سیلانی انہیں جانتا تھا، نہ جاننے کی خواہش تھی۔ سیلانی کی ان سے شناسائی ایک فون ہی کی تھی۔ دوپہر ہونے والی کال میں بمشکل بیس سیکنڈ بات ہوئی ہوگی۔ وہ اپنا کوئی مسئلہ بیان کرنا چاہ رہی تھیں اور سیلانی انہیں سمجھانا چاہ رہا تھا کہ بعد میں بات کر لیتے ہیں، اس وقت وہ کچھ مصروف ہے، جس پر انہوں نے کچھ کہنے بنا لائن کاٹ دی، شاید انہیں برا لگ گیا تھا۔ سیلانی کو ندامت ہوئی، اسے دو منٹ بات کر لینی چاہئے تھی، لیکن یہ بھی ہے کہ روڈ پر سیلانی کیا بات کرتا۔ انہوں نے سلام کلام اور ہیلو ہائے کے لئے تو فون کیا نہیں تھا، یقینا کوئی بات بتانا چاہ رہی تھیں، کوئی مسئلہ بیان کرنا چاہ رہی تھیں۔
’’میرا خیال ہے مجھے کال کرلینی چاہئے، پتہ نہیں بے چاری کس مشکل میں ہیں۔‘‘ سیلانی نے خود سے کہا اور سیل فون نکال کر اس انجانے نمبر پر کال کرنے لگا۔
’’جی السلام علیکم! میں سیلانی بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’مجھے پتہ ہے۔‘‘ سیلانی کو عجیب سا لگا، لیکن ا س نے نظر انداز کر دیا۔
’’میں نے سوچا جانے کیا ضرروری بات ہوگی، جس نے آپ کو کال کرنے پر مجبور کیا، اس لئے ذرا فرصت لے کر کال کرلی۔‘‘
سیلانی کی بات سن کر محترمہ نے عجیب سے انداز میں کہا ’’مجھے پتہ ہے، آپ نے کال بیک کرنی تھی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’سیلانی صاحب! میں مردوں کے اس معاشرے کو جھیل رہی ہوں، مجھے مردوں کی فطرت کا پتہ ہے۔‘‘
’’کیا یا یا یا یا یا یا… کیا کہا آپ نے؟‘‘ سیلانی کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر اس سے پہلے کہ دوسری طرف سے کچھ کہا جاتا، سیلانی نے غصے میں کہا ’’محترمہ! مجھے جاننے کا شوق نہیں کہ آپ کو مردوں کی فطرت کا کتنا پتہ ہے اور کتنا نہیں پتہ، میری بلا سے آپ نے اس میں پی ایچ ڈی کر رکھا ہو۔‘‘
اتنا کہہ کر سیلانی نے غصے میں لائن کاٹ دی اور جو اس بی بی کو فون پر نہیں کہہ سکا، وہ غائبانہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی، شام کے وقت گھر سے قریب پارک میں چہل قدمی کے دوران پھر اسی محترمہ کی کال آگئی ’’میں معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کی دل آزاری ہوئی۔‘‘
’’بات دل آزاری کی نہیں، میں کوئی ولی اللہ نہیں ہوں، لیکن سب انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، میں نے یہ سوچ کر کال کی تھی جانے آپ کس ایمرجنسی میں ہوں، میں تو آپ کو جانتا تک نہیں ہوں۔‘‘
’’سب اپنے تجربات کی روشنی میں دنیا کو دیکھتے ہیں، میں بھی سب سے الگ نہیں ہوں، خیر جانے دیں۔‘‘
’’بی بی! ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ اس طرح کے تجربات ہوئے ہوں، لیکن سب کو اپنے تجربات کی لاٹھی سے نہ ہانکیں۔‘‘
’’چلیں میں معذرت کر لیتی ہوں۔‘‘
’’احسان ہے آپ کا۔‘‘ سیلانی طنز کئے بنا نہیں رہ سکا۔
’’دراصل میں اسی حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہتی تھی کہ میں ایک ورکنگ لیڈی ہوں، گھر کی دہلیز سے دفتر میں اپنی سیٹ تک مردوں کی نظریں مجھے ادھیڑ رہی ہوتی ہیں، ان کا بس نہیں چلتا کہ عورت کو آنکھوں ہی سے کھا جائیں‘‘۔ یہاں تک تو محترمہ کی بات درست تھی۔
یہ ہمارا عمومی مزاج بنتا جا رہا ہے۔ تاڑنے میں ہم پاکستانی مردوں کا شاید ہی کوئی ثانی ہو، لیکن اس میں سارا قصور مردوں کا بھی نہیں۔ اس عمل میں تھوڑا سا حصہ خواتین کا بھی ہے۔ خواتین کے پاس اس مسئلے کا بہترین حل حجاب کی صورت میں ہے، لیکن اب کیا کیا جائے کہ حجاب کے اپنے ’’مسائل‘‘ ہیں۔
محترمہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’میں اسی وجہ سے دو نوکریاں چھوڑ چکی ہوں اور اب شاید تیسری بھی چھوڑ دوں۔ اچھا خدا کا شکر ہے کہ مجھے پیسوں کی کوئی ایسی ضرورت نہیں، اس لئے میں دماغ ٹھکانے لگانے میں زیادہ نہیں سوچتی، لیکن آپ سوچیں جو مجبور ہوتی ہیں، ان پر کیا گزرتی ہوگی اور وہ کس اذیت میں ہوتی ہوں گی۔‘‘ یہاں تک تو بی بی کا شکوہ بڑی حد تک درست تھا، لیکن اس کے بعد وہ راستے سے ہٹ گئیں اور سیلانی کی بھی ہٹ گئی۔ وہ بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہنے لگیں: ’’میرا ننھیال دہلی میں ہے، میری ساری کزنز اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، jobs کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ مجال ہے کوئی لفنگا پریشان کرے، وہاں کی سوسائٹی ہم لوگوں کی طرح conservative نہیں ہے، کھلے دماغ اور کھلی سوچ کے لوگ ہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں…‘‘
’’ایکسکیوز می! آپ کون سی دہلی اور کون سے بھارت کی بات کر رہی ہیں جناب؟‘‘ سیلانی اپنی پھولی ہوئی سانسیں سنبھالنے کے لئے پارک کے بنچ پر بیٹھ گیا۔ ’’بھارت میں آبرو ریزی وہاں کا چوتھا بڑا جرم ہے، آپ کی کزنز کے دہلی میں لال بس تو خوف کی علامت بن چکی ہے، میں بھارت کے بارے میں ایک اسٹڈی پڑھ رہا تھا، بھارت میں 2016ء میں آبرو ریزی کے اوسطاً 106 مقدمات روز رجسٹر ہوتے رہے ہیں، کتنے مقدمات؟106 مقدمات یومیہ اور آپ اور میں جانتے ہیں کہ جو مقدمات تھانوں کچہریوں تک پہنچتے ہیں، ان سے دوگنے راستے ہی میں رہ جاتے ہیں، ایسا یہاں بھی ہے اور ایسا وہاں بھی کہ کون تھانوں کچہریوں کے چکر کاٹے گا، بدنامی کا طوق الگ گلے میں پڑے گا، آپ کے ننھیال کی دلی کا کرائم ڈیٹا مجھے یاد ہے، 2016ء میں 2155 آبرو ریزی کے مقدمات اور2015ء میں 2199 مقدمات درج کئے گئے تھے، یہ ڈیٹا بھارتی ویب سائٹس پر موجود ہے جناب! یہ حال ہے بھارت کا اور آپ بھارت کی شان میں قصیدہ پڑھ رہی ہیں‘‘۔
’’اوکے بھارت میں اگر ایسا ہی ہے تو اس کو جواز بنا کر یہاں کے لچوں لفنگوں کو چھوٹ دے دی جائے، کراچی کو بھی دلی بنا دیا جائے…‘‘
’’اس بات کی بھی چھوٹ نہیں دی جا سکتی کہ کالے کوے کو سفید کبوتر بنا دیا جائے، اگر یہاں ایسا کوئی کام پندرہ سے بیس فیصد ہوتا ہے تو اسے بڑھا چڑھا کر پچاس سے ساٹھ فیصد دکھا دیا جائے، وہاں تو یہ عام سی بات ہے، نانا پاٹیکر نانا دادا کی عمر کا ہے اور اس عمر میں تنوشری دتا نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، اسے چھوڑیں بھارتی صحافی سندھیا مینن اور ہندوستان ٹائمز کی اونتیکا مہتا نے تو اپنے ایڈیٹروں کے واٹس اپ میسج بھی دنیا کے سامنے کر دیئے ہیں، جس میں انہیں ان کے ایڈیٹر صاحب کھلی ڈھلی پیشکش کر رہے ہیں… آپ ان کی بات نہ کریں، بھارت کی مثال نہ دیں، یہاں خرابی ہے، لیکن خانہ خرابہ نہیں ہے۔‘‘
سیلانی کی بات پر بی بی نے ایک زور دار پھنکار ماری اور کچھ کہے بنا لائن کاٹ دی۔ اس بار سیلانی نے انہیں کال کرنے کی حماقت نہیں کی۔ ہمارا معاشرہ یقینا کوئی آئیڈیل معاشرہ نہیں، ہم اس پاکستان سے دور بہت دور ہیں جس کے لئے ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دنیا کی ساری برائیاں خامیاں گندی مکھیوں کی طرح ادھر ہی بھنبھنا رہی ہیں، یہی پاکستانی دنیا میں عطیات دینے میں سرفہرست ہیں، اخلاقی طور پر کمزوریوں سے انکار نہیں، لیکن اسلام آباد کی میٹرو اور کراچی کی 2-D یاW-11 دلی کی لال بس کی طرح لڑکیوں عورتوں میں خوف کی علامت نہیں، ہم جانے کیوں خود کو اتنا گرا ہوا اور پست ترین خیال کرتے ہیں؟ ہم اپنے قومی تشخص پر خط تنسیخ کھینچے بنا بھی کوئی بات کر سکتے ہیں، اپنی بات میں وزن کے لئے ضروری نہیں کہ ہم خود کو اٹھا کر پہلے پستیوں میں ڈالیں۔ سیلانی کا اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں پر جانے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے، گھنے درختوں کے درمیان ٹنڈ منڈ راستوں پر لڑکیاں، بچیاں خواتین اکیلے چڑھتی اترتی دکھائی دیتی ہیں، کسی کے چہرے پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا، کچھ تو ایسی پکی سانسوں والی ہیں کہ ایک طرف سے مارگلہ پر پاؤں رکھتی ہیں اور دس سے پندرہ کلومیٹر دور پیر سوہاوہ پر پہنچ کر دم لے رہی ہوتی ہیں۔ کراچی میں سیلانی کی عمر گزری ہے، وہاں بھی بچیاں بنا کسی خوف کے کالج اسکول آجا رہی ہوتی ہیں۔ طارق روڈ، جامع کلاتھ مارکیٹ، حیدری اور پوش علاقوں سمیت کم آمدنی والے لوگوں کے علاقے کھارادر، رنچھوڑ لین، بابر مارکیٹ لانڈھی میں بھی خوب رونق رہتی ہے۔ اسکولوں کالجوں سے بچیاں لڑکیاں آجا رہی ہوتی ہیں۔ خدا کا شکر کہ خیر سے آتی اور خیر سے جاتی ہیں… پتہ نہیں کیوں ہم میں سے ایک طبقہ خود کو نیچے گرانے میںاور نیچے گرا ہوا دیکھ کر اطمینان محسوس کرتا ہے؟ شاید یہ کوئی نفسیاتی عارضہ ہے یا یہ بھی سرحد پار سے آنے والی کوئی نادیدہ تھیوری ہے… سیلانی یہ سوچتے ہوئے پھر سے اٹھا، گھڑی پر نظر ڈالی، ابھی تیس منٹ کی چہل قدمی باقی تھی۔ پارک میں اچھی خاصی رونق ہو رہی تھی۔ اسلامی یونیورسٹی کی لڑکیوں کی سبز بس چنبیلی روڈ پر سے واپسی کے لئے حرکت کر رہی تھی۔ ہاسٹل کی لڑکیاں مارکیٹ سے خریداری کے بعد بس میں سوار ہو چکی تھیں۔ پارک کے اطراف چہل قدمی کے لئے بنی راہداریوں پر کوئی دوڑ لگا رہا تھا اور کوئی تیز تیز چل رہا تھا۔ ان میں بچیاں، لڑکیاں اور خواتین بھی تھیں۔ سیلانی نے بھی قدم اٹھا دیئے اور تیز تیز چلتے ہوئے پارک میں کھیلتے بچوں، بچیوں کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔٭