ایک لائن آف کنٹرول وہ ہے جو وادیٔ کشمیر کے وجود پر طویل زخم کی طرح نظر آتی ہے۔ وہ زخم کی لکیر جو خوبصورت وادیوں سے گزرتی ہے۔ جو کشمیر کے ان دو دیہاتوں کو کاٹ جاتی ہے، جو کبھی ایک تھے۔ وہ زخم کی لکیر صرف گھروں اور گھروں پر مشتمل گاؤں کو تقسیم کرنے کا سبب نہیں بنتی، بلکہ وہ دلوں کے درمیان بھی آرے کی طرح چلتی ہے۔ اس لکیر پر کتنا لہو بہا ہے؟ اس کا حساب کسی کا پاس نہیں۔ بارشوں میں وہ لہو پہاڑوں سے بہتا ہوا کہاں گیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ آسمان سے وہ لکیر کہیں روشن تو کہیں بجھی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ لکیر کہیں واضح تو کہیں غیر واضح ہو جاتی ہے۔ دن ختم ہو جاتے ہیں۔ ہم شہروں اور خاص طور پر کراچی جیسے شہر میں رہنے والے کیا جانیں کہ موسم کا بدلنا کیا ہوتا ہے؟ اگر موسم کے بدلنے کا حسن دیکھنا ہو تو پھر کشمیر سے زیادہ اس منظر کو شدت سے محسوس کرنے والی سرزمین اور کہاں ہو سکتی ہے؟ کشمیر فطرت کے حوالے سے موسموں کے آنے جانے کا حسین مقام ہے۔ یہ فطرت کا وہ ایئر پورٹ ہے، جہاں ایک موسم لینڈ کرتا ہے اور دوسرا موسم ٹیک آف کرتا ہے۔ اس طرح موسم تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وقت کا دھارا اپنا رخ تبدیل کر دیتا ہے۔ کبھی موسم گرما موسم سرما کی گود میں چھپ جاتا ہے۔ کبھی موسم سرما اپنے ساتھ پت جھڑ لاتا ہے۔ سلسلہ روز و شب جاری رہتا ہے۔ کشمیری پہاڑوں سے بہتی ہوئی آبشاریں نیچے آکر چشموں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔صرف بہتا پانی ہی نہیں، بلکہ رکا ہوا پانی بھی ایک سا نہیں رہتا۔ مگر کشمیر میں ایک موسم رک گیا ہے۔ وہ موسم جو کبھی دکھ اور درد کا موسم تھا۔ وہ موسم اب مزاحمت کا موسم ہے۔ کشمیر کے بیٹوں، کشمیر کی بیٹیوں اور کشمیر کے بچوں نے بھی جدوجہد کے ساتھ جینے کا فن سیکھ لیا ہے۔ وہ کرفیو انہیں ڈسٹرب نہیں کرتا۔ اب وہ محاصروں سے پریشان نہیں ہوتے۔ جب کئی دنوں تک کیبل بند کیا جاتا ہے، انٹرنیٹ آف ہو جاتا ہے اور موبائل کے سگنلز روک لیے جاتے ہیں، تب بھی زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ وہ زندگی ہماری طرح سانس لینے کا نام نہیں۔ وہ زندگی ظلم کے خلاف مزاحمت کا خوبصورت اور خطرناک روپ ہے۔
تو ہم کشمیر کے حوالے سے بات کر رہے تھے ’’لائن آف کنٹرول‘‘ کی۔ کشمیر کی ایک لائن آف کنٹرول کے بارے میں تو سب جانتے ہیں۔ وہ لائن آف کنٹرول جس سے صرف کشمیری نہیں گزر سکتے، اس لائن آف کنٹرول کو خودکار ہتھیاروں کی گولیاں اور مارٹر شیل ہر دن ہر رات عبور کرتے رہتے ہیں۔ ان بارودی گولیوں اور گولوں کی وجہ سے صرف کشمیری گھروں کے دودھ دینے والے مویشی ہی نہیں، بلکہ دودھ پینے والے بچے بھی مر جاتے ہیں۔ اس لائن آف کنٹرول سے ہر کشمیری نفرت کرتا ہے۔ پھر وہ لائن آف کنٹرول کی کسی طرف بستا ہو۔ وہ لائن آف کنٹرول آزاد وادیوں کی گردن پر غلامی کے گرے ہوئے کٹار سے پیدا ہونے والے زخم کی مانند ہے۔ لائن آف کنٹرول ایک تلخی سے بھرا طعنہ ہے۔ لائن آف کنٹرول اہلیان کشمیر کے لیے ایک چیلنج ہے۔ لائن آف کنٹرول کشمیر کے ہاتھ پر وہ لکیر ہے، جس کو کشمیری نسل در نسل تبدیل کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ اس لائن آف کنٹرول پر صرف پاکستان اور بھارت کی ہی نہیں، بلکہ دنیا کے ان ممالک کی بھی مستقل نظر رہتی ہے، جن کے اس علاقے میں مفادات پوشیدہ ہیں۔ وہ سب لائن آف کنٹرول کو غور سے دیکھتے رہتے ہیں، مگر لائن آف کنٹرول کس کو دیکھتی ہے؟ لائن آف کنٹرول دونوں طرف بسنے والے ان لوگوں کو دیکھتی ہے، جو اس بدصورت لائن کو کراس نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ اس لائن کو پار کرنے سے دو ایٹمی ممالک کے درمیان خطرناک جنگ چھڑنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ لائن آف کنٹرول جنگ اور امن کے درمیان ایک مصنوعی سرحد ہے۔ وہ سرحد جو مردہ ہے۔ جو ان انسانوں کی طرح سانس نہیں لے سکتی، جن انسانوں کی زندگی میں اس لائن آف کنٹرول کی وجہ سے ناقابل بیان درد ہے۔ وہ لوگ برسوں سے اس لائن آف کنٹرول پر کھڑے فوجیوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول کو دور سے دیکھتے ہوئے ان کی عمریں بیت گئی ہیں۔ ان کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ مگر وہ منحوس لائن آف کنٹرول کمزور ہوکر ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اس لائن آف کنٹرول کو توانا رکھنے کے لیے اسے ہر روز انسانوں کا لہو پلایا جاتا ہے۔ یہ لائن آف کنٹرول صرف علاقائی نہیں، بلکہ ایک عالمی سازش ہے۔ اب اس حقیقت کے رخ سے نقاب اتر چکا ہے کہ اس لائن آف کنٹرول کی اصل حقیقت کیا ہے؟
کشمیر میں صرف یہ لائن آف کنٹرول نہیں ہے۔ کشمیر میں ایک اور لائن آف کنٹرول بھی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول ہے ڈر، خوف اور دہشت کی۔ وہ لائن آف کنٹرول صرف کشمیر میں نہیں، بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول سرحد ہی ہوتی ہے، مگر ایسی سرحد جو ریاست کے باہر نہیں، بلکہ ریاست کے اندر ہوتی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان ضروری دوری قائم رکھنے کا کام کرتی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول ریاستوںکے اندر عوام کی بغاوت کو روکنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول قانون کی حد کہلاتی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول اپنے ملک کے امن و امان کا تحفظ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول ریاستی قوانین کا احترام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول اس لیے وجود میں لائی جاتی ہے کہ عوام اور ریاست کے طاقتور ادارے مخصوص فاصلے پر رہیں۔ وہ لائن آف کنٹرول بیرونی یلغار کو نہیں، بلکہ اندرونی بغاوت کو کچلنے کے لیے قائم کی جاتی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول ملک کا اندرونی انتظام اداروں کے ہاتھوں میں رکھتی ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول خارجی صورت حال سے متاثر ہوتی ہے، مگر اس کا مزاج اور اس کی کیفیت مکمل طور پر داخلی ہوتی ہے۔ ہر ملک بطور ریاست عوام کو اپنی مٹھی میں رکھنے کے لیے اس لائن آف کنٹرول کا بڑا خیال رکھتا ہے۔ کیوں کہ جب بھی یہ اس لائن آف کنٹرول کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے، تب اس ملک کے اپنے وجود کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
بھارت نے کشمیر کو ستر برس سے دو لائنز آف کنٹرول کے درمیان جکڑ کر رکھا ہے۔ کشمیری ان دونوں سرحدوںکو اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔ وہ ان دونوں لائنز آف کنٹرولز کو نہیں مانتے۔ ان کی نظر میں دونوں لائنز آف کنٹرول نہ صرف غیر قانونی، بلکہ غیر اخلاقی بھی ہیں۔ اس لیے کشمیر کا ہر غیور فرد ان دونوں لائنز آف کنٹرول کے خلاف قدم بڑھاتا رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر کی متنازعہ لائن آف کنٹرول کو اتنا سخت کر دیا ہے کہ اگر وہاں سے کوئی پرندہ بھی گزرتا ہے تو اس کو جاسوس قرار دے کر اس پر گولی چلائی جاتی ہے۔ بھارت اس لائن آف کنٹرول کے بارے میں اس قدر حساس ہے کہ اگر اس کا بس چلے تو وہ وہاں سے ہوا کو بھی گزرنے نہ دے اور خوشبو کا راستہ بھی روک لے، مگر وہ فطرت کے حوالے سے بے بس ہے۔
کشمیری علاقائی بزدلی اور عالمی بے حسی کے باعث کشمیر کو بانٹنے والی لائن آف کنٹرول کو تو نہیں روند سکتے، اس لیے انہوں نے برسوں سے اس داخلی لائن آف کنٹرول کو اپنے پیروں تلے روندا ہے، جس کو ریاست اپنی رٹ قرار دیتی ہے۔ جس لائن آف کنٹرول کو عام الفاظ میں قانون کی حکمرانی قرار دیا جاتا ہے۔ جو لائن آف کنٹرول عام شہریوں کو وردی والوں سے ڈرا کر رکھتی ہے۔ کشمیری عوام نے ایک عرصے سے مقبوضہ کشمیر کے اندر موجود ریاستی انتظام کی اس لائن آف کنٹرول کو بے معنی بنا رکھا ہے۔ کشمیر میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جس دن کشمیر کے حریت پسند داخلی لائن آف کنٹرول کو عبور کرتے ہوئے جلسوس نہیں نکالتے اور پتھروں سے اس لائن آف کنٹرول کے وجود کو زخمی نہیں کرتے۔ اگر بھارت کشمیریوں کو خارجی لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے کی اجازت دیتا تو اہلیان کشمیر شاید داخلی لائن آف کنٹرول کا کچھ خیال رکھتے، مگر بھارت نے خارجی لائن آف کنٹرول پر کڑے پہرے بٹھا کر داخلی لائن آف کنٹرول کو کشمیری غصے کا نشانہ بنانے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ اب مقبوضہ کشمیر کی حالت یہ ہے کہ بھارت بغاوت کے طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ وہ دور نہیں کہ جب سرحدوں کو سیل کیا جائے اور سچائی دنیا سے اجتماعی قبروں کی طرح چھپائی جائے۔ یہ وہ دور نہیں جب دنیا کے ایک کونے میں ہونے والے ظلم کے خلاف اٹھنے والی صدا دنیا کے دوسرے کونے میں نہ پہنچے۔ یہ وہ دور نہیں جب معلومات پر کامیاب پہرے بٹھائے جاتے تھے۔ وہ دور کب کا ختم ہو گیا۔ اب عوامی رابطو ںکا دور ہے۔ اس دور میں کشمیر کے لوگ بھارت کی طرف سے کشمیر کے اندر نکالی گئی انتظامی لائن آف کنٹرول کو کبھی اپنے جنون سے اور کبھی اپنے خون سے مٹا کر پوری دنیا کو اطلاع دیتے ہیں کہ بھارت ان پر ظلم کر رہا ہے۔
اس وقت بھارت میں موجود سیاسی مبصر بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے کے سلسلے میں مجبور ہیں کہ کشمیر ایسا گرم ہوتا ہوا پتھر ہے، جس کو بھارت زیادہ دیر تک اپنے ہاتھ میں قابو نہیں کر سکتا۔ اس پتھر میں حرارت پیدا ہونے کا بڑا سبب کشمیری لوگوں کی وہ مستقل مزاحمت ہے، جس مستقل مزاحمت کی وجہ سے بھارتی ریاست کے ہاتھوں کشمیر میںکھنچی ہوئی داخلی لائن آف کنٹرول بے معنی بنتی جا رہی ہے۔ کشمیر کے بیٹے ہر دن اس داخلی لائن آف کنٹرول کو اپنے پیروں تلے اس طرح روندتے ہیں، جس طرح کسی زہریلے سانپ کو روندا جاتا ہے۔ یہ لائن آف کنٹرول اپنا اثر کھو چکی ہے۔ یہ لائن آف کنٹرول ایک ایسی گیند ہے، جس سے کشمیری نوجوان فٹ بال کی طرح کھیلتے ہیں۔ یہ لائن آف کنٹرول اب بھارت کے کنٹرول میں نہیں رہی۔ یہ لائن آف کنٹرول بھارت اور کشمیریوں کے درمیان پیدا ہونے والا وہ فاصلہ ہے، جو دن بہ دن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے فاصلے کی نظر سے دیکھو تو بھارت کا کشمیر پر تسلط تاریخ کے کوڑے دان میں جاتا نظر آئے گا۔ کشمیریوں کو اس بات کا یقین ہے۔ اس لیے ان میں ہر نیا دن نئی طاقت بھرتا ہے اور ہر گھڑی انہیں یہ سچائی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اب آزادی کی لہر کو کوئی بھی لائن آف کنٹرول نہیں روک سکتی۔ ٭
٭٭٭٭٭