پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ ان کی ملکی سیاست اور پارلیمانی امور پر گہری نظر ہے۔ وہ دوسرے کئی سیاسی لوٹوں اور فصلی بٹیروں کے برعکس بڑے ثابت قدم اور اپنے مؤقف پر قائم رہنے والے قومی لیڈر تصور کئے جاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ہر اچھے برے دور میں اس سے وابستگی ان کی مستقل مزاجی کا واضح ثبوت ہے۔ اس پارٹی کی بدترین بدنامی کے دور میں بھی انہوں اسے نہیں چھوڑا، جس پر ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اسے اصول پسندی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یا تو وہ پیپلزپارٹی کو راہ راست پر لاتے یا اس کی لوٹ کھسوٹ پر اختلاف کرکے اس سے علیحدہ ہوجاتے۔ جس طرح لوٹوں کی طرح اِدھر سے اُدھر لڑھک کر فوائد حاصل کرنا اصول پسندی نہیں، بلکہ سنگین بے اصولی ہے۔ اسی طرح اپنے رہنماؤں کو غلط راہ پر چلتے دیکھ کر بھی بُز اخفش کی طرح سر ہلا کر ان کی تائید کرنا اور ان کا ساتھ دینا ملک و قوم کے مفاد میں ہے، نہ آئین و قانون اور اخلاقی اصولوں کی پابندی۔ اگر اپنے سے کم عمر، ناتجربہ کار اور لٹیرے رہنماؤں کو روکنے ٹوکنے کی ہمت نہ ہو تو کم از کم ان سے علیحدگی کا حق تو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سیاستدانوں کی جانب سے اکثر یہ شکوا کیا جاتا ہے کہ ملک میں فوجی حکومت نہ آتی اور آمروں کا راج نہ ہوتا تو شاید یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہ رہی ہوتیں اور یہ کارنامہ وہ سیاستدان اور ان کی حکومتیں انجام دیتیں، جن کے ہر دور میں وطن عزیز فوجی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ تباہی و بربادی سے دوچار ہوا۔ ان کے ادوار میں امن و امان کی صورتحال مخدوش رہی اور عام لوگوں کو ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبا کر سیاستدانوں اور ان کی پالتو نوکر شاہی نے مل جل کر خوب لوٹ کھسوٹ کی۔ اپنی تجوریاں بھریں، سرکاری خزانہ خالی کیا اور ملک کے ایک ایک بچے کو کم و بیش ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض کرکے چھوڑا۔ گرگ باراں دیدہ قسم کے یہی سیاستدان خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ ڈکٹیٹر (مراد فوجی حکمراں) ملک کو توڑیں تب بھی ان کا احتساب نہیں ہوتا۔ ان کے خیال میں موجودہ حکومت کے زیادہ تر زعما آمروں کے ساتھی یا ان کی پیداوار ہیں۔ سارے سوالات اور تلوار کے وار سیاستدانوں پر ہوتے ہیں۔ شہباز شریف کی گرفتاری سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا، لیکن جمہوریت پھر خطرے میں لگ رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ حکومت چلے اور اپنے وعدے پورے کرے۔ خورشید شاہ نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا نام لئے بغیر کہا کہ وکیل صاحب اچھے آدمی ہیں، لیکن ہیں تو ڈکٹیٹر کے ساتھی۔ پچھلے دور میں ہم پر قربان جانے والے ہمارے ترجمان چمک دیکھ کر اُدھر جا بیٹھے۔ ریکارڈ کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت میں قرضہ چوبیس ہزار بلین سے ستائیس ہزار نو سو بلین تک پہنچ گیا ہے۔ دو ماہ میں ڈالر کی قیمت میں سترہ روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔
تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کی حکومت اپنی ابتدائی دو ماہ کی ناقص کارکردگی سے ثابت کررہی ہے کہ ملک اور عوام میں بہتر تبدیلی کے دعوے اور وعدے چھ ماہ یا سال بھر تو کیا، پانچ سال میں بھی پورے نہیں ہوں گے۔ اس نے لوگوں پر قرضوں، ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ لادنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کے ردعمل میں موجودہ حکومت کا اپنی مدت پوری کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ خورشید شاہ کو اس حکومت پر تنقید کرنے کا بطور ایک عام شہری اور خاص طور پر ایک سیاستدان کی حیثیت سے پورا حق حاصل ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت ان کی تائید و حمایت کرتی ہے کہ نئے وزیراعظم کے دور میں تبدیلی ضرور آئی ہے، لیکن اسے بہتر تبدیلی ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان پر اور قوم پر واضح ہونا چاہئے کہ عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران تبدیلی کے بلند بانگ دعوے اور وعدے کرتے ہوئے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ تبدیلی کیسی ہوگی، بہتر یا بدتر؟ اب اگر وہ ہیلی کاپٹر کے سفر کو کار سے سستا سفر قرار دیں تو صحیح یا غلط، بہرحال یہ تبدیلی کی ایک قسم ہے، جسے ان پر اعتماد کرنے والوں کو قبول کرنا پڑے گا۔ آمروں کی جانب سے ملک توڑنے کی بات خورشید شاہ نے کی ہے، جبکہ اس ملک کو توڑنے کا ذمے دار ایک ہی فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ اس آمر کے دست راست خورشید شاہ کی پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے ، جنہوں نے 1970ء کے عام انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرکے شیخ مجیب الرحمان کو پیغام دیا تھا کہ ’’اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘ یعنی مغربی پاکستان میں میری حکومت اور مشرقی پاکستان میں تمہاری حکومت قائم کی جائے۔ ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے پر بھٹو نے اس میں شرکت کے لئے جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دی تھی۔ پھر یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان میں اپنا کردار ادا کرنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا نرالا عہدہ تخلیق کرکے آمریت کی ایک قسم ایجاد کی اور ملک کے عام شہریوں کو جمہوریت کے علاوہ روٹی، کپڑا اور مکان، سب سے محروم کردیا۔ خورشید شاہ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ان کے بانی چیئرمین نے ملک کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کی گود میں ان کے وزیر کی حیثیت سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا اور انہیں اپنا ڈیڈی کہتے تھے۔ اسی طرح جنرل یحییٰ خان کے ایک بیٹے کا یہ انٹرویو ریکارڈ پر ہے کہ ان کے والد، ذوالفقار علی بھٹو کو بڑے چاؤ سے جام بھر بھر کر پیش کرتے تھے۔ شہباز شریف یا نواز شریف کی گرفتاری پر کوئی زلزلہ آنے نہ آسمان ٹوٹ پڑے ، لیکن خورشید شاہ اور ان کی پارٹی کے نوخیز و نو آموز جزوی چیئرمین کو جمہوریت خطرے میں نظر آرہی ہے، کیونکہ جنرل ضیاء الحق شہید کے بعد سے یہ باری باری اور مل جل کر حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ احتساب کے موجودہ عمل سے اگرچہ اب تک ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کے رہنما خوفزدہ ہیں کہ ان کا بھی سارا کچا چٹھا دنیا کے سامنے آنے والا ہے۔ لہٰذا وہ مسلم لیگ کے ساتھ مل کر ایک بار پھر ملک و قوم کو لوٹنے کا کوئی نیا میثاق جمہوریت کرنا چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آزاد عدلیہ اور قوم کی محافظ افواج پاکستان انہیں کتنی اور کہاں تک اجازت دیتی ہیں؟ لٹیروں کی اس سیاست کا اب بھی کوئی سدباب نہیں کیا گیا تو آئندہ ملک کی سلامتی و استحکام کی کیا ضمانت دی جاسکتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭