دراصل میں برسوں سے ملائیشیا حکومت کی اس پالیسی کو دیکھتا آ رہا ہوں کہ وہ قصداً اس معاملے میں نرمی برتتی ہے تاکہ دوسرے ملکوں کے لوگ ان کے ہاں غیر قانونی طور پر آتے رہیں۔ اس طرح انہیں اپنے کارخانوں، زمینوں، پام آئل اور ربڑ کی فصل کیلئے سستی لیبر مل جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وقفے وقفے سے اعلانات بھی کئے جاتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو وارننگ دی جاتی ہے کہ وہ فلاں تاریخ تک اپنے ملک لوٹ جائیں، ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ پھر پکڑ دھکڑ بھی ہوتی ہے اور کئی لوگوں کو گرفتار کر کے جیل کی سزا کے علاوہ پچھلی مرتبہ کوڑے بھی لگائے گئے۔ اس پر دنیا کی ہیومن رائٹس ایجنسیوں نے خاصا شور بھی مچایا۔
بات دراصل یہ ہے کہ ملائیشیا کے گرم اور برساتی موسم میں پام آئل اور ربڑ کی فصلوں میں کام کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ماضی میں برسوں تک اس ملک میں رہنے والے جنوبی ہندوستان کے تامل یہ کام کرتے رہے۔ اب ان کی نوجوان نسل تعلیم یافتہ ہو کر ’’افسر‘‘ بن چکی ہے، کچھ لوگوں کے ہاتھ دولت آ گئی ہے تو وہ بھی ایسا کاروبار کرنے لگے ہیں، جس میں جسمانی مشقت نہیں کرنی پڑتی۔ اس لئے ظاہر ہے کہ انہیں اپنی زمینوں اور فصلوں پر کام کرنے والے قریبی ملک انڈونیشیا کے غریب لوگوں ہی کی ضرورت ہے۔
جاگیروں اور وسیع و عریض زمینوں پر فصل کے امیر مالکان انڈونیشیا اور جنوبی ہندوستان سے قانونی طور پر مزدور لانے کے بجائے حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ملائیشیا میں غیر قانونی طور پر آنے والے مزدوروں پر زیادہ سختی نہ کرے۔ کیونکہ غیر قانونی طور پر آنے والا مزدور نہ تو میڈیکل کی سہولت طلب کرے گا اور نہ ہی اپنی تنخواہ میں اضافہ کرنے پر اصرار کرے گا۔ ایسے مزدور ہڑتال بھی نہیں کر سکتے، وہ ہر وقت خوف کی حالت میں رہتے ہیں۔ یہی حال شہروں میں تعمیراتی کام کا ہے۔ پورے ملائیشیا میں سڑکیں، مکانات، بلند عمارات، کالج، اسپتال، پل، پیٹرول پمپ وغیرہ کی تعمیرات جاری رہتی ہیں۔ اس کے لئے انہیں ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل لوگوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کام کیلئے کچھ کمپنیاں قانونی طور پر فلپائن، بنگلہ دیش، پاکستان، انڈیا اور سری لنکا سے ورک ویزا پر لوگوں کو بلواتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ غیر قانونی طور پر آنے والے مزدوروں کو کم اجرت اور کم سہولیات کے ساتھ کام پر لگا دیتی ہیں، پھر ایسے لوگوں کے بارے میں سن کر ان کے ہم وطن نوکری کی تلاش میں ٹورسٹ ویزا پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کو ملازمت مل بھی جاتی ہے اور کئی لوگ پکڑے جانے کے بعد بے آبرو ہو کر نکالے جاتے ہیں۔ جو لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، وہ بھی ہر وقت خوف میں مبتلا ہو کر زندگی گزارتے ہیں ۔ وہ پولیس سے چھپتے رہتے ہیں اور آزادانہ طور پر کہیں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ بیمار ہونے کی صورت میں اسپتال جانے سے کتراتے ہیں۔ کیونکہ وہاں ان سے پاسپورٹ طلب کیا جائے گا اور ختم المعیاد ویزا پر وہ پکڑے بھی جا سکتے ہیں۔
بہر حال ہمارے پاکستانی دوست غلام علی سولنگی کا یہی مشورہ ہے کہ جعل ساز ایجنٹوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ اگر ان ذریعے کوئی ملازمت ملتی ہے تو اس کمپنی کا لیٹر ملائیشیا کے سفارت خانے یا قونصل خانے میں دکھا کر اس کی تصدیق کی جائے۔ کیونکہ کئی لوگ ملائیشیا پہنچ کر دربدر ہو جاتے ہیں۔ یہاں آ کر حقیقت کے اس انکشاف پر ان کے ہوش اڑ جاتے ہیں کہ نوسر باز ایجنٹ نے جعلی لیٹر کے ذریعے انہیں لوٹ لیا ہے۔
کوالالمپور سینٹرل اسٹیشن پر پہنچ کر میں نے لاہوری نوجوان کو الوداع کہا اور اپنے میزبان علی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اسٹیشن سے باہر سڑک پر آ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ اسٹیشن میرے اندازے سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔ اس کے اردگرد کئی گیٹ اور مین روڈ ہیں۔ ظاہر ہے یہ نہ صرف کوالالمپور ریلوے اسٹیشن کا مقصد پورا کرتا ہے، بلکہ پورے شہر اور اردگرد سے آنے والی الیکٹرک ٹرینوں کا جنکشن بھی ہے۔ بہت تلاش کرنے کے باوجود وہاں کہیں علی نظر نہ آیا۔ ٹریفک کے ازدحام اور مسافروں کی بے انتہا بھیڑ میں مجھے عجیب سا خوف محسوس ہوا، جیسا ایک دیہاتی شخص اپنے دیہی پرسکون علاقے سے نکل کر حیدر آباد اور کراچی جیسے بڑے شہر میں پہنچ کر محسوس کرتا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ علی کو فون کروں یا اس ٹرین کا معلوم کروں جو علی کے گھر کے قریب واقع سیگا مبوٹ اسٹیشن پہنچاتی ہے … یا ٹیکسی کر لوں؟
اس دوران میں ایک طرف سے ایک نوجوان سیدھا میری طرف آیا اور قریب پہنچ کر سوالیہ لہجے میں پوچھا ’’آپ الطاف صاحب…؟‘‘
میں نے اثبات میں سر کو جنبش دے کر مسکراتے ہوئے اس سے مصافحہ کیا۔ اس نے میرا بیگ اٹھا کر موبائل فون پر علی کو مطلع کیا کہ ہم کس جگہ پر موجود ہیں اور وہ وہاں پہنچ جائے ۔
’’میرا نام شفیق خان ہے‘‘ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا۔ ’’میرا تعلق بھی روہڑی سے ہے اور میں علی کے آفس میں کام کرتا ہوں‘‘۔
’’ علی کہاں رہ گیا؟‘‘
’’وہ دراصل اسٹیشن کی دوسری طرف کار پارک کر کے وہیں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے وہ اپنی گاڑی اس طرف نہیں لا سکے‘‘۔
بہر حال شفیق نے فون کر کے اسے اپنی موجودگی کی لوکیشن بتائی۔ اس نے غالباً شفیق کو ہدایت کی تھی کہ ہم اس کے پاس آجائیں۔ لہٰذا وہ میرے بیگ کو پہیوں کے ذریعے گھسیٹتا، بھیڑ میں راستہ بناتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ہم علی کے پاس پہنچ گئے۔ وہ ملئی طرز کی قمیص، پاجامہ، اور ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جمعہ کی نماز پڑھ لی ہے؟‘‘ میں نے اس کے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ہاں، وہیں سے سیدھا یہاں آ رہا ہوں۔ میں شفیق کو بھی اپنے ساتھ لے آیا کہ آپ کو تلاش کرنے میں آسانی ہو‘‘۔
٭٭٭٭٭