سرجیکل اسٹرائیک

لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
بھارت کے جنگی جنون اور جارحانہ رویئے میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ عرصے سے ایک لفظ بہت زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ وہ ہے سرجیکل اسٹرائیک۔ سرجیکل اسٹرائیک کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے تھوڑے سے فوجی (20-30) پاکستان کے کسی علاقے میں چپکے سے آئیں۔ پاکستان کی کسی فوجی عمارت کو تباہ کریں۔ کچھ سپاہیوں کو ماریں اور فوراً واپس چلے آئیں۔ لیکن وہ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ سرحد کے اندر گھس آنا تو آسان ہے۔ لیکن واپس جانا آسان نہیں۔ سرجیکل اسٹرائیک کی بات بھارتی عوام کو خوش کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ لیکن اسٹرائیک اگر ناکام ہو جائے۔ بھارتی فوجی پکڑے جائیں یا مار دیئے جائیں تو بھارت اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ پاکستانی فوج اس قسم کی مہم جوئی کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔
گزشتہ تیس سال میں پاکستان کے قومی اداروں کو بہت بری طرح تباہ کیا گیا ہے۔ پی آئی اے، ریلوے، واپڈا، اسٹیل ملز… سمیت کئی قومی ادارے تباہ کرنے والے کوئی غیر نہیں، اپنے ہی تھے۔ ہر طرح کی کرپشن کی گئی۔ ضرورت سے زیادہ بندے بھرتی کرلئے گئے۔ ناقص پالیسیاں بنائی گئیں۔ پیسہ کھایا گیا۔ یہ شاندار عمارتیں ملبے کا ڈھر بن گئیں۔ لیکن ایک ادارہ ایسا ہے، جسے کوشش کے باوجود تباہ نہ کیا جاسکا۔ اس کا نام فوج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج میں سپاہی اور افسر کے سلیکشن کا ایک مربوط نظام ہے۔ نوجوان امیدواروں کا پہلے انٹرویو ہوتا ہے، جو لوگ پاس ہو جاتے ہیں۔ ان کا میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے۔ میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد انہیں ایک بورڈ (ISSB) کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ جہاں تین دن رکھا جاتا ہے اور طرح طرح کے کئی ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر نفسیاتی ٹیسٹ۔ ISSB میں کافی کم بچے پاس ہوتے ہیں۔ پھر ان امیدواروں کو ایک سال یا دو سال کی ٹریننگ کے لئے PMA بھیجا جاتا ہے۔ جہاں نہ صرف اعلیٰ جسمانی اور ذہنی ٹریننگ دی جاتی ہے، بلکہ ان کے سچ جھوٹ (Charactor) کی آزمائش بھی ہو جاتی ہے۔ کورس کامیابی سے پاس کرنے پر ایک چھوٹا سا عہدہ سیکنڈ لیفٹینٹ ملتا ہے، پھر جنرل کے عہدے تک پہنچنے کے لیے تیس پینتیس سال کی لمبی ریس ہوتی ہے۔ پروموشن اور پوسٹنگ کا طریقہ ضابطہ کار کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ اس طرح خدا کے فضل و کرم سے ایک مضبوط فوج کا قیام عمل میں آتا ہے۔
لیکن فوج کو نیچا دکھانے کے کچھ طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ فوج کو عوام کی نظروں میں اتنا بدنام کردیا جائے کہ اس کا اعتبار اور وقار جاتا رہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سیاسی اور اقتصادی میدان میں ملک کو پیچھے چھوڑ دیا جائے۔ اس وقت بھارت کے پاس 400 ارب ڈالر اور پاکستان کے پاس 10-12 ارب ڈالر کا خزانہ موجود ہے۔ بھارت 50 ارب ڈالر اور پاکستان 10 ارب ڈالر اپنے ڈیفنس پر خرچ کر رہا ہے۔ بھارت ٹیکنالوجی اور اقتصادی مضبوطی میں پاکستان سے آگے ہے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے۔ لٹیروں کی تعداد دو چار لاکھ سے بھی کم ہوگی۔ ان کی جائیدادوں اور بینک بیلنس کی اطلاعات میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔ یہ لوٹ مار اربوں میں ہے۔ روزانہ درجنوں VIP لوٹ مار کے الزام میں پکڑے جا رہے ہیں۔ ان لوگوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر انہیں ان کے اپنے گھروں میں عمر بھر کے قید اور نا اہل قرار دے دیا جائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment