کرمان سے میر جاواتک نمک کے ذخائر بکھرے پڑے ہیں

قسط نمبر 67
معروف ماہر ارضیات شمس الحسن فاروقی مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) میں چیف جیولوجسٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ افغانستان اور ایران کے تفصیلی ارضیاتی دورے کئے۔ اس کے علاوہ خطے کے معدنی دخائر پر متعدد تحقیقی مقالے بھی تحریر کر چکے ہیں۔ شمس الحسن فاروقی کی کتاب ’’رودادِ ایران‘‘ بلاشبہ تحقیق و مشاہدات پر مبنی ایسی تصنیف ہے جو ارضیات کے طلبہ سمیت ذوق مطالعہ رکھنے والے ہر فرد کو پسند آئے گی۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔
کرمانسے زاہدان اور زاہدان سے میر جاوا سفر کے دوران میری نظریں مستقل گاڑی کی کھڑی کے باہر رہیں کہ وہ سارا علاقہ نمک کی جیولوجی کے مظاہر سے اٹا پڑا تھا۔ اس سفر میں میر جاوا پہنچ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وادی میر جاوا یا وادی تافتان یا وادی تلخ آب جس کو ہم پاکستانیوں نے بگاڑ کر تہلاب بنا ڈالا ہے اور جو پاکستان کا حصہ ہے اور جس کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ پاک ایران سرحد دوڑتی ہے، دراصل ارضیاتی نقطہ نظر سے ایران کے دشت لوط یا زابل (سیستان) کے نمک کے عظیم ذخائر کا تسلسل ہے۔ اور ایک بوڑھی سالٹ وال کی باقیات پر مشتمل ہے۔ نیز اس وادی کی گہرائیوں میں نمک کے قابل نکاسی ذخائر ملنے کی قوی امیدیں ہیں۔ تافتان پہنچنے سے پہلے میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں بلوچستان سے اپنے گھر اسلام آباد واپس جب تک نہ جائوں گا جب تک کہ:
-1 نوکنڈی اسٹیل مل کے لیے تجویز کردہ ہمائے چونے کے پتھر کے ذخائر جو سیندک تانبے و سونے کے پروجیکٹ اور نوکنڈی شہر کے درمیان واقع ہیں، کو خود نہ دیکھ لوں اور خود ان کے نمائندہ نمونے حاصل نہ کرلوں۔
-2 میر جاوا یا تہلاب وادی میں خاطر خواہ کام کر کے یہ اطمینان نہ کر لوں کہ اس وادی میں نمک کے تجارتی ذخائر دریافت ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ اور یہ کہ یہ وادی اپنے وسیع رقبے کے ساتھ نہ صرف بلوچستان کے لیے، بلکہ پورے پاکستان کے لیے نمک اور نمک کے کیمیکلز کی برآمد کا ایک اہم منبہ بن سکتی ہے۔
یہ حقیر 16 مارچ سے 19 مارچ تک کوئٹہ اور تافتان کے درمیان رہا اور حکومت بلوچستان کے فراخ دلانہ اور پرخلوص تعاون سے مندرجہ بالا دونوں ذمہ داریاں دل جمعی اور کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیں اور بیس مارچ کو دوپہر پونے بارہ بجے بذریعہ کوئٹہ ایکسپریس اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گیا۔ اب اس امر واقع کو حسن اتفاق سے بلند تر درجہ دینا پڑے گا کہ میرے سلیپر کمپارٹمنٹ میں میرے علاوہ دیگر جو مسافر حضرات تھے، وہ دو ایرانی نوجوان تھے۔ ایک صاحب کا تعلق مشہد سے تھا اور دوسرے صاحب تہران کے رہنے والے تھے۔
پہلے صاحب کا نام و پتہ حسب ذیل ہے۔
جواد آسیاں… ایران۔ مشہد… چہار راہ مخابرات۔ رضا شہرمہیار شا پوری۔ تہران … خیابان ولی عصر۔ بالا تر ازمیرداماد… خیابان فرزان غربی۔ پلاک 14 طبقہ سوم۔
کوئٹہ سے لاہور تک کے سفر کے دوران ان دونوں حضرات سے بڑی دلچسپی گفتگو رہی۔ بزم شعر بھی منعقد ہوئی اور تقریباً ہر گوشۂ زندگی پر بات چیت ہوئی۔ لاہور میں جہاں ٹرین دوسرے دن ساڑھے بارہ بجے پہنچ گئی تھی، مہیار شاپوری اتر گئے۔ اور کیونکہ لاہور میں ٹرین کافی دیر رکتی ہے، اس لیے میں اپنے مہمان کو کلفٹن ہوٹل تک چھوڑنے چلا گیا۔ ان کی درخواست پر میں نے انہیں اسی ہوٹل میں قیام کا مشورہ دیا تھا۔
کوئٹہ ایکسپریس رات آٹھ بجے راولپنڈی پہنچ گئی۔ مسٹر جواد آسیاں کو بھی اسلام آباد اپنے دوست کے پاس سیکٹر G-10 میں جانا تھا۔ اس لیے میں انہیں اپنی ہی ٹیکسی میں بٹھاکر اپنے گھر لے آیا، تاکہ ٹیکسی کی مد میں ان کا کچھ پیسہ بچ جائے۔ گھر پہنچ کر اپنی اہلیہ اور دونوں بیٹوں فیصل اور شاہد سے ان کا تعارف کرایا اور پھر وہ اسی ٹیکسی سے سیکٹر G-10 روانہ ہو گئے۔
دوسرے دن صبح مہیار شاپوری بھی لاہور سے اسلام آباد پہنچ گئے۔ پہلے انہوں نے میرے سیکٹر F-7/1 میں اسٹریٹ نمبر 37 پر واقع ایک گیسٹ ہائوس میں کمرہ بک کرایا اور سہ پہر کو میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور شام تادیر ہمارے ساتھ رہے۔ میری فیملی کی درخواست پر رات کا کھانا بھی انہوں نے ہمارے ساتھ تناول فرمایا۔ اس دوران ان سے مختلف موضوعات پر بڑی دلچسپ بات چیت رہی۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ ان کے ایک سوال کے جواب میں میرے بڑے بیٹے فیصل کی جانب سے ایک منہ پھٹ جواب سے ان کی دل آزاری ہوئی۔ یہ بھی ہماری نئی یا ترقی یافتہ تہذیب کی ایک سوغات ہے کہ جس میں کسی دل آزارانہ بات کہنے کو آزادی اظہار یا فرینک نیس کا نام دیا جاتا ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ اس سلسلے میں میرا چھوٹا بیٹا شاہد اور میری بیٹی انجم اس معاملے میں مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں اور گاہے گاہے مجھے اپنے رویے میں مزید نرمی دلجوئی اور اعتدال پسندی کا مشورہ دیتی رہتی ہیں، اور میں اکثر شکریئے کے ساتھ ان کا مشورہ قبول کرتا ہوں اور پورے خلوص سے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ بھی کسی انسان پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اسے پرخلوص مشورے دینے والے اور تجاوزات سے بچانے والے موجود ہوں۔ اور میں اس کرم بے پایاں کے لیے اپنے خالق کا ازحد شکر گزار ہوں۔
میں 23 مارچ سے یکم اپریل تک اپنی ایرانی کیمرہ فلموں کی پرنٹنگ سلائیڈ فلموں کی ڈیویلپمنٹ، ارضیاتی نقشوں اور سیکشنوں کی تیاری، ایرانی معدنیاتی نمونوں کی صفائی، ان کو کمپنی کے معدنی نمونوں کے رجسٹر میں درج کرنے اور جن معدنی نمونوں کا کیمیائی و خوردبینی تجزیہ ضروری تھا ان کو متعلقہ تجربہ گاہوں میں روانہ کرنے اور پھر حاصل شدہ نتائج سے حتمی نتائج اخذ کرنے اور پھر اس تمام جمع شدہ تکنیکی مواد کو ایک مفصل و مدلل پریزینٹیشن کی شکل دینے میں مصروف رہا۔
دو اپریل کو کام کا بیشتر حصہ مکمل ہو جانے پر میں نے ایران سے واپس آنے کے بعد پہلی مرتبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کو ٹیلی فون کیا اور ان کو آگاہ کیا کہ میں بفضل تعالیٰ ایران میں دیا گیا ہدف مکمل کر کے واپس آگیا ہوں اور اس کارگزاری پر انہیں ایک ابتدائی بریفنگ دینے کے لیے تیار ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلے مجھے بریفنگ کے لیے 4 اپریل صبح دس بجے کا وقت دیا، مگر کچھ دیر کے بعد ان کے پرسنل سیکریٹری صاحب کا فون آیا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے آپ کی بریفنگ کی تاریخ تبدیل کر دی ہے اور اب آپ کل یعنی 3 اپریل کو صبح دس بجے ڈاکٹر صاحب کے آفس پہنچ جایئے۔ میں دوسرے دن مقررہ وقت پر ضروری تیاری کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے آفس پہنچ گیا، جو پرائم منسٹر ہائوس میں قائم چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کے سیکریٹریٹ نمبر 2 کے کمرہ نمبر 207-A میں قائم تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب نے اس بریفنگ کے لیے جن دیگر دو صاحبان کو بلایا ہوا تھا وہ تھے، ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے دیرینہ ساتھی ڈاکٹر نذیر احمد رانا۔ اور جناب محمد فہیم جو اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کے سیکریٹری کے طور پر کام کرتے تھے۔ گو ان کا سرکاری عہدہ چیف فائیننشل اینالسٹ (Chief Financial Analyst) کا تھا۔
اس بریفنگ میں، میں نے سب سے پہلے معزز سامعین کو ایرانی دورے کا مختصر جائزہ پیش کیا کہ کہاں گیا، کس لیے گیا اور وہاں کیا کیا۔ اس کے بعد کرمان کے کوئلے کے ذخائر کے بیان پر واپس آیا اور تفصیل سے بتایا کہ طبس و کرمان بیسن ایران کے اعلیٰ قسم کے کوکنگ و نان کوکنگ کوئلے کا کتنا عظیم اور کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے اور یہ کہ وہاں ہمارے لیے کانکنی کے پٹے حاصل کرنے کے بعد اپنی کوئلے کی کانیں اور واشنگ پلانٹس لگانا اور وہاں سے صاف کیا ہوا کوئلہ نوکنڈی میں لانا ممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم وہاں سے اپنی کانوں کا رن آف دی مائن (run the mine) یا ناصاف کوئلہ نوکنڈی لائیں اور یہاں خود واشنگ پلانٹ لگا کر اس کو صاف کریں۔ اس صورت میں دہری بچت کی امید ہے۔ ایک تو اپنی مقامی واشنگ پلانٹ کے ناتے، دوسرے کرمان کے کوئلے پر لگے واشنگ پلانٹ کا ایک پروڈکٹ مڈلنگ کے نام سے ہوتا ہے اس میں بھی ہمارے پاکستانی کوئلوں کے برابر فکسڈ کاربن ہوتا ہے۔ مگر کیونکہ ایران میں اس کا کوئی خریدار نہیں، اس لیے زرند واشنگ پلانٹ پر اس کو کوئلے کے ساتھ بحالت مجبوری مائن کئے گئے کاربونیشس شیل میں ملا کر زمین میں دوبارہ دفن کر دیا جاتا ہے یا کوئلے کے کانوں میں پیکنگ (بھرائی) ملبے کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں وہ بڑی اچھی قیمت پر فروخت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں خاطرخواہ فکسڈ کاربن ہوتا ہے اور اس میں پاکستانی کوئلوں کے برخلاف گندھک جیسی ناپسندیدہ گندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہر جگہ اور ہر مقصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ اس حقیر نے اپنے سامعین کی توجہ اس امر کی جانب بھی مبذول کرائی کہ ہمیں کرمان میں یا کرمان و طبس کے درمیان کسی اور مقام پر اپنی کوئلے کی کانیں لگانے کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی کانوں میں کوکنگ کوئلے کی سیموں (پرتوں) کے ساتھ پائی جانے والی ہائی گریڈ تھرمل کوئلے (جلانے والا کوئلہ) کی سیموں کی بھی کانکنی کریں گے، جو کہ ایرانی کان کن نہیں کرتے کہ ایران میں انتہائی سستا تیل و گیس ہونے کے ناطے اس کی کوئی مارکیٹ نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ کوئلہ عام پاکستانی کوئلوں سے دوگنی قیمت پر بہ آسانی فروخت ہو سکتا ہے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment