طباعتی اور برقیاتی ذرائع ابلاغ کے کروڑوں، بلکہ شاید اربوں روپے سرکاری و نجی اداروں پر واجب الادا ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں ملازم برطرف کر دیئے گئے ہیں۔ یا وہ متبادل روزگار کی تلاش میں خود ہی چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ کئی اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز کی بندش کا خطرہ اپنی جگہ باعث تشویش ہے کہ مزید ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔ عوام کو دنیا بھر کی نعمتیں فراہم کرنے اور سہولتیں بہم پہنچانے کی دعویدار سابقہ دو حکومتیں اپنے مکرو فریب، جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ کے باعث قانون، ملک اور قانون قدرت کی گرفت میں آ کر عبرت ناک انجام کو پہنچ رہی ہیں۔ اس کے بعد انقلابی تبدیلی کا نعرہ بلند کر کے جو ٹولا برسر اقتدار آیا ہے۔ اس نے بھی تنخواہوں سے محروم ذرائع ابلاغ کے فاقہ کش ملازمین کی اب تک کوئی داد رسی نہیں کی ہے۔ حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی اس پر از خود نوٹس لینے کا کوئی خیال آیا ہے، نہ ذرائع ابلاغ کے مالکان اور تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اس کے باوجود ہم جیسے حال مست صحافی قلم و قرطاس سے اپنا تعلق برقرار رکھے ہوئے ہیں، کیوں؟
ایک واقعہ یا لطیفہ سنا کر ہم بات کو آگے بڑھاتے ہیں، جو شاید اپنی آمدنی بند یا محدود ہو جانے کے باعث روزہ پر روزہ رکھتے چلانے والے بعض خاندانوں کو پسند نہ آئے۔ روزہ خور کو عام طور پر خدا کا چور یعنی گناہ گار کہہ کر بے عزت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن اپنے ملک میں ہر چور اتنا سینہ زور ہے کہ اہل فارس نے صدیوں پہلے ان کے بارے میں پیش گوئی کر دی تھی ’’چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘۔ یعنی چور کی جرأت ملاحظہ ہو کہ وہ ہر قسم کے خوف و خطر سے آزاد ہاتھ میں چراغ لے کر مال کو اِدھر سے اُدھر کر رہا ہے۔ کسی زمانے میں دوسروں کے مال پر چپکے سے ہاتھ مارنے اور اڑا کر لے جانے والے کو چور کہا جاتا تھا، جبکہ دن دہاڑے طاقت اور اسلحے کے زور پر مال چھین کر لے جانے والا ڈاکو قرار پاتا تھا۔
لطیفہ یا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص روزہ خوری کے لئے مشہور تھا۔ روزہ نہ رکھنے کے باوجود وہ سحری اور افطاری میں کھل کر شکم پرستی کا مظاہرہ کرتا۔ کسی نے پوچھ لیا کہ بھائی آپ روزہ تو نہیں رکھتے، لیکن کھانے میں دونوں وقت نہ صرف پیش پیش نظر آتے ہیں، بلکہ روزہ داروں پر بھی بازی لے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ؟ اس نے چوری اور چترائی کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: واہ بھی واہ، یہ کیا بات ہوئی؟ میں نماز پڑھوں نہ روزہ رکھوں، زکوٰۃ خیرات دوں نہ شب بیداری کروں … تو کیا سحری اور افطاری بھی نہ کھائوں؟ تم چاہتے ہو کہ اس ثواب سے محروم رہ کر پورا ہی کافر ہو جائوں۔
صاحبو! ہمارا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اپنی محنت کشی کا صلہ کم ملے یا زیادہ، وقت پر ملے یا بے وقت، اب جو اپنے اخبار پر وقت ابتلا آیا ہے تو وفاداری کے تمام اصول و ضوابط توڑ کر بالکل بے وفائی اختیار کر لوں؟ اچھے وقت کے ساتھیوں کی اصل پہچان مشکل وقت پر ہوتی ہے۔ ’’وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے‘‘ پر ہمیشہ کی طرح کاربند رہتے ہوئے آج سے اکتالیس سال قبل شہید صحافت محمد صلاح الدینؒ کے ساتھ روزنامہ جسارت کے ذریعے قائم ہونے والا تعلق ان شاء اﷲ زندگی کی آخری سانس تک ان سے وابستہ رہ کر نبھانے کی کوشش کروں گا۔ ایک مدت کے بعد ’’کالم پناہ‘‘ کی جانب رجوع کرنے کا ایک بڑا اور اہم سبب یہی ہے۔ دوسری بات، اس طرح اپنا وجود ثابت کرنا بھی مقصود ہے کہ بفضل الٰہی ستر سال کی اس عمر میں بھی بعض جسمانی عوارض کے باوجود چلتا پھرتا کام کے لائق ہوں۔
برادرم وجیہہ احمد صدیقی جب ’’امت‘‘ کے ادارتی صفحے کے نگراں تھے تو اس میں نہایت دلچسپ، معلوماتی، فکر انگیز اور متنوع تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ اب یہ صفحہ آدھا بھی رہ گیا ہے اور اس میں شائع ہونے والے کالم اور مضامین یکسانیت کا شکار نظر آتے ہیں۔ دقیق علمی اور مذہبی تحریروں کے ساتھ کالم پناہ میں ہلکی پھلکی تحریر بھی ہفتے میں ایک آدھ بار شائع ہو جائے تو شاید قارئین کے منہ کا ذائقہ بدلنے کا کام کر جائے۔ مجھے اندازہ ہے کہ وطن عزیز کے بڑے بڑے صحافیوں، ادیبوں اور خوب دان لے کر شور مچانے والے دان شوروں (عرف عام میں دانشوروں) کی تحریروں اور تقریروں کا اعلیٰ حکومتی سطح پر بہت کم نوٹس لیا جاتا ہے۔ ان کی باتوں پر توجہ دے کر اصلاح احوال کی کوئی روایت موجود نہیں ہے تو اس ادنیٰ و خاکسار کالم نویس کی نہایت کمزور آواز کسی پر کیا اثر انداز کرے گی۔ تاہم انسانی داستانوں میں بعض ایسے قصے بھی مذکور ہیں کہ کسی ناتواں آواز نے تاریخ کا منہ موڑ دیا۔ مثلاً سندھ کی ایک مجبور و بے کس لڑکی کی آواز پر محمد بن قاسم کی سپہ سالاری میں عربستان سے مسلمانوں کی فوج نے آ کر راجا داہر اور اس کی زبردست فوج کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا اور سندھ باب الاسلام کہلایا۔
خدا گواہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ کی اپنی صحافتی زندگی میں اکثر یہ کوشش رہی کہ عوام کی مشکلات و مصائب اور ان کے مسائل کو اقتدار کے ایوانوں اور متعلقہ حکام تک پہنچایا جائے۔ اس طرح جہاں مجھے یہ ذاتی اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ میں نے ’’جہاد بالقلم‘‘ کی ذمے داری میں اپنا معمولی کردار ادا کیا ہے، وہیں کئی مواقع پر مجھے محسوس ہوا کہ میری صدا ہمیشہ صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوئی، بلکہ کہیں کہیں اس کے اثرات معاشرے پر پڑتے ہوئے نظر بھی آئے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ زبان کی املاء و اصلاح کی میری ادنیٰ سی کوششوں کے نتائج دوسرے اخبارات و جرائد تک بھی پہنچے۔ ادب و شعر کی دنیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے احباب اپنی نگارشات از راہ محبت و کرم مجھے بھی بھیجتے اور توقع رکھتے ہیں کہ ان کی گرانقدر کاوشوں پر اظہار خیال کروں۔ ’’کالم پناہ‘‘ کے ذریعے میں اس ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لہٰذا، قارئین کرام! میرا قلم ایک بار پھر چل پڑا ہے تو اس سے نکلنے والی اچھی بری تحریریں برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جایئے۔ ادارے اور حکام و افسران بھی ہوشیار ہو جائیں کہ اس قلم نے آج تک کسی غلط کار کو بخشا ہے نہ آئندہ بخشے گا۔ یہ قلم لفافہ جرنلزم والا کوئی بکائو مال نہیں۔ دنیوی جھمیلوں سے بے نیاز ایک گوشہ نشین درویش کا ہتھیار ہے۔٭