تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی سو دن بھی پورے نہیں ہوئے کہ اس کے اقدامات پر ملک بھر میں تنقید ہونے لگی ہے۔ عالمی سود خور اداروں کے آگے دست ِ سوال پھیلانے کا فیصلہ، عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہی کیا کم تھا کہ اب شہروں کے ساتھ دیہات میں بھی تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر غریبوں کو روزگار سے محروم کیا جا رہا ہے اور غریبوں کیلئے پچاس لاکھ نئے گھر بنانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت ان سے سر چھپانے کا سائبان بھی چھیننے پر تل گئی ہے۔بلاشبہ تجاوزات کے خلاف بھرپور آپریشن ہونا چاہئے۔ ہر ایسی عمارت کو مسمار کرنا چاہئے، جو سرکاری اراضی پر قبضہ کرکے غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہو۔ اسی طرح سڑکوں کے اطراف قائم ان تمام پتھاروں کو بھی ہٹا دینا چاہئے، جن کی وجہ سے ٹریفک کی آمد ورفت میں خلل کے ساتھ پیدل چلنا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس میں امیر وغریب کی کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے۔ شرعی اور ملکی قانون کی نظر میں امیر اور غریب برابر ہیں۔ مگر ہمارے یہاں نفاذ قانون کی ہر مہم کا نشانہ صرف غریب اور پسے ہوئے طبقات ہی بنتے رہے ہیں۔ اثر ورسوخ والے امیر افراد ہر قانون سے بالاتر رہے ہیں۔ خود وزیر اعظم عمران خان کا گھر غیر قانونی ہو تو اسے ریگولائز کرنے کی ہدایت کرکے مہلت دی جاتی ہے۔ مگر غریبوں کے مکانات پر بلڈوزر چلائے جاتے ہیں۔ حکومتی بزرجمہروں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں گھر بنانا کتنا مشکل کام ہے، جس میں عمریں کھپ جاتی ہیں، مگر آپریشن کے دوران برسوں کی محنت خس وخاشاک میں تبدیل ہوتے چند منٹ بھی نہیں لگتے۔ شیخورہ پورہ کے ایک گونگے کی ویڈیو سامنے آئی ہے، جو ہر حساس دل انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کیلئے کافی ہے۔ اس گونگے کے ٹھیلے کو سرکاری اہلکار اپنی گاڑی میں ڈال کر لے جاتے ہیں، جس پر وہ رونے، چلانے اور ایسی زبان میں فریاد کرنے لگ جاتا ہے، جس سے وہاں موجود انسان تو نہیں سمجھ سکے، مگر کائنات کے رب نے ضرور سمجھا اور سنا ہوگا۔ ایک شخص معذور ہونے کے باوجود بھیگ مانگنے کے بجائے محنت سے کما رہا ہو تو اس کے ساتھ ہمدردی اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ مگر سرکاری اہلکاروں کے سینے میں شاید دل ہی نہیں ہے۔ حکومتیں شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے وجود میں آتی ہیں۔ ملکی آئین کے تحت شہریوں کو سہولیات پہنچانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تجاوزات کے خلاف مہم کے نام پر شہریوں کو روزگار اور چھت سے محروم کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ پھر شہروں سے تجاوزات گرانا تو حکومت کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے ٹریفک جام سمیت مختلف مسائل جنم لیتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے مناسب طریقہ اپنانا چاہئے کہ سبزی یا فروٹ کے پتھارے والوں کو مہلت دی جائے، تاکہ وہ اپنی جمع پونجی سمیٹ سکیں۔ اگر ان کی وجہ سے واقعی کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو انہیں متبادل جگہ فراہم کی جائے تاکہ وہ بھی اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔اس ملک پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا کسی وزیر، مشیر اور اعلیٰ سرکاری عہدیدار کا۔ مگر تبدیلی کے دعویداروں نے کرینیں چلانے کو ہی مسئلے کا حل سمجھ رکھا ہے۔ اس لئے بعض تجزیہ کار تحریک انصاف کو اپنا انتخابی نشان بلّا سے بلڈورز میں تبدیل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اب یہ سلسلہ پنجاب کے دیہاتوں میں شروع ہو چکا ہے۔ جہاں غریب کسانوں کے مکانات کو سرکاری زمین قرار دے کر مسمار کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ وہ جدی پشتی ان علاقوں میں آباد ہیں اور اپنی معمولی اراضی پر کاشتکاری کر کے بمشکل گزر بسر کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے وکلاء کیلئے کالونی بنانے کا فیصلہ ہوا تو غریبوں کی ایک ہنستی مسکراتی بستی کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ علیم خان کی ہائوسنگ سوسائٹی کو سی ڈی اے این او سی جاری نہیں کر رہا تھا، لیکن عمران خان کی حکومت بنتے ہی چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اسے این او سی جاری کر دیا گیا۔ جو لوگ واقعی سرکاری اراضی پر قابض ہیں، ایسی مافیائیں کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، ان کے خلاف بھرپور کارروائی کر کے انہیں نشان عبرت بنا دینا چاہئے۔ لیکن جنہوں نے قانونی طریقے سے جگہ خرید کر گھر تعمیر کئے ہیں، اگر سڑکوں کی توسیع یا کسی اور مقصد کیلئے ان کے گھر گرائے جاتے ہیں تو انہیں متبادل جگہ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور اگر کسی نے سرکاری زمین انہیں دھوکے سے بیچی ہے تو انہیں بھی ناجائز قابض شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ تحقیقات کرائے اور دھوکہ دہی کے اصل مجرموں کو پکڑے۔ ان سے قیمت وصول کرکے مالکان کو دے کر زمین واگزار کرائی جائے تاکہ وہ اپنے لئے دوسری جگہ چھت کا انتظام کر سکیں۔ لیکن نفاذ قانون کیلئے صرف غریب و بے کس طبقے کو ہی مشق ستم بنایا گیا تو موجودہ حکمرانوں کا حشر بھی پہلوں سے مختلف نہ ہوگا۔ دو پارٹیوں کی باری باری حکومت سے تنگ آکر عوام نے بڑی تعداد میں عمران خان کو ووٹ دیااور وہ وفاق سمیت دو صوبوں میں حکومت سازی کے قابل ہوئے۔ عوام نے چیئرمین پی ٹی آئی سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ انہوں نے نے ملک کو ریاست مدینہ جیسی فلاحی مملکت بنانے کا اعلان کر چکے ہیں، مدنی ریاست میں انسان تو اپنی جگہ، جانوروں پر بھی ظلم نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر عمران خان کی حکومت ہی غریبوں کے دکھ درد کو سمجھنے سے قاصر ہو تو عوام مایوسی کی اتھاہ گہرائی میں گر جائیں گے۔ حکومت کے اب تک کے اقدامات سے عوام کتنے خوش ہیں، اس کا کچھ اندازہ حالیہ ضمنی الیکشن بھی ہوچکا ہے۔ اسے مزید ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہئے جس سے کوئی ظلم کا نشانہ بنے۔ رحمت عالمؐ نے مظلوم کی بددعا سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے کہ اس کے اور خالق کائنات کے مابین کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ حق تعالیٰ مظلوم سے فرماتے ہیں کہ میں ضرور تیری مدد کروں گا گوکہ کچھ تاخیر ہوجائے۔ اگر حکمراں یہ سمجھتے ہیں کہ مظلوموں کی آہیں ان کی بلٹ پروف فصیلوں سے ٹکرا کر واپس ہوجائیں گی تو یہ ان کی بھول ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭