امیر شیخ غریبِ شہر کی بھی سنیں!

جب کسی قانون پر ایمانداری سے عمل درآمد ہوتا ہے تو حافظ جی کا دل خوشی سے گارڈن گارڈن ہونے لگتا ہے، لیکن جب اسی قانون کی آڑ میں شہریوں سے لوٹ مار کی جانے لگے، ان کی تضحیک کی جائے اور انہیں خواہ مخواہ ہراساں اور پریشان کیا جانے لگے تو نظام کی خرابی پر دل ہی نہیں کڑھتا، بلکہ متعلقہ اداروں کے افسران بالا کے تجاہل عارفانہ پر جگر بھی دھونکنے لگتا ہے۔ جب سے امیر شیخ نے ایڈیشنل آئی جی کراچی کا چارج سنبھالا ہے، محکمے کی مجموعی کارکردگی پر توجہ سے زیادہ ان کی توجہ ٹریفک کے معاملات پر مرکوز ہے اور وہ آئی جی ہوتے ہوئے بھی ڈی آئی جی ٹریفک کی ذمہ داریوں کے امین بنے نظر آرہے ہیں۔ رہے ڈی آئی جی ٹریفک تو وہ توخدا جانے کہاں گم ہیں!
وہ کسی نے کہا ہے ناں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے تو آئی جی امیر شیخ کی دیکھا دیکھی یا پھر ان کی آشیرواد حاصل کرنے کے لئے ڈی آئی جی نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس سائوتھ بھی ایک انوکھے نوٹی فکیشن کے ساتھ میدان میں کود پڑے ہیں۔ ان کا فرمان ہے کہ پیٹرول پمپ انتظامیہ ایسے کسی موٹر سائیکل سوار کو پیٹرول فروخت نہ کرے جس نے ہیلمٹ نہ پہنا ہو۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی نئی لاجک ہے، جو شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب یہ سمجھنا باقی ہے کہ یا تو کسی پارٹی نے ہیلمٹ کی بڑی درآمد کا بندوبست کرلیا ہے یا پھر یہ غیر معیاری ایرانی تیل بیچنے کی کوئی مہم ہے۔ کراچی پولیس سے کوئی بھی توقع اس کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھ کر کی جا سکتی ہے۔
ٹریفک پولیس کی جانب سے کراچی کے شہریوں کو تختۂ مشق بنانے کی ستمگرانہ کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں۔ اس سعیٔ لاحاصل میں پولیس کے محکمے کو ملکہ حاصل ہے اور پھندا پڑتا ہے تو بے چارے غریب موٹر سائیکل سواروں کی گردن میں، جو ایک لیٹر میں زیادہ سے زیادہ کلو میٹر طے کرنا چاہتے ہیں کہ پیٹرول مہنگا ہے، تنخواہیں کم اور شاہراہوں پر ٹریفک جام۔ ایسے میں ایندھن دل کی دھڑکن کے ساتھ پھنکتا ہے۔ راستے تجاوزات سے پاک ہوں تو سفر کم خرچ بالا نشیں ہو سکتا ہے اور رانگ وے جانے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ آئی جی کراچی امیر شیخ ماضی میں ڈی آئی جی ٹریفک رہ چکے ہیں، شاید ان کے کچھ خواب نامکمل ہوں، جن کی تکمیل وہ اب کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ٹریفک قوانین پر آئے روز کوئی نیا حکم نامہ جاری ہو رہا ہے۔ ایک روز آرڈر ہوا کہ رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کرنے والوں کا چالان ہی نہیں ہوگا، ان کے خلاف ایف آئی آر کٹے گی، انہیں لاک اپ کیا جائے گا اور ان کی گاڑی بھی ضبط کرلی جائے گی۔ ابھی اس حکم نامے کی بازگشت جاری ہی تھی کہ ایک اور حکم اسی ضمن میں صادر ہوا کہ موٹر سائیکل سوار ہوشیار ہو جائیں، آئندہ ہفتے سے انہیں بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہیں ہوگی، اس کے بعد تیسری مہم لائسنس چیکنگ کی ہوگی اور بنا لائسنس کسی کو گاڑی چلانے نہیں دی جائے گی۔ ان حکم ناموں کے بعد غریب عوام اپنا کام دھندا چھوڑ کر ہیلمٹ خریدنے اور لائسنس بنوانے جیسے صبر آزما دھندوں میں لگ گئے ہیں۔ مارکیٹ میں ہیلمٹ فروخت کرنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ عام اور معمولی ہیلمٹ کے بھی منہ مانگے دام وصول کئے جا رہے ہیں۔ مصنوعی شارٹیج کرکے بلیک مارکیٹنگ کا ہنر بھی ہمارے تاجر اور دکاندار خوب جانتے ہیں۔ ادھر چند روز سے لائسنس برانچز پر عوام کا جم غفیر یوں ٹوٹا پڑا ہے، جیسے داتا دربار کے باہر لنگر کی تقسیم ہو رہی ہو۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے میگا سٹی میں ڈرائیونگ لائسنس بنانے کی صرف تین برانچز، کیا یہاں کے شہریوں کے ساتھ سنگین مذاق نہیں؟ اور پھر ان برانچز ملازمین کے نخرے اور رشوتوں کے حصول کے لئے دستاویزات پر خواہ مخواہ کے اعتراضات بھی کوئی انہونی بات نہیں۔
امیر شیخ صاحب کراچی پولیس سربراہ کے طور پر آپ کے حکم نامے سر آنکھوں پر! ٹریفک قوانین پر عمل درآمد یقیناً ہونا چاہئے، مگر اس ضمن میں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ اور آپ کے محکمے نے شہریوں کو سہل سفری سہولیات بہم پہنچانے کے لئے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کردی ہیں؟ کیا مصروف راستوں اور شاہراہوں کو قابضین سے واگزار کراکے رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کے اسباب کا خاتمہ کر دیا ہے؟ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ لوگ رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کرکے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالتے ہیں؟ موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ کیوں نہیں پہنتے اور گاڑیاں ڈرائیو کرنے والے سیٹ بیلٹ کیوں نہیں باندھتے؟ کیا آپ نے کبھی محکمانہ طور پر اس بات کی تحقیق کرائی کہ لوگ ڈرائیونگ لائسنس کیوں نہیں بنواتے؟ اور آپ کے سالانہ احکامات کے بعد ہی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد لائسنس کے حصول کے لئے ان مراکز پر کیوں پہنچتی ہے؟ ایسا ممکن نہیں کہ آپ نے ان وجوہ پر سوچا نہ ہو۔ جناب عالی! آپ ایک بڑے اور ذمہ دار عہدے پر یوں ہی تو فائز نہیں کردیئے گئے، آپ کے تجربات راقم سے کہیں وسیع ہوں گے، لیکن آپ کی مجبوری یہ ہے کہ آپ کی آنکھیں محکمانہ لینسز سے دیکھنے کی عادی ہیں اور راقم عوامی لینس کا حامل ہے، جو ہر روز اسے شہر کی متعدد سڑکوں پر وہ مظاہر دکھاتے ہیں، جنہیں دیکھنے کے بعد آپ کے جاری کردہ احکامات کسی مضحکے سے کم نہیں لگتے۔
حضور والا! اگرچہ آپ کے اعلان کردہ اقدامات عین قانونی ہیں اور ان سے مفر ممکن نہیں، مگر ان قوانین کے نفاذ سے پہلے بھی بہت سے قواعد و ضوابط کا پورا ہونا ضروری ہے۔ کیا عوام کے لئے ان قواعد و ضوابط کو فعال کردیا گیا؟ آئیے عوامی آنکھ سے دیکھے ہوئے کچھ منظر نامے راقم آپ کو اپنی تحریر سے دکھاتا ہے اس امید کے ساتھ کہ ان منظرناموں کے تخلیق کاروں کے خلاف بھی آپ ایف آئی آرز درج کرانے اور انہیں جیل کی ہوا کھلانے کا اہتمام کریں گے۔
کراچی کی مصروف ترین شاہراہ راشد منہاس جہاں سی او ڈی ایریا ختم ہوتے ہی گلشن جمال کی حدود شروع ہوتی ہیں، جو ملینئم مال چوک تک جاتی ہیں، مین روڈ سے متصل بائیں ہاتھ پر سروس روڈ موجود ہے، مگر یہاں سے ملینئم مال تک اس سروس روڈ پر شنواریوں کے نام سے ہوٹل مافیا نے قبضہ جما رکھا ہے اور ایک پیٹرول پمپ بھی سروس روڈ پر ہی لگا لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس علاقے کے رہائشیوں کا گاڑی ڈرائیو کرکے اپنے گھروں تک پہنچنا محال ہے یا پھر وہ بے چارے ملینئم مال تک جاکر وہاں سے متبادل راستوں کے ذریعے اپنے گھروں تک پہنچتے ہیں۔ کیا اس سروس روڈ کی بحالی پولیس اور ٹریفک پولیس کی ذمہ داری نہیں؟ ان ہوٹلوں پر کھانا کھانے والے نوابزادہ ٹائپ لوگ بڑے دھڑلے سے اپنی گاڑیاں مین روڈ پر فٹ پاتھ کے ساتھ پارک کرکے شنواری ہوٹلز کے سجے بنے تختوں پر لیٹے بیٹھے سب ہی کو نظر آتے ہیں، ماسوائے پولیس کے اور پولیس کو کیوں نظر آئیں، جب کہ خود پولیس اہل کار بھی اپنی موبائلیں اسی مصروف شاہراہ کے کنارے پارک کرکے مفت کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ملیں۔ اسی سڑک کی دوسری جانب پل کے سامنے ان لوگوں نے قبضہ کرکے ایک تفریحی عمارت بنالی ہے، جن کی شان میں جن بھی لب کشائی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے تو پارکنگ کے لئے سڑک کی فٹ پاتھ تک پرقبضہ جما لیا ہے، جو آپ اور آپ کے محکمے کے لئے بے بسی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ شام سے رات گئے تک راشد منہاس سے جوہر چورنگی پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، کیوں کہ فٹ پاتھوں پر ہی نہیں سڑکوں پر بھی پولیس کے تعاون سے قبضہ مافیا کا راج اور ٹریفک کا گزرنا محال ہے۔ گلشن چورنگی سے یونیورسٹی گیٹ اور بائیں ہاتھ پر صحافی کالونی سے الآصف اسکوائر موڑ اور اس کے دائیں بائیں ٹریفک کی بے ہنگم صورت حال لوگوں کو نفسیاتی مریض بنانے کے لئے کافی ہے، شام کو مغرب کے بعد واٹر پمپ سے پیپلز چورنگی تک گاڑی ڈرائیو کرکے پہنچنا ایک ایسا مشقتی کا کام ہے، جس میں بریک، ایکسی لیٹر اور کلچ دبا دبا کر ٹانگوں کا شل ہونا لازمی ہے۔ واٹر پمپ سے پیالا ہوٹل تک میرج ہالز والوںکا قبضہ ہے، صرف گاڑیاں ہی سڑکوں پر پارک نہیں ہوتیں، بلکہ تمام میرج ہالز کے کچن بھی سڑکوں پر سجے ملتے ہیں، جو ٹریفک جام کا سبب بنتے ہیں۔ آئی جی امیر شیخ کسی دن اچانک عام آدمی کی حیثیت سے ان سڑکوں کا معائنہ کریں تو انہیں اندازہ ہو کہ پہلے کرنے کے کام کیا ہیں۔ آئی جی صاحب کراچی کی سب سے بڑی اور وی آئی پی شاہراہ، شارع فیصل کے ان چند بڑے میرج ہالز کی انتظامیہ سے بھی باز پرس کا بندوبست کریں، جن کے مہمانوں کی گاڑیاں رات گئے نرسری تا کارساز مین روڈ پر پارک کراکے سگنل فری شارع کے ٹریفک کو متاثر کیا جارہا ہے۔ گلشن، شارع پاکستان، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد کی تمام مین شاہراہوں پر بھی پولیس کے تعاون سے ہی میرج ہالز مافیا قابض ہے، سروس روڈز سرشام ہی ہوٹلوں اور ہالز کے کچنز میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور مہمانوں کی گاڑیاں پولیس کو کھانا کھلانے اور کھانا تھانے پہنچانے کے عوض مین روڈز پر دو اور کبھی کبھی تو تین لینوں پر پارک کرا دی جاتی ہیں۔ لیاقت آباد، کریم آباد، حسین آباد، عائشہ منزل، صدر، ریگل، پریڈی اسٹریٹ، نیو ایم اے جناح روڈ، جہانگیر پارک، عیدگاہ، مین ایم اے جناح روڈ، بولٹن مارکیٹ، گولیمار، پٹیل پاڑا، تین ہٹی، گرومندر، نمائش، گارڈن اور سولجر بازار سمیت کراچی کی کوئی ایک شارع ایسی نہیں ملے گی، جو قابضین سے پاک ہو۔ یہ بات کسی تماشے سے کم نہیں کہ گورا قبرستان کے عین سامنے لائنز ایریا کی طرف اترتے پل کے ساتھ اشتہارات کے لئے بنائی جانے والی وہ دیوار جسے سپریم کورٹ نے توڑنے کا حکم دیا، اس دیوار کی آڑ میں بھی دس بارہ غیر قانونی دکانیں تعمیر کرا دی گئی ہیں۔ باعث شرم بات یہ ہے کہ یہ علاقہ پولیس لین کہلاتا ہے، جس کے بازو میں صدر تھانہ اور پولیس کے بعض بڑے افسران کی رہائش گاہیں بھی موجود ہیں۔ ان کی ناک کے نیچے ان ناجائز دکانوں کی تعمیر کو کیا نام دیا جائے؟ امیر شیخ صاحب تحقیقات کرائیں یا خود جاکر معائنہ کرلیں کہ ایسے حساس مقام پر ان ناجائز دکانوں کی تعمیر کیوں اور کیسے ہوگئی۔ ان دکانوں کو ہی بچانے کے لئے ابھی تک اس دیوار کو مکمل طور پر مسمار نہیں کیا گیا، خانہ پوری کے لئے تھوڑا بہت ڈیمج ضرور کر دیا گیا ہے، تاکہ دکانیں بچی رہیں، حالاں کہ اس دیوار کو مکمل طور پر توڑنے کا حکم سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان دے چکے ہیں۔
گستاخی معاف! کراچی میں ٹریفک کی بے ہنگمی دور کرنے اور لوگوں کو حادثات اور ماحولیاتی آلودگی اور نفسیاتی بیماریوں سے نجات دلانے کے لئے سب سے پہلے سڑکوں کو قابضین سے خالی کرانا ازحد ضروری ہے، یہ کام پولیس اور ٹریفک پولیس کی اولین ذمہ داری ہے، صرف لائسنس بنوانے، ہیلمٹ پہننے، سیٹ بیلٹ باندھنے اور رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کی مد میں جرمانے اور سزاؤں سے عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا درست نہیں۔ اگر یہ قوانین ہیں تو ان کا اطلاق پورے سال بلا تفریق ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس کے عادی ہو سکیں، ہفتے پندرہ دن کی مہم مفادات کا حصول تو کہی جا سکتی ہے، مسائل کا حل نہیں۔ محکمہ اگر ٹریفک نظام میں اصلاحات کا طالب ہے تو اسے عوام کی سہولیات کا بھی بندوبست کرنا ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب گاڑی چلانے والوں کو اپنی گزرگاہ صاف اور کلیئر ملے گی تو وہ کیوں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کریں گے؟ لائسنس کے حصول میں دشواریوں اور رشوتوں کا خاتمہ کرکے لوگوں کو قانونی دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں لائسنس برانچوں کی تطہیر ضروری ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کے لئے سستے اور معیاری ہیلمٹ کی فراہمی کے لئے حکومت کو سفارشات بھیجی جاسکتی ہیں۔ موٹر سائیکل سواروں کو سارا سال ہیلمٹ لگا کر موٹر سائیکل چلانے کا پابند کیا جانا چاہئے، اگر ان طریقوںکو روز مرہ میں شامل کر لیا جائے تو پولیس اور ٹریفک پولیس کو کوئی ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ سالانہ مہمات میں اپنا وقت ضائع کرے۔ امید ہے آئی جی کراچی امیر شیخ غریب شہر کی مذکورہ بالا گزارشات پر توجہ مرکوز فرمائیں گے۔ (وما توفیقی الا باللہ)

Comments (0)
Add Comment