ملائیشیا کی فضائی کمپنی MAS کے جس طیارے میں سوار ہوکر ہمیں کوالالمپور جانا تھا، وہ چار گھنٹے کی تاخیر سے ابوظہی سے کراچی پہنچا۔ ہم مسافر ایک ایک ہوکر اس میں سوار ہوگئے۔ ہم نے ہاتھوں میں اٹھایا ہوا سامان سیٹوں کے اوپر بنے ہوئے ریکس میں رکھا۔ جلد ہی مسافروں کو حفاظتی بیلٹ باندھنے کی ہدایت دی گئی، یعنی جہاز پرواز کے لئے تیار تھا۔ سگریٹ نوشی کی ممانعت جہاز میں سوار ہونے کے وقت سے ہی چمک رہی تھی۔ کوالالمپور ایئر پورٹ تک ’’نو اسمونگ‘‘ کے حروف اسی طرح روشن رہنے تھے۔ کیونکہ یہ فلائٹ ’’نو اسموکنگ‘‘ تھی۔ یعنی پورے سفر کے دوران چھ گھنٹے تک سگریٹ جلانا ممنوع تھا۔
چند سال پیشتر ہر ملک نے اول اپنی ڈومیسٹک پروازوں میں اسمونگ پر پابندی عائد کی اور اب رفتہ رفتہ بین الاقوامی فلائٹس میں بھی اس پابندی کی توسیع کردی گئی ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں بسوں، ٹرینوں اور سرکاری دفاتر میں سگریٹ نوشی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والا سزایاب ہوتا ہے۔ سگریٹ پینے کے نئے شوقین اس بات کو ذہن نشین کرلیں۔
بہرحال ہم اپنی سیٹوں پر آرام سے بیٹھ چکے تھے۔ اس دوران میں جہاز کے پائلٹ نے جہاز میں پیدا ہونے والی فنی خرابی کے باعث تاخیر پر مسافروں سے معذرت کی۔ اس کے بعد میں ہم سمجھے کہ اب وہ بتائے گا کہ ہمارا جہاز اتنے میٹر بلندی پر، اتنی رفتار سے پرواز کرے گا اور فلاں وقت پر کوالالمپور پہنچے گا۔ پھر وہاں کے موسم اور ٹمپریچر سے آگاہ کرے گا… وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے بجائے پائلٹ نے جو بات کہی، اسے سن کر ہم تمام مسافر پریشان ہوگئے۔
’’معزز خواتین و حضرات! جہاز میں ایک مشکوک بیگ پایا گیا ہے۔ جب تک اس کے Status کے بارے میں معلوم ہو، اس وقت تک چند لمحے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا‘‘۔
ایسے مواقع پر چند لمحات، گھنٹوں پر محیط ہو جاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام مسافروں کا سامان اتار کر مسافروں سے اس کی شناخت کرائی جاتی ہے۔ اس عمل میں خاصا وقت ضائع ہوتا ہے۔ جہاز پر کچھ دیر تک ایئر پورٹ اتھارٹی کے افسران کی آمدو رفت جاری رہی۔ جلد ہی الجھا ہوا معاملہ سلجھ گیا۔ جہاز کا دروازہ بند کیا گیا اور پائلٹ نے روانگی کا مژدہ سنایا۔
جہاز پر کھانا سرو کرنے کے بعد ہم غیر ملکی مسافروں کو ملائیشیا میں داخل ہونے کے امیگریشن فارم دیئے گئے۔ ہر ملک کے یہ فارم، پاسپورٹ سائز کے ہوتے ہیں۔ اس کا بالائی نصف حصہ ملک میں داخل "Arrival, Entry” کے لئے ہوتا ہے۔ اس پر اپنا نام، پاسپورٹ نمبر، پرواز کا نمبر، اس ملک میں رہائش کا ایڈریس اور فون نمبر لکھا جاتا ہے۔ بہرحال اس فارم کو توجہ سے، اپنے نام کی درست اسپیلنگ کے ساتھ (جو پاسپورٹ پر درج ہے) پر کرنا چاہئے۔ ایئر پورٹ پر پہنچنے کے وقت امیگریشن افسر آپ سے یہ فارم اور پاسپورٹ طلب کرے گا۔ پھر وہ ضروری کارروائی کے بعد پاسپورٹ اور اس فارم پر مہر لگا کر، فارم کا بالائی حصہ اپنے پاس رکھے گا۔ یعنی وہ ریکارڈ کا حصہ بن جائے گا کہ اس معلومات کا شخص ان کے ملک میں داخل ہو چکا ہے۔ فارم کا باقی نصف حصہ پاسپورٹ کے ساتھ آپ کو واپس کر دیا جائے گا۔
امریکا اور یورپ کے کئی ملکوں میں فارم کا باقی نصف حصہ آپ کے پاسپورٹ کے کسی صفحے کے ساتھ Staple کرکے واپس کیا جاتا ہے اور مسافروں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ فارم کے باقی نصف حصے کو حفاظت سے رکھیں۔ ملک سے واپس جانے کے وقت یہ ان سے طلب کیا جائے گا۔ لیکن ملائیشیا جیسے ملکوں میں نہ تو اسے Staple کیا جاتا ہے اور نہ ہی کچھ بتایا جاتا ہے۔ غالباً ایئر پورٹ حکام نے یہ فرض کرلیا ہے کہ ہر مسافر اس کی اہمیت سے باخبر ہے! اس کے نتیجے میں کئی نئے لوگ، جو پہلی مرتبہ سفر پر نکلے ہوتے ہیں، وہ اس فارم کے نصف حصے کو اہمیت نہیں دیتے اور گم کر بیٹھتے ہیں۔ پھر جب وہ ملک چھوڑتے ہیں تو ایئر پورٹ پر امیگریشن افسر کے طلب کرنے پر وہ بے چارے عجیب الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دنیا کے ہر ایئر پورٹ پر آنے کے بعد مسافر امیگریشن کاؤنٹر کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ جہاں سے اپنے پاسپورٹ پر اس ملک میں داخل ہونے کی مہر لگوا کر پھر متحرک بیلٹ پر سے اپنا سامان اٹھائے وہیں موجود کسٹم افسران کے سامنے سے گزر کر باہر نکلتے ہیں اور ٹیکسی یا بس میں سوار ہوکر روانہ ہوجاتے ہیں… لیکن کوالالمپور ایئر پورٹ پر جہاز سے اترنے کے بعد کہیں بھی امیگریشن کے کاؤنٹر اور کسٹم افسر نظر نہیں آتے۔ ایئر پورٹ سے واقف مسافر آگے بڑھ کر وہاں کھڑی ٹرین میں سوار ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں ایک نیا اور اس ایئر پورٹ سے ناواقف مسافر الجھن کا شکار ہوجاتا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ وہ اپنے سامان کی طرف سے فکرمند ہوجاتا ہے جو اسے نہیں ملتا۔ اس کے خیال میں یہ ٹرین شہر کی جانب جارہی ہے۔ وہ اپنے بیگ کے بغیر اس میں کیونکر سوار ہو!!!
دراصل کوالالمپور ہوائی اڈے کی وہ جگہ جہاں جہازوں سے اترا جاتا ہے، ایک مختصر سے جزیرے کی مثل ہے۔ اس میں ایئر پورٹ کی اندرونی عمارت Plus (+) کی شکل میں ہے۔ اس ’’ضرب‘‘ نما عمارت کے گرد مختلف ممالک کے جہاز لینڈ کرتے ہیں اور ان میں سے مسافر اتر کر بلڈنگ میں داخل ہوتے ہیں۔ اس عمارت میں صرف ڈیوٹی فری شاپس اور ریسٹورنٹس ہیں۔ کوالالمپور ایئر پورٹ کی یہ عمارت ’’سیٹلائٹ بلڈنگ‘‘ کہلاتی ہے۔ امیگریشن کی قطاروں اور سامان کے ملنے کے لئے یہاں نہ تو جگہ ہے اور نہ ہی اس کا انتظام ممکن ہے۔
مسافر جہاز سے اتر کر اس بلڈنگ میں موجود الیکٹرک ٹرام میں سوار ہو جاتے ہیں، جسے ’’ایرو ٹرین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ٹرین ہر تین منٹ کے بعد روانہ ہوتی ہے اور مسافروں کو تین منٹ کے سفر کے بعد تین کلو میٹر دور ایک دوسری عمارت میں پہنچاتی ہے۔ اسے ’’مین ٹرمینل بلڈنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ٹرام سے اترتے ہی امیگریشن افسران کے کاؤنٹر نظر آتے ہیں، جہاں آنے والے مسافروں کے پاسپورٹ وغیرہ چیک ہوتے ہیں۔ اس دوران میں جہاز سے مسافروں کا سامان بھی وہاں پہنچ جاتا ہے۔
پاسپورٹ پر مہر لگوانے کے بعد اپنا سامان کسٹم آفیسر سے چیک کرا کر مسافر گویا آزاد ہوجاتا ہے۔ پھر وہ مین گیٹ سے نکل کر ٹیکسی، بس یا میزبان کی کار میں شہر روانہ ہوسکتا ہے۔ کوالالمپور شہر ایئر پورٹ سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے لئے ٹیکسی کا کرایہ 150 سے 200 رنگٹ بنتا ہے اور یہ رقم ہمارے تین، چار ہزار روپے کے برابر ہے! بڑے بیگ کے ساتھ بس میں سفر کرنا مشکل ہے۔
مسافروں کی آسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے سستے سفر کے لئے KLIA ایکسپریس نامی ٹرین چلائی گئی ہے، جو اسی جگہ سے روانہ ہوتی ہے، جہاں آپ کسٹمز سے اپنا سامان چیک کراتے ہیں۔ اس کا ٹکٹ 35 رنگٹ ہے اور یہ پورے 28 منٹ میں شہر کے وسط میں پہنچاتی ہے۔ یہ تیز رفتار اور محفوظ ہے۔ آپ کے پاس خواہ کتنا ہی سامان ہو، اس میں رکھ سکتے ہیں۔ ٹیکسی کو عام طور پر وہ لوگ ترجیح دیتے ہیں، جو مرکز شہر (کوالالمپور) کے بجائے اس سے پہلے یا ایئر پورٹ کے آس پاس دیگر شہروں مثلاً: شاہ عالم، پترا جایا، سائبر جایا، سریمبان جانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ملائیشیا کا یہ بین الاقوامی کوالالمپور ایئر پورٹ، سیپانگ نامی علاقے میں ہے جو کوالالمپور شہر کے بالکل جنوب میں ’’نینگری سیمبیلان‘‘ ریاست کے بارڈر پر ہے۔ یہ علاقہ سیچانگ (Cyber Jaya) کے لئے مشہور ہے۔ سائیبر جایا کو یوں سمجھیے کہ ملائیشیا کی ’’سلیکن ویلی‘‘ ہے۔
یہ شہر 1997ء میں تعمیر ہوا اور یہاں 250 انٹرنیشنل کمپنیاںہیں۔ (جاری ہے)