیٹھ گئی۔ مارشل لاء کے تحت کابینہ میں شمولیت پر بھی آمادہ ہو گئی اور نوابزادہ صاحب نے جن دو افراد کو ضیاء الحق کی کابینہ میں نامزد کیا، ان میں ایک فوجی افسر کے والد گرامی بھی تھے، جن کے گھر میں نوابزادہ قیام کرتے تھے۔ نوابزادہ نصر اﷲ خان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ چل سکتے، نہ اسے اپنے ساتھ رکھ سکتے تھے، جو ان سے مختلف رائے رکھتا ہو، مگر حکومت کے خلاف تحریک چلانے اور متضاد نظریات رکھنے والوں کو ایک جگہ جمع کرنے کا فن انہیں آتا تھا۔ یہ عجیب درد ناک بات ہے کہ کوئی نوابزادہ نصر اﷲ خان بھی ہمیں میسر نہیں، البتہ وعدوں کی زنجیر میں جکڑنے والے بہت ہیں۔
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے