امام احمد بن حنبلؒ

عبدالمالک مجاہد
امام احمد ابن حنبلؒ تاریخ اسلامی میں امام اہل السنہ و الجماعۃ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی پیدائش 12 ربیع الاول 164 ہجری میں ہوئی اور 77 سال کی عمر میں241 ہجری میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔
امام احمد ابن حنبلؓ ابھی چھوٹی عمر کے ہی تھے کہ ان کے والد محترم کا انتقال ہوگیا۔آپ نے ایک مفلس اور غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔آپ کی تربیت کی ذمہ داری آپ کی والدہ محترمہ پر آپڑی، جسے انہوں نے نہایت حسن و خوبی سے نبھایا۔آپ نے صرف 10سال کی عمر میں قرآن پاک مکمل حفظ کرلیا تھا۔ والدہ صاحبہ ان کو صبح سویرے اٹھا دیتیں، انہیں کپڑے پہناتیں، پانی گرم کرتیں، ان کو وضو کرواتیں اور برقع پہن کر خود انہیں مسجد چھوڑ کر آتیں۔
16 سال کی عمر میں حصول علم حدیث کے لیے نکلے۔ والدہ نے زاد راہ دیا۔ یہ درہم ودینار نہ تھے، بلکہ جو کے آٹے سے 10 روٹیاں تیار کیں۔ خشک کرکے ان کو کپڑے میں لپیٹ کر تھیلے میں ڈالا اور ان کے حوالے کردیا۔ ایک بوتل میں تھوڑا سانمک ساتھ کردیا۔
آپ نے حصول علم حدیث کے لیے بغداد، مکہ اور مدینہ طیبہ کا سفر کیا۔خود فرماتے ہیں کہ سفر مکہ کے دوران تین مرتبہ راستہ مجھ سے گم ہو گیا۔ تو میرا حال یہ ہوتا کہ: ’’جب بھی مجھ سے راستہ گم ہوا، میں نے بلا تاخیر استغفار کیا، حق تعالیٰ سے دعا مانگی اور عرض کیا: اے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے والے! مجھے راستہ دکھلا۔ ابھی میری دعا ختم نہ ہوتی کہ راہ دکھانے والا فوری طور پر مجھے راہ دکھا دیتا‘‘۔
صحرا کے اندر نہ تو کوئی نقشہ، نہ قاموس، نہ رہبر اور نہ ہی کوئی سواری میسر تھی لیکن رب تعالیٰ نے حفاظت فرمائی۔ کیونکہ دعا اور تضرع کے ساتھ جب خدا کے حقوق کی حفاظت کی تو حق تعالیٰ نے بھی ان کی حفاظت فرمائی۔ مکہ مکرمہ میں علم حدیث سیکھا اور پھر یمن کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پر صنعاء میں امام عبد الرزاق بن ہمام صنعانیؒ کے پاس حدیث کا علم سیکھا۔ دوران سفر چار مرتبہ راستہ سے بھٹک گئے۔ زاد راہ ختم ہوگیا۔ ان کے پاس نہ درہم تھا نہ دینار، اب کریں تو کیا کریں؟ فرماتے ہیں:
’’میں ایک ایسی قوم کے پاس جا اترا جو اہل زراعت تھے، وہ اپنی فصلوں کی کٹائی اور چھٹائی کر رہے تھے۔ میں تین روز کے لیے ان کا نوکر بن گیا‘‘۔
ان کے بارے میں کتابوں میں درج ہے کہ ان کو زبانی ایک لاکھ حدیثیں حفظ تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب صنعاء میں حدیث پڑھتے تھے تو پوری رات انہیں لکھتے رہتے، حتیٰ کہ اذان فجر ہو جاتی۔ دن کو روزہ رکھتے۔ ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ والد گرامی ایک دن میں صبح سے شام تک 300 رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔ امام ذہبیؒ کی سیر اعلام النبلاء میں تذکرہ موجود ہے کہ صنعاء میں سلطان اور امراء کی طرف سے ان کی خدمت میں تحفے ارسال کیے گئے، مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ہاتھ سے محنت کرکے کماتے۔ رب تعالیٰ نے انہیں بعض مواقع فراہم کیے، جب کچھ پیسے جمع ہوگئے تو واپس بغداد چلے گئے۔ وہاں جاکر مسند احمد مرتب کی، جس میں قریباً چالیس ہزار احادیث ہیں۔ آپ نے پھر مسند علم سنبھال لی اور ساٹھ ہزار مسائل پر فتویٰ دیا۔
امام صاحب بہت متواضع شخصیت کے مالک تھے۔ ایک مرتبہ بغداد کے بازار میں گئے۔ لکڑیوں کا گٹھا خریدا اور سرپر رکھ کر گھر کو چل دیئے۔ لوگوں نے دیکھا تو بازار بند ہوگئے۔ تاجر لوگ راستہ چھوڑ کر کھڑے ہوگئے۔ تاجروں نے سلام عرض کرنے لگے اور کہا: ہم اٹھا تے ہیں۔ ان کے ہاتھ کپکپا اٹھے، چہرہ سرخ ہوگیا اور آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔
کہا: ہم مساکین ہیں، اگر خدا نے پردہ نہ ڈال رکھا ہو تو ہم ذلیل ہو جائیں۔
ان کے پاس دنیا ذلیل ہوکر آئی۔ مال ودولت آیا مگر انکار کیا۔ ان کو قضاء کا عہدہ پیش کیاگیا۔ فرمایا: ’’مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، ورنہ خدا کی قسم! میں کسی ایسی جگہ ہجرت کر جاؤں گا کہ تم مجھے کبھی نہ پا سکو گے‘‘۔
امام ذہبی اور علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں: ان کی ماہانہ آمدنی 17 درہم تھی۔ فرمایا کرتے تھے: یہ میرے لیے کافی ہے۔ بیٹوں نے کہا: ’’اباجان! اتنی معمولی رقم میں ہمارا گزارہ ناممکن ہے‘‘۔ امام صاحب نے جوابا فرمایا: ’’دنیا کی یہ زندگی چند روزہ ہے۔ اس میں معمولی کھانا اور معمولی لباس ہمارے لیے کافی ہے، حتیٰ کہ ہم خدائے واحد کے پاس حاضر ہو جائیں‘‘۔
ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ میرے والد کے پاؤں میں 18 برس تک ایک ہی جوتا رہا۔ جب پھٹ جاتا تو اسی کی مرمت کر لیتے۔
عباسی خلیفہ متوکل نے امام احمدؒ کے لیے درہم ودینار اپنے وزراء کے ہاتھ ارسال کیے۔آپ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! میرے گھر میں اس میں سے ایک درہم یا دینار بھی داخل نہ ہو سکے گا‘‘۔
امام احمدؒ کا اخلاق قرآن کریم کے مطابق تھا۔ فرمایا کرتے تھے: میری بیوی 30 سال تک میرے ساتھ رہی، اس دوران ایک مرتبہ بھی اختلاف نہیں ہوا۔ ارشاد نبویؐ ہے: ’’تم میں سب سے اچھا انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں سے حسن سلوک کرتا ہوں‘‘۔
خلیفہ معتصم کا ایک آدمی آیا۔ اس نے آپ کو گالی دی۔ لوگوں کے سامنے بے عزت کیا۔ لوگوں نے کہا: جواب دیں۔ فرمایا :قرآن نے بتایا ہے کہ ’’جب خدا کے بندوں سے جاہل لوگ مخاطب ہوتے ہیں تو وہ جواباً سلام کہہ دیتے ہیں‘‘۔ (الفرقان: 63)
ایک مرتبہ بے شمار لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آپ کے گھر میں جمع تھے۔ ان کا بیٹا کہتا ہے: والد محترم کو دیکھا گیا کہ کمرے میں بغیر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ چہرہ قبلہ کی طرف ہے اور رو رہے ہیں۔ آپ سے پوچھا گیا کہ ماجراکیا ہے؟ فرمایا: مجھے قبر یاد آگئی کہ وہاں میں اکیلا ہوں گا۔ سوائے رب کے کوئی انیس اور ساتھی نہیں ہوگا۔ کہا گیا: ٹیک لگالیں۔ فرمایا: ’’میں اس بات سے شرماتا ہوں کہ میری رب سے ملاقات ہو رہی ہو اور میں ٹیک لگا کر بیٹھا ہوں‘‘۔
رب تعالی ہمیں بھی روز قیامت ایسے مشاہیر کا ساتھ عطا فرمائے۔ میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں، اگرچہ میرا شمار ان میں نہیں۔ شاید کہ میں انہی کی بدولت شفاعت کا مستحق قرار پاؤں۔ میں ان لوگوں سے نفرت کرتا ہوں جوگناہوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ اگر راس المال میں ہم ایک ہی جیسے ہیں۔
امام احمد بن حنبلؒ کے دور میں فتنہ (خلق قرآن) نے سر اٹھایا۔ مامون بن ہارون الرشید کہتا تھا: قرآن مخلوق ہے، جبکہ امام احمدؒ کا کہنا تھاکہ قرآن کلام الٰہی ہے۔ خدا جب چاہتا ہے ، جیسے چاہتا ہے اور جس سے چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ حق تعالی اب بھی کلام کرتا ہے۔ امام صاحبؒ نے فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مخلوق بھی اس کی اور امر بھی اسی کا ہے‘‘۔ (الأعراف: 54)
فرماتے: امرسے مراد قرآن مجید ہے۔
خلیفہ اپنی بات پر اڑا رہا اور اپنے قول کو نہ ماننے والے ایک ہزار علماء کو قتل کروادیا۔ جیلیں علماء سے بھر گئیں۔ مساجد میں درس وتدریس کا سلسلہ بند ہوگیا۔ پورے ملک میں شر اور فتنہ فساد پھیل گیا۔ معتزلہ کو آگے لایا گیا۔ اس وقت رب تعالیٰ نے دین اسلام کی اپنے اس بندے کے ذریعے مدد فرمائی۔
آپؒ نے خلیفہ کے سامنے فرمایا: ’’خدا کی قسم! قرآن خدا کا کلام ہے۔‘‘
ایک رات امام احمد حالت نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے کہ خلیفہ کے سپاہیوں نے آپ کو گھر سے اٹھا لیا۔ آپ کے ہاتھ، پاؤں میں وزنی زنجیریں، زبردستی گھوڑے پر سوار کیا گیا، تین مرتبہ گھوڑے سے گرے۔ ہر مرتبہ کہا: خدایا! میری حفاظت فرما۔
سپاہی گھوڑے کو چابک مارتا، آپ منہ کے بل گر پڑتے۔ رات کے اندھیرے میں آپ کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ فرمایا: ’’خدا میرے لیے کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق ہے۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ عرش عظیم کا رب ہے‘‘۔
مامون کے بعد معتصم نے حکومت سنبھالی۔ اگلے دن اس کے سامنے پیش ہوئے۔امام صاحب فرماتے ہیں:
’’جب میں معتصم پر داخل ہوا تو اس نے اپنی تلوار میرے چہرے کے سامنے لہرائی اور یوں گویا ہوا: اے احمد! میں تمہیں اپنے بیٹے ہارون کی طرح عزیز رکھتا ہوں۔ تم اپنے خون سے ہاتھ رنگنے پر ہمیں مجبور نہ کرو‘‘۔
امام صاحب نے جوابا فرمایا: ’’اپنے موقف کی تایید میں خدا کی کتاب سے کوئی آیت یا رسول اقدسؐ کی کوئی حدیث پیش کردو تو میں تمہاری بات مان لوں گا‘‘۔
خلیفہ نے پولیس کو حکم دیا کہ انہیں کوڑے مارے جائیں۔160 کوڑے مارے گئے۔ جس کی تاب نہ لاکر آپ بے ہوش ہوگئے۔ جب آپ کو کوڑے مارے جاتے تو آپ کے منہ سے یہ کلمات نکلتے: ’’خدا کے سوا کو ئی معبود برحق نہیں۔ وہی میرے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے‘‘۔
ایک شخص نے ان کے سامنے ان کی مدح کی تو آپ نے فرمایا: ’’میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں تمہارے اس کلام کی وجہ سے تمہیں نا پسند کرتا ہوں۔ خدا کی قسم! اگر تم میرے گناہوں اور غلطیوں کے بارے میں جان لو تو تم میرے سر پر خاک ڈال دو‘‘۔
آپ کو ساری زندگی اس بات کی تمنا رہی کہ جہاد میں حصہ لیں۔ جب آپ کی موت کا وقت قریب آیا تو اپنے قدموں کی طرف دیکھا اور فرمایا:
’’کاش! میں نے جہاد میں حصہ لیا ہوتا‘‘۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment