انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ وہ اپنے سے باہر کی دنیا میں غور و فکر بھی کرتا ہے اور اپنی بیرونی ضروریات حاصل کرنے کے لیے محنت بھی اٹھاتا ہے۔ لیکن اسے اپنے اندر جھانکنے کی فرصت نہیں ملتی۔ اندر کی دنیا کتنی عجیب ہے۔ اس کا اندازہ اکثر لوگ نہیں کر پاتے۔ اپنے جسم پر غور و تدبر کی نظر ڈالو تو بے شمار عجائب گھر نظر آئیں گے۔ سب سے پہلے تو آپ اپنی آنکھوں کی مشین ہی لے لیجئے، جس کے ذریعے آپ دنیا کو دیکھتے ہیں۔ اس میں قدرت نے کتنے کارخانے لگائے ہوئے ہیں؟ پھر ناک، کان، ہونٹ، زبان، منہ کا دہانہ، ہاتھ اور پائوں یہ سب آپ کے خالق نے مفت کے مزدور آپ کو دے رکھے ہیں۔ ان تمام اعضا میں کام کرنے والی چھوٹی چھوٹی ہزاروں، بلکہ لاکھوں مشینیں اَن تھک کام کر رہی ہوتی ہیں۔ نہ ان کی ٹیوننگ کی ضرورت ہے اور نہ سروس کی۔ نہ اس کے پارٹ گھستے ہیں، نہ ان کو زنگ لگتا ہے۔ آپ کا ایک پیسہ بھی ان پر خرچ نہیں ہوتا اور آپ ان نعمتوں پر اِتراتے پھرتے ہیں۔ اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی آپ کو فرصت نہیں ہے۔
دوسری طرف اگر انسان اپنی کھال کے نیچے کی دنیا پر غور کرے تو اسے اپنے آپ سے گھن آنے لگے گی۔ آپ کی یہ کھال مختلف قسم کی غلاظتوں کا غلاف ہے۔ کہیں سے ذرا سی کھال، الگ کر کے دیکھو تو نظر آئے گا کہ اندر نجاست ہی نجاست بھری ہوئی ہے۔ کہیں خون ہے۔ کہیں پیپ ہے۔ کہیں پیشاب ہے، کہیں پاخانہ۔ اس کھال نے ان بدبودار نجاستوں کو چھپا رکھا ہے۔ یہ ہے اصل حقیقت اس حضرت انسان کی، جو ڈینگیں مارتا ہے کہ میں ایسا ہوں۔ میں ویسا ہوں۔ میں یہ کروں گا، وہ کر دوں گا۔ حلق سے پانی نیچے نہ اترے۔ سانس میں ذرا سی رکاوٹ پیش آجائے، دماغ کا ذرا سا اسکرو ڈھیلا ہو جائے۔ ساری لن ترانیاں ختم ہو جائیں گی۔ ہمارے آقا سرور دو عالمؐ نے ہمیں اسی لیے ایسی چھوٹی چھوٹی اور آسان باتیں سکھا دی ہیں کہ کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لو۔ کھانے کے بعد الحمد للہ کہہ دو۔ تم نے اپنے رب کا شکر ادا کر دیا۔
یہاں ممکن ہے کوئی یہ سوچے کہ کیا بسم اللہ اور الحمد للہ کہنے سے اندر کی یہ نجاستیں ختم ہو جائیں گی؟ کیا ان کلمات کے کہنے سے آنکھ، ناک، کان کی بیماریاں نہیں ہوں گی۔ جی نہیں، کھال کے نیچے والی نجاستیں تو ختم نہیں ہوں گی۔ لیکن یہ نجاستیں اندر کی مشینوں کو نقصان پہنچانے سے رکیں گی۔ اللہ کا شکر ہی ان مشینوں کی سروس ہے۔ کیونکہ ان مشینوں کے ذریعے حق سبحانہ و تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ تم میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ یہ نعمتیں دوں گا۔ اس وعدہ کا یہ مطلب نہیں کہ تم آنکھوں کا شکر کرو گے وہ آپ کو تین آنکھیں دے دیں گے۔ ناک کے شکر پر دو ناکیں مل جائیں گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ تمہاری زندگی کے ہر ہر لمحے میں تمہاری حفاظت فرما رہے ہیں۔ وہی ہر ہر سیکنڈ میں ان مشینوں کو تمہارے لیے کارآمد بنا رہے ہیں۔ تم سو رہے ہوتے ہو، وہ تمہای ان مشینوں کی نگرانی کررہے ہوتے ہیں۔ الحمد للہ۔
الفاظ خیالات کی سواری
ہم جب اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ ان الفاظ کی حقیقت کیا ہے۔ اگر اب تک نہیں کیا تو آج غور کیجئے۔ ہم جب بھی چاہیں اور جو بات چاہیں، اپنی زبان سے الفاظ ادا کر کے پہنچا دیتے ہیں۔ یہ حق تعالیٰ نے ایک خودکار نظام بنا دیا ہے۔ ادھر دل میں خیال آیا کہ یہ بات سامنے والے کو پہنچانی ہے۔ ادھر دماغ سے لے کر زبان تک اور زبان سے لے کر حلق تک ساری مشینیں حرکت میں آگئیں اور بغیر کسی تکلیف کے آپ نے اپنی بات پہنچا دی اور آپ کو احساس تک نہیں ہوا کہ آپ نے کتنی خودکار مشینیں استعمال کر ڈالی ہیں۔
اکثر لوگ جانتے ہیں کہ جب آدمی بات کرنا چاہتا ہے تو پہلے دل میں اس کا ارادہ یا خیال پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ خیال دماغ میں جاتا ہے اور پھر دماغ زبان کو حکم جاری کرتا ہے۔ پھر زبان بولتی ہے اور زبان آواز کے لیے گلے سے مدد لیتی ہے، کیونکہ گلے میں آواز نکالنے کی مشین فٹ ہے۔ پھر الفاظ کے ذریعے پیغام رسانی کا یہ نظام پورا ہوتا ہے اور کتنی آسانی سے سیکنڈوں میں آپ اپنی بات پہنچا دیتے ہیں۔ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے؟ اور کیا اس نظام کے خالق کے ان احسانات کا شکر ہم پر لازم نہیں آتا؟ اگر ان تمام مشینوں کے استعمال کے لیے سوئچ ہوتے تو کیسی پریشانی پیش آتی؟
ایک عبرت ناک واقعہ
برادر عزیز مفتی محمد تقی عثمانی سلمہٗ نے ایک واقعہ نقل کیا
ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں ایک شخص کو دیکھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ ان کے گلے کا بانسہ جس سے آواز نکلتی ہے، خراب ہو گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ زبان تو حرکت کرتی تھی۔ لیکن آواز نہیں نکلتی تھی۔ ڈاکٹروں کے پاس گئے تو انہوں نے گلے پر لگانے کے لیے ایک آلہ تجویز کیا۔ جب بات کرنی ہوتی تو وہ اس آلے کو گلے پر لگاتے، پھر آواز نکلتی تھی۔ لیکن وہ آواز بھی ایسی نکلتی تھی، جیسے کوئی جانور بول رہا ہو۔ بچے وہ آواز سن کر ان پر ہنستے تھے۔ جب اسے بات کرنی ہوتی تو پہلے وہ آلہ تلاش کرتا۔ پھر اس کو لگاتا اور گلے کو زور سے دباتا۔ تب جا کر مشکل سے آواز نکلتی۔ دیکھ کر عبرت ہوئی کہ یہ بھی ایک انسان ہے۔ اس کا بھی یہ دل چاہتا ہے کہ میں اپنے دل کی بات جلدی سے دوسروں تک پہنچا دوں۔ لیکن اس پر اس کو قدرت نہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے اپنے فضل و کرم سے زبان کی یہ نعمت ہمیں عطا فرمائی ہوئی ہے کہ ادھر دل میں خیال آیا، ادھر دوسرے تک پہنچا دیا۔ درمیان میں کوئی وقفہ نہیں ہے۔‘‘ (اصلاحی خطبات، ج 16، ص: 290 )
حقیقتاً بہت ہی عبرت کا واقعہ ہے۔ کسی وقت بھی جسم کا کوئی عضو حرکت کرنا چھوڑ دے تو انسان اپنا سارا مال و دولت اس کے علاج پر لٹانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ان ساری نعمتوں کے مقابلے میں اللہ جل شانہٗ کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ جب تم زبان استعمال کرنے لگو تو تھوڑا سا رک کر سوچ لیا کرو کہ تم زبان سے کیا نکال رہے ہو۔ بغیر سوچے جو منہ میں آئے زبان سے مت نکالو۔ سوچ لو کہ میری اس بات سے کوئی فائدہ پہنچے گا یا نقصان۔ زبان سے جھوٹ تو نہیں نکل رہا ہے۔ کسی کی غیبت تو نہیں ہو رہی ہے۔ بتایئے! ان تمام نعمتوں کے بدلے میں اللہ جل شانہٗ کا یہ مطالبہ کتنا سستا سودا ہے؟
پھر اگر تم زبان سے کسی کی غیبت کر رہے ہو۔ جھوٹ بول رہے ہو۔ کسی کو گالی دے رہے ہو تو اس میں حق تعالیٰ کا کیا نقصان ہے؟ ان کا یہ مطالبہ بھی تمہارے ہی فائدے کے لیے ہے، تاکہ تم اس آگ کے عذاب سے بچ جائو جو ایسے بے پروا لوگوں کے لیے تیار ہے۔
حق تعالیٰ کے جاسوس ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہ تمام اعضا آنکھیں، ناک، کان، زبان، ہاتھ، پائوں جن کو حق تعالیٰ نے ہمیں مفت عطا فرمایا ہوا ہے۔ یہاں وہ ہماری غلامی کررہے ہیں، مگر آخرت میں ان کو زبان دے دی جائے گی اور یہ انسان کا سب کچا چٹھا کھول کر سامنے رکھ دیں گے۔
اس کے علاوہ رب تعالیٰ نے ہمارے ایک ایک لفظ کو ریکارڈ کرنے کا بھی مضبوط نظام بنایا ہوا ہے۔ حق تعالیٰ نے الفاظ کی ریکارڈنگ کرنے والا بھی مقرر فرما دیا ہے۔ قرآن کریم میں حق تعالیٰ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگراں مقرر ہوتا ہے۔ ہر وقت (لکھنے کے لیے) تیار۔‘‘ (سورۂ ق آیت 18)
یہ ہر وقت تیار لکھنے والا اپنے کام میں بڑا ماہر اور مضبوط قویٰ والا ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ ہر انسان پر علیحدہ کوئی فرشتہ مقرر ہے یا تمام انسانوں کے الفاظ لکھنے کا الگ سے کوئی نظام ہے؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان پر ایک نگراں اور لکھنے والا مقرر ہے۔ اگر ایسا ہے تب بھی یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ہر انسان صبح سے شام تک کتنے الفاظ بولتا ہے، ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لکھنے والا کوئی لفظ نہیں چھوڑتا۔
پھر الفاظ بھی اسی وقت تک کارآمد ہیں، جب تک آپ الفاظ کے معنیٰ سمجھ سکتے ہوں۔ فرض کیجئے کہ آپ کے پاس دو چینی بیٹھے اپنی زبان میں باتیں کررہے ہیں۔ آپ کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، ان کی نہ سمجھ میں آنے والی آواز تو آپ سن رہے ہیں۔ لیکن آپ بے خبر ہیں اور ان کے الفاظ آپ کے لیے بے کار ہیں۔ حق تعالیٰ شانہٗ دنیا کی ساری زبانوں کے خالق ہیں۔ کوئی شخص کسی بھی زبان میں بات کرے رب تعالیٰ کے یہاں وہ سب الفاظ لکھے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی چینی مسلمان حق تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو نہیں سمجھیں گے؟
اسی لیے اللہ والے اپنے الفاظ میں بڑی احتیاط کرتے ہیں کہ ان کے الفاظ میں کوئی ایک لفط بھی ایسا نہ نکلے، جو خلاف واقعہ ہو۔ ایک بزرگ کا واقعہ یاد آیا۔ ان کے دروازے پر ایک سائل آیا۔ اس نے کچھ سوال کیا۔ بزرگ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ اللہ برکت دے (یا اللہ رزق دے)۔ اس خادم نے جا کر سائل سے کہا کہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ رزق دے گا۔‘‘ اس خادم نے لفظ ’’گا‘‘ اپنی طرف سے بڑھا دیا۔
ان بزرگ نے سنا تو تڑپ گئے اور خادم کو بلا کر ڈانٹا کہ کیا مجھ پر وحی اتری ہے یا الہام ہوا ہے کہ اللہ اس کو رزق دے گا۔ تم نے اپنی طرف سے ’’گا‘‘ کا لفظ کیوں بڑھایا؟
اس واقعے سے ایک طرف تو خادم کی بے فکری ظاہر ہوئی۔ دوسری طرف ان بزرگ کی احتیاط نمایاں ہوئی۔ اسی لیے محدثین حدیث کی روایت میں صرف الفاظ ہی کی حفاظت نہیں کرتے، بلکہ اس ماحول کی بھی عکاسی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس حالت میں آپؐ نے فلاں حدیث بیان فرمائی۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔ ٭
٭٭٭٭٭