کیا موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرسکے گی؟

وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کا خیال تھا کہ وہ ضمنی انتخابات میں 2018ء کے عام انتخابات سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کریں گے۔ کسی پارٹی کی چھوڑی ہوئی نشست پر بالعموم اسی جماعت کا امیدوار کامیاب ہوتا ہے۔ کیونکہ ووٹرز وہی ہوتے ہیں جنہوں نے پچھلے امیدوار کو کامیاب کرایا تھا۔ اس کے علاوہ ضمنی انتخابات میں حکمراں جماعت کے امیدواروں کی کامیابی زیادہ یقینی ہوتی ہے، لیکن ان دونوں اصولوں یا روایات کے برعکس تحریک انصاف نے اتوار چودہ اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں عام انتخابات سے بھی کم کامیابی حاصل کی۔ وفاق اور پنجاب میں اس جماعت کو عروج کے بجائے زوال کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنی عددی برتری ثابت نہ کرسکی۔ ان انتخابات کے نتائج وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کیلئے یقیناً مایوس کن ہوں گے۔ اسی لئے حکمراں جماعت سے فوری طور پر ایک اجلاس بلا کر غور و خوض کیا۔ تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے نفس ناطقہ، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعتراف کرلیا ہے کہ ان کی جماعت کو قومی اسمبلی کی گیارہ میں سے آٹھ یا نو نشستوں پر کامیاب ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اس کے صرف چار امیدوار منتخب ہوسکے ہیں، جبکہ مسلم لیگ کے بھی اتنے ہی امیدوار جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ ایک حیرت انگیز اور عبرت خیز امر یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں مجموعی طور پر تین نشستوں کا جو نقصان ہوا، اس میں لاہور اور بنوں میں عمران خان کی خالی کردہ دو نشستیں بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے دعوؤں کے مطابق اس کے رہنما عمران خان کو ملک بھر میں زبردست مقبولیت حاصل ہے، لیکن وہ جن نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے، ان پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی شکست کچھ اور ہی ثابت کرتی ہے یا تو عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کا دعویٰ بے بنیاد ہے، یا پھر ان کی حکومت کے دو ماہ پورے ہونے سے پہلے ہی قوم ان کے قول و فعل کے تضاد کی وجہ سے مایوس ہوچکی ہے۔ پاکستان میں کسی جماعت کا اتنی تیزی سے زوال ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا، جبکہ وہ برسر اقتدار بھی آچکی ہو۔ انسانی نفسیات کے مطابق کوئی شخص غلط بیانی کرکے جتنی تیزی سے عوام کا اعتماد حاصل کرتا ہے، اس سے مایوسی کی صورت میں اعتماد کو بھی اتنا ہی شدید دھچکا لگتا ہے اور اس شخص سے بیزاری بھی بہت جلد شروع ہوجاتی ہے۔ فواد چوہدری نے ایک طرف یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کی جماعت ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی گیارہ میں سے آٹھ یا نو کے بجائے صرف چار نشستوں پر اپنے امیدواروں کی کامیابی سمیٹ سکی ہے تو دوسری طرف انہوں نے اپنے روایتی بڑ بولے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کا رجحان ثابت کررہا ہے کہ عوام تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔
سابقہ دو حکومتوں اور بڑی سیاسی جماعتوں سے بری طرح مایوس ہونے والے ووٹرز 2018ء کے بعد برسر اقتدار آنے والوں سے بھی اس قدر بددل نظر آئے کہ انہوں نے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ ہی نہیں کیا۔ جن حلقوں میں ووٹرز کی تعداد لاکھوں میں تھی، وہاں کامیاب ہونے والے امیدوار دس پندرہ فیصد یا چند ہزار ووٹ حاصل کرسکے۔ مثلاً کراچی میں وزیراعظم عمران خان کی خالی کردہ نشست این اے 243 پر پی ٹی آئی کے امیدوار عالمگیر خان نے ضمنی الیکشن میں چھتیس ہزار سے بھی کم ووٹ حاصل کئے، جبکہ یہاں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد چار لاکھ تین ہزار کے قریب تھی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے عام انتخابات میں یہاں سے اکانوے ہزار سے کچھ زائد ووٹ لئے تھے۔ گویا اس حلقے کے صرف ساڑھے بائیس فیصد رائے دہندگان نے عمران خان کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ قومی اسمبلی کے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو کامیابی کی صورتحال کچھ یوں نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ چار، تحریک انصاف چار، مسلم لیگ (ق) دو اور متحدہ مجلس عمل ایک۔ مسلم لیگ کے خواجہ سعد رفیق اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کامیابی سے تحریک انصاف کو جھٹکا لگا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی گیارہ نشستوں پر بھی تحریک انصاف کے چار امیدواروں کے مقابلے میں مسلم لیگ کے پانچ امیدواروں کی کامیابی تحریک انصاف کی مقبولیت کے ڈھول کا پول کھولنے کیلئے کافی ہے۔ خود اپنی موجودہ اور سابقہ حکومت کے صوبے خیبرپختونخوا میں اسے نو میں سے پانچ نشستیں ملی ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی ایک بار پھر نشان عبرت بنی نظر آتی ہے۔ اس نے چوبیس میں سے صرف دو صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور وہ بھی شہری نہیں، دیہی علاقوں میں۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی بیشتر ان بااثر سیاسی خاندانوں کے لوگ کامیاب ہوئے جو پچھلے تیس چالیس برسوں سے پارلیمانی ایوانوں میں نظر آرہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد کا تعلق اس وقت تحریک انصاف سے ہے۔ اس سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ پاکستان کا موجودہ انتخابی نظام عوام کے اصل نمائندوں کو اقتدار اور قانون سازی کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچانے میں بری طرح ناکام ہے۔ ہر مرتبہ مقتدر و متمول طبقات ہی نام، چہرے اور پارٹیاں بدل بدل کر غریب عوام پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ اور اپنے اختیارات استعمال کرکے محض اپنی آئندہ نسلوں کا سیاسی و معاشی مستقبل محفوظ و مستحکم کرانے میں لگے رہے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کے قیام اور انتخابی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے بغیر ملک میں کبھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی، جس سے ملک و قوم اپنی مشکلات و مسائل سے نجات پاکر آزادی، خود مختاری، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ عمران خان اور ان کی جماعت و حکومت نے دوماہ سے بھی کم مدت میں خود اپنے تبدیلی کے نعرے کو غلط ثابت کردیا ہے۔ سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر عوام کو ایک بار پھر نئے ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی اجلاس پر اجلاس بلاکر غور و فکر میں مصروف ہے کہ اس مرتبہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے کون سے نئے حربے استعمال کئے جائیں۔ اسی بنا پر دانشوروں، مبصروں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت شاید اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ ٭

Comments (0)
Add Comment