کوئی امید بر نہیں آتی

چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے چکوال میں غیر قانونی طور پر قائم سیمنٹ فیکٹریوں کے مقدمے کی سماعت کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے فاضل عدالت کو بتایا کہ اینٹی کرپشن انتظامیہ نے اس سلسلے میں تحقیقات کی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چکوال میں سیمنٹ فیکٹریاں لگانے کے لئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نو آبجکشن سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے تھے۔ اس قانون شکنی میں سابق سرکاری افسران اور علاقے کے سیاستدان ملوث ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اینٹی کرپشن انتظامیہ کو نامزد افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب پر کام کا پہلے ہی کافی بوجھ ہے، اس لئے انسداد رشوت ستانی کا محکمہ سابق ڈسٹرکٹ ناظم سردار غلام عباس تحصیل ناظم ساجد حسین، سیکریٹری مائنز ارشاد علی کھوکھر اور سابق سیکریٹری صنعت فیاض بشیر سمیت تمام نامزد افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ایک نہایت بصیرت افروز ریمارکس میں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو (بھی) قبروں سے نکال کر ان پر مقدمات چلائے جائیں۔ چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر کچھ کہنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ملک بھر میں تمام سرکاری و نجی شعبوں میں بدعنوانی اور نااہلی اس قدر عام ہے کہ اس پر قابو پانے کے لئے فوری کارروائیوں اور ان کے نتیجے میں مجرم ثابت ہونے والے افراد کو جلد از جلد عبرت ناک سزاؤں سے دوچار کرنے کی ضرورت ہے۔ سزائیں سخت اور برسر عام دی جائیں اور ان کی مناسب تشہیر کی جائے تو ایک طرف مجرمان کے انجام تک پہنچنے سے متاثرین اطمینان کا سانس لے سکیں گے۔ دوسری طرف آئندہ قانون کی خلاف ورزی کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ عوام کو اعلیٰ عدالتوں سے بھی شکوہ ہے کہ وہاں موجود مقدمات نہایت سست رفتاری چلائے جارہے ہیں۔ آج تک کسی بڑے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچائے کی کوئی مثال سامنے آئی ہے نہ قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت لٹیروں سے واپس لی گئی ہے۔ نتیجہ یہ کہ قومی معیشت روز بہ روز روبہ زوال ہے اور عمران خان کی حکومت اپنے دعوئوں کے بالکل برعکس کاسۂ گدانی لئے در در جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اپنی استطاعت سے بڑھ کر اداروں کو راہ راست پر لانے کے لئے شب و روز کوشاں ہیں۔ انہوں نے نیب کے بارے میں تو کہہ دیا کہ ہے کہ اس پر کام کا پہلے ہی بہت بوجھ ہے، لہٰذا انسداد رشوت ستانی کا محکمہ اپنی کارکردگی بڑھائے۔ لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ میں بھی مقدمات کی بھرمار ہے۔ اس صورت میں ترجیحات کا تعین کرکے اور ان کی فہرست بنا کر کام کو نمٹانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
سارا ملک چیخ رہا ہے کہ بے ایمانی، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے کلچر نے پورا معاشرتی ڈھانچا تباہ و برباد کردیا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت نکلوا کر انہیں سخت سزاؤں سے دوچار کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی کرنسی بے قدر ہوگی نہ عوام کو مہنگائی کا شکنجہ مسلسل کسنے میں کامیاب ہوگا۔ جس طرح اعلیٰ عدالتیں ازخود نوٹس لیتی ہیں، اسی طرح وہ بعض معاملات سے بخوبی آگاہی کی صورت میں ازخود فیصلے کریں تو عوام کو قانون سے تجاوز کی یقیناً کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ قاتل، دہشت گرد، بھتہ خور، جرائم پیشہ عناصر اور ان کے سرپرست ضرور چیختے چلاتے نظر آئیں، لیکن معاشرے میں ایک بار امن قائم ہوکر ترقی و خوشحالی کا آغاز ہو جائے تو قانون شکن اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ چیف جسٹس نے درج بالا کیس میں انسداد رشوت ستانی کے محکمے کو نامزد افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے تو شاید وہ درست اور قانونی طریقے سے کام کر دکھائے، ورنہ رشوت خوری کے خلاف قائم اس محکمے کی پولیس سمیت دیگر اداروں سے زیادہ ظلم اور رشوت ستانی کی داستانیں عام ہیں۔ پچھلے دنوں بعض عدالتی کارروائیوں پر لٹیرے اور مفاد پرست سیاستدانوں کی جانب سے بڑا واویلا کیا گیا کہ اب قبروں کا بھی ٹرائل ہوگا، جس پر چیف جسٹس کو معذرت خواہانہ انداز میں وضاحت کرنی پڑی۔ تاہم فاضل منصف اعلیٰ کے تازہ ریمارکس نہایت حوصلہ افزا اور خوش آئند ہیں کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو قبروں سے نکال کر ان پر مقدمات چلانے کا وقت آگیا ہے ۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ کیا نمرود، فرعون، چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے ظالم حکمرانوں کے ظلم کا تذکرہ اس لئے بند ہو گیا کہ وہ اب دنیا میں نہیں رہے۔ دنیا انہیں قیامت تک برا کہتی رہے گی۔ مرنے کے بعد کسی عام انسان کے اچھے کاموں کا ذکر کرنے اور اس کے لئے دعائے مغفرت کا حکم اپنی جگہ، لیکن جن لوگوں نے ملک کو اپنی ہوس اقتدار اور دولت پرستی سے تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہ خود اور ان کی وحشیانہ حرکات و سکنات بعد میں فائدہ اٹھانے والے کسی صورت بھی معافی کے مستحق نہیں ہیں، خواہ وہ زندہ ہوں یا مر چکے ہوں۔ ان کے خلاف مقدمات چلا کر جو سزائیں سنائی جائیں گی، وہ تاریخ میں ضرور درج اور دوسروں کے لئے عبرت اور سبق آموزی کا ذریعہ بنیں گی۔ اس حوالے سے بھی مفاد پرستوں کے خودساختہ اخلاقی معیار اور قانونی پیچیدگیوں میں زیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک سادہ سا اصول اختیار کرلیا جائے کہ ایک خاندان کے تمام جائز اور ضروری اخراجات زیادہ سے زیادہ کتنی رقم میں پورے ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کسی خاندان کے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ عوام کی امانت ہے۔ یہ واپس مل جائے تو ملک و قوم کے دلدر آن کی آن میں دور ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی وسیع و عریض اور پر تعیش رہائش گاہ بنی گالہ کے تجاوزات کیس میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ریگولرائزیشن کا طریقہ بتا دیا ہے، اس کی روشنی میں دیکھا جائے گا کہ گھر کی عمارت سے ماحول پر (برا) اثر تو نہیں پڑتا۔ بنیادی بات اثر پڑنے کی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ایک شخص کو رہنے کے لئے اس قدر شان و شوکت والی جگہ کی کیا ضرورت ہے، جبکہ ملک کے بائیس کروڑ عوام کو سائبان تو کجا، دو وقت کی روٹی اور صاف پانی بھی میسر نہیں۔ حکمران وقت اگر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی طرح تمام شاہی ٹھاٹ باٹ کو ترک کرکے سادگی کا نمونہ بن کر دکھائے تو دوسرے امیروں، کبیروں کو بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ تبدیلی کا آغاز یہیں سے ہونا چاہئے تھا، لیکن اب تک اس کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے تو آئندہ کیا امید کی جا سکتی ہے؟
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment