ہمارے ملک کا بے روزگار کیا کرے؟ (حصہ اول)

میں پچھلی مرتبہ کوالالمپور کے اس ایئر پورٹ پر پہلی بار آیا تھا تو ہوائی جہاز میں میرے قریب کراچی کے چند مسافر بیٹھے تھے۔ وہ کسی ٹریول ایجنسی کے ذریعے سیر و تفریح کی غرض سے پانچ دن کیلئے ملائیشیا آئے تھے۔ ایئر پورٹ پر بھی ہم ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے مین گیٹ سے باہر نکل آئے۔ ایئر پورٹ سے باہر ان مسافروں اور دیگر غیر ملکی سیاحوں کیلئے منی بسیں موجود تھیں۔ وہ ان میں سوار ہو کر کوالالمپور شہر کے اپنے رہائشی ہوٹلوں کی جانب روانہ ہو گئے۔ چند مسافروں کو کوالالمپور کے بجائے سیدھا پینانگ یا ملاکا جانا تھا۔ وہ اپنی ٹورسٹ کمپنیوں کی بسوں میں بیٹھ کر چلے گئے۔ مجھے شہر جانے کے لئے ٹیکسی کی ضرورت تھی، مجھے اس وقت بھی حیرت ہوئی تھی کہ ہماری پرواز اور دوسری غیر ملکی فلائٹ سے کثیر تعداد میں مسافر اترے تھے۔ وہ یکایک کہاں غائب ہو گئے؟ سامنے ایک، دو پبلک بسیں ضرور کھڑی تھیں، لیکن ان میں اکّا دکّا مقامی لوگ سوار ہوئے تھے، جن کے ہاتھوں میں بھاری بھر کم بیگ اور تھیلے کے بجائے مختصر سامان تھا۔
مجھے ایک دو دن کے بعد اس بات کا علم ہوا کہ مسافروں کو کوالالمپور ایئر پورٹ سے شہر کے مرکز تک پہنچانے کیلئے سب سے سستی اور تیز رفتار سواری الیکٹرک ٹرین ہے، جو ایئر پورٹ کے اندر ہی سے چلتی ہے۔ وہ ٹرین مسافروں کو شہر کے وسط میں واقع ’’سینٹرل‘‘ اسٹیشن پر لا کر چھوڑتی ہے۔
اس مرتبہ عجلت میں ایئر پورٹ سے نکلنے کے بجائے اندر ہی مذکورہ ٹرین کے بارے میں دریافت کیا۔ آسٹریلیا سے آنے والا ایک بزرگ جوڑا بھی اسی طرف جا رہا تھا۔ میں ان کے ساتھ لفٹ میں سوار ہو کر دو فلور نیچے بیسمنٹ میں پہنچا۔ ایئر پورٹ کی دیواروں اور لفٹ میں الیکٹرک ٹرین کی سمت رہنمائی کرنے والے علامتی نشان نمایاں تھے، انہیں بھی فالو کیا جا سکتا ہے۔ میری طرح دیگر کئی مسافروں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ٹرین کا ٹکٹ کہاں سے لیا جا سکتا ہے۔ پہلے تو ہم یہی سمجھے کہ ٹرین ہی میں ٹکٹ ملے گا، لیکن پلیٹ فارم میں داخلے ہونے سے پہلے ہی ایک جگہ سے ٹکٹ حاصل کر کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔
ٹرین میں میری ایک طرف آسٹریلیا کا بزرگ جوڑا براجمان تھا اور دوسری جانب ایک پاکستانی نوجوان آ بیٹھا، اس کی عمر پچیس برس کے لگ بھگ تھی۔ وہ اپنا بڑا سا بیگ سامان رکھنے والے ریک میں رکھنے کے بجائے اسے اپنے سامنے ہاتھوں سے پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ لاہور سے پی آئی اے کے ذریعے ایک ماہ کے ٹورسٹ ویزا پر یہاں آیا ہے۔ اسی سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے بیگ کے ٹوٹنے سے سخت پریشان ہے۔ وہ ہاتھوں سے بنے ہوئے قالینوں کے سیمپل بیگ میں بھر لایا تھا، جنہیں یہاں فروخت کرنا چاہتا تھا۔
میں نے اس کی پریشانی رفع کرنے کے لئے اپنے بیگ کے گرد بندھی ہوئی نائلوں کی ڈوری کھول کر اس کے حوالے کی اور کہا کہ وہ اپنے ٹوٹے ہوئے بیگ کو اس رسی سے باندھ کر محفوظ کر لے۔
’’شکریہ سر ! لیکن آپ کے بیگ کا کیا ہو گا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میرا بیگ فی الحال تو بالکل ٹھیک ہے‘‘۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’لیکن اپنے تجربے کے مطابق میں ہمیشہ اپنے بیگ کو رسی سے باندھ کر نکلتا ہوں۔ اس کے علاوہ احتیاطاً ایک یا دو بڑے شاپر بھی بیگ میں رکھتا ہوں تاکہ اگر راستے میں بیگ کھل جائے تو پھر اس میں دوبارہ وہی سامان سما نہیں سکتا‘‘۔
وہ ملائیشیا پہلی مرتبہ آیا تھا اور بہت گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ چند میل کھیتوں کے درمیان گزرنے کے بعد کچھ عمارتیں نظر آئیں تو وہ پوچھنے لگتا کہ کیا کوالالمپور آ گیا؟ چاروں طرف پام آئل کے درختوں کو دیکھ کر وہ سمجھا کہ یہ ناریل کے درخت ہیں۔ پام آئل اور ناریل کے درخت خاصی مشابہت رکھتے ہیں۔
’’آپ کو کس جگہ جانا ہے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’میں پاکستان مسجد کے قریب کسی سستے سے مسافر خانے میں ٹھہروں گا۔ مجھے اس بارے میں ایک پاکستانی شناسا نے بتایا ہے، پھر میں وہاں سے اپنا مال لے کر مختلف دکانوں پر فروخت کروں گا‘‘۔
اس کی یہ بات سن کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ ہمارے ملک کے کئی نادان لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دوسرے ملک میں جا کر مختلف چیزیں بیچنا بہت آسان کام ہے، پھر وہ پردیس میں آ کر دربدر ہوتے ہیں، کیونکہ یہاں ان چیزوں یعنی قالین، کڑہائی والے پاکستانی، انڈین لباس وغیرہ کا بزنس کرنے والے دکاندار خود مسابقت کا شکار ہیں۔ ان کے درمیان ایک اجنبی کس طرح اپنا سامان فروخت کر سکتا ہے!
اس معاملے میں یہاں مقیم پاکستانی بھی برابر کے قصوروار ہیں، جو اپنے وطن کے غریب اور بے روزگار نوجوانوں کو اس قسم کے غلط مشورے دیتے ہیں۔ پھر ہمارے غریب بے روزگار لوگ قرض لے کر سامان اور ٹکٹ حاصل کرتے ہیں اور یہاں پہنچ کر بھٹکتے رہتے ہیں۔
سامان فروخت نہ ہونے پر یہی مشورہ دینے والے نام نہاد دوست ان سے وہ چیزیں اونے پونے داموں لے کر انہیں بھگا دیتے ہیں۔ ویسے بھی ٹورسٹ ویزا پر آنے والا کوئی شخص قانونی طور پر کسی بھی ملک میں ملازمت یا بزنس نہیں کر سکتا۔ ایسا کرنے والا ہمیشہ خوف اور خطرے کی زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے ملک کے لوگ انہی کو دیکھتے ہیں جو بچ نکلتے ہیں اور کچھ رقم کما کر لے آتے ہیں۔ انہیں نہیں دیکھا جاتا جو یہاں ملائیشیا اور عرب ملکوں کی جیلوں میں سزا کی زندگی گزار رہے ہیں۔
’’یہاں کے کسٹمز والوں نے آپ سے نہیں پوچھا کہ آپ اتنے بڑے بیگ میں قالین بھر کر کیوں لائے ہیں؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں، خدا کا شکر ہے کہ بچت ہو گئی‘‘۔ اس نے جواب دیا۔ ’’انہوں نے تو بیگ کو کھول کر بھی نہیں دیکھا۔ یہ بھی بہتر ہی ہوا کہ اس کے بعد لفٹ سے باہر آنے کے دوران میرا بیگ ٹوٹا، لیکن … ‘‘
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔
’’ لیکن، کیا؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’مجھے اپنے پاکستانی کسٹمز والوں نے لاہور ایئر پورٹ پر بہت لوٹا۔ وہ تو کہنے لگے تھے کہ میں ملائیشیا جا ہی نہیں سکتا۔ میں نے کہا کہ کیوں نہیں جا سکتا؟ میرے پاس ویزا ہے۔ ریٹرن ٹکٹ ہے، پاسپورٹ درست ہے … دراصل میرے قالینوں پر ان کی نظر تھی۔ سو مجبوراً مجھے ان کو رشوت دینی پڑی، ورنہ مجھے بہت خواری اٹھانی پڑتی۔‘‘
جب اسے معلوم ہوا کہ ملائیشیا سے میرا کافی تعلق رہا ہے تو اس نے مجھ سے پوچھا: ’’ مجھے یہاں کوئی نوکری مل سکے گی؟‘‘
’’ ان کے پاس لوگوں کی واقعی کمی ہے۔ پیسہ اور پراجیکٹ بہت ہیں۔ اس کے لئے انہیں مزدور، کاریگر، ہنر مند اور کلرک، نوکر وغیرہ کی بالکل ضرورت ہے۔ وہ اپنی اس ضرورت کی تکمیل کے لئے عموماً قریبی ملک انڈونیشیا سے لوگ بلواتے ہیں جو ورک پرمٹ پر ملائیشیا میں آ کر نوکری کرتے ہیں‘‘۔ میں نے اس سلسلے میں تفصیلی اندازمیں اسے بتایا۔
’’ لیکن ہمارے ملک کے بھی کئی لوگ ٹورسٹ ویزا پر یہاں آ کر نوکری اور بزنس کرتے ہیں‘‘۔ اس نے بتایا۔
’’ اس بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ اس قسم کا غیر قانونی کام کس طرح کیا جاتا ہے اور نہ ہی میں کسی کو ایسا مشورہ دوں گا۔ یہاں کے اخبارات میں اکثر اس قسم کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ فلاں فیکٹری یا فلاں کسنٹرکشن کے کام پر چھاپہ مار کر اتنی تعداد میں غیر قانونی طور پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کو پکڑ کر ڈی پورٹ کیا گیا یا جیل بھیج دیا گیا۔ بہر حال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں کے لوگ ’’جابس‘‘ کے لئے آتے رہتے ہیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment