سیلانیعجیب شش و پنج میں ہے، وہ ایک سطر لکھتا ہے اور پھر مٹا دیتا ہے، لیپ ٹاپ کے بٹنوں سے مانوس انگلیاں چند جملے ٹائپ کرکے رک جاتی ہیں اور پھر وہ backspace کا بٹن دبا کر تمام الفاظ مٹا دیتا ہے، اسے سمجھ ہی نہیں آرہی کہ لکھے یا نہ لکھے اور لکھے تو شروع کہاں سے کرے؟ اس کی تحریر پڑھنے والوں میں بارہ برس کے بچوں سے لے کر بیاسی برس کے بزرگ تک شامل ہیں، ان میں وہ بھی ہیں، جن کا سیلانی سے گاہے بگاہے رابطہ رہتا ہے، سیلانی کسی کا چاچو ہے اور کسی انکل، کسی کا بھائی اور کسی کا دوست، کوئی ماں اسے بیٹا کہہ کر مخاطب کرتی ہے اور کوئی بہن اسے بڑے ہی مان سے بھائی کہہ کر پکارتی ہے۔ سیلانی ان سب کا فیملی ممبر جیسا ہے، یہ بھی سیلانی کی آنکھیں اور کان ہیں، یہ آنکھیں کہیں ظلم، زیادتی دیکھتی ہیں یا یہ کان کچھ انہونا سنتے ہیں تو سیلانی سے اس امید پر رابطہ کر لیتے ہیں کہ وہ ان کی زبان بن جائے گا۔ اسی امید پر کراچی سے ایک لڑکی نے اسے کال کی تھی۔ پہلے اس نے سیلانی سے واٹس اپ پر بات کرنے کے لئے وقت مانگا، رات کا وقت تھا، سیلانی کی آنکھوں میں نیند بھری ہوئی تھی، اس نے دوسرے روز فون کرنے کا کہا اور فون ایک طرف رکھ کر سو گیا، دوسرے دن وہ بھارت کی نیپال سے بدمعاشیوں پر ایک دوست سے بات کر رہا تھا کہ یہ بی جے پی کی مودی حکومت کیسی ہندو حکومت ہے، جو اپنے پڑوس میں اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھ پاؤں باندھنے سے باز نہیں آرہی۔ اس کا دوست بتا رہا تھا کہ نیپال کچھ عرصے پہلے تک دنیا کی واحد ہندو ریاست تھی، جس کا سرکاری طور پر مذہب ہندو ازم تھا، یہ ننھی منی ریاست اپنی سرحدیں کسی سمندر سے نہ ملنے کے سبب تجارت اور سامان کے نقل و حمل کے لئے بھارت کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے، وہ اس مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے، اس نے 2015ء میں نیپال پر مختلف جنگی جرائم کا الزام لگایا اور پھر اس کی جانب جانے والے تمام راستے بند کر دیئے۔ نیپال نے مجبوراً چین اور اقوام متحدہ سے رابطہ کیا تو اس پر بھارت کو پتنگے لگ گئے۔ سیلانی بھارت کی اس بدمعاشی پر لکھنے کا سوچ رہا تھا اور اسی پر کام کر رہا تھا کہ اس کی نظر گھڑی پر پڑی۔ دیوار گیر گھڑی کی سات بجاتی سوئیوں سے اسے یاد آیا کہ اس نے کسی کو بات کرنے کے لئے سات بجے کا وقت دے رکھا ہے، سیلانی نے واٹس اپ آن کیا تو اسی محترمہ کا پیغام آیا ہوا تھا:
’’سر! ایک مسئلہ ہے، ہر کسی سے شیئر بھی نہیں کیا جا سکتا، آپ سے اس پر بات کرنا چاہتی ہوں، شاید آپ کوئی حل بتا سکیں، کوئی راستہ نکال سکیں…‘‘
سیلانی نے جواب دیا: ’’جی جی پلیز!‘‘
’’اچھا سر! میں آپ کو کچھ واٹس اپ میسجز بھیج رہی ہوں، وہ سنئے گا پلیز!‘‘
اس کے بعد آنے والے وائس میسجز گویا بم اور بارودی سرنگیں تھیں، وہ لڑکی بتا رہی تھی کہ اس کی ایک عزیزہ اپنے شوہر کو قتل کرنا چاہتی ہے، وہ مجھ سے زہر کا پوچھ رہی تھی کہ یہ کہاں سے اور کیسے مل سکتا ہے۔‘‘
یہ پیغام بہت عجیب سا اور نامکمل تھا، بھلا کوئی عورت اپنے شوہر اپنے بچوں کے باپ کو کیوں قتل کرنا چاہے گی، یہ جاننے کے لئے سیلانی نے دوسرا وائس میسج ڈاؤن لوڈ کرکے فون کان سے لگا کر سننے لگا، جیسے جیسے سنتا جاتا، اس کی گھبراہٹ بڑھتی جاتی، بالآخر وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا، بات ہی ایسی تھی، سیلانی نے دوبارہ فون کان سے لگا لیا کہ شاید سننے میں غلطی ہوئی اور کاش کہ ایسا ہی ہوتا، لیکن ایسا نہیں تھا، وہ شخص کوئی ذہنی بیمار اور جنسی درندہ تھا، جس نے شرم و حیاء کی تمام حدود پھلانگ کر اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پیچھے پستی اور ذلت کے اس گڑھے میں چلا گیا تھا، جہاں جھانکتے ہوئے پستیوں کو بھی خوف آتا ہے، انسان سماجی حیوان ہے، حیوان نہیں، اس میں اور جانور میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لئے ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دیتا ہے، رشتے ناطے، تعلق واسطے، رسم و رواج اور قدریں اسے اور اس معاشرے کو محفوظ بناتی ہیں اور اس سے دوسروں کو محفوظ بھی رکھتی ہیں، لیکن یہاں ایسے بدبخت، بدقسمت، بے حیا اور بے عزت انسان بھی موجود ہیں، جن کی آنکھوں میں اپنے نطفے سے پروان چڑھنے والوں کے لئے شفقت کی جگہ کچھ اور آجاتا ہے۔
یہاں بھی یہی معاملہ تھا، وہ زندیق اپنے ہی گھر میں بے شرمی کا آتش دان جلا کر اپنی ہوس تاپنا چاہتا تھا، شراب کے نشے میں دھت ہو کر وہ انسانیت سے حیوانیت کے گندے جوہڑ میں چھلانگ لگا چکا تھا اور جب سولہ برس کی بچی نے ماں کی چھاتی پر سسکتے ہوئے سر رکھا تو اسے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی، اس کے اشکوں اور سسکیوں نے سب کچھ کہہ دیا، چھوٹے بہن بھائیوں نے بھی بہن کے مؤقف کی تائید کی، یہ سب سن کر جیسے اس کا کلیجہ پھٹ گیا، وہ اپنے بدقماش شوہر کو جانتی تھی، اس کے کرتوتوں سے واقف تھی، اس لئے اس نے اپنے گھر کے دروازے اپنے عزیز واقارب پر بند کر ڈالے تھے، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے گھر میں اس کی بھانجیاں، بھتیجیاں اور عزیز رشتہ دار خواتین آئیں، جنہیں دیکھ کر اس کے شوہر کی رال بہنے لگے، لیکن اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کا شوہر جو اس کے بچوں کا سگا باپ ہے، وہ اتنا گھٹیا اور ذلیل بھی ثابت ہو سکتا ہے؟
دنیا بھر میں انسان کیا، چرند پرند کی بھی سب سے محفوظ جگہ ان کا گھر، گھونسلا، غار کچھار ہوتی ہے، جہاں وہ آنکھیں موند کر سو جاتے ہیں، لیکن اس بدقسمت خاتون کو اب اپنے گھر میں بھی آنکھیں کھلی رکھنی تھیں، اسے رکھوالے سے ہی بیٹیوں کی رکھوالی کرنی پڑ رہی تھی، اس کی کیفیت کا شاید ہی کوئی اندازہ لگا سکے، اس کی ذہنی حالت عجیب سی ہو رہی تھی، کسی سے بات بھی نہیں کر سکتی تھی کہ اور کچھ نہیں تو دل کا بوجھ ہی ہلکا ہو جائے، وہ کس سے کہتی تو کیا کہتی؟ اس کے بعد اس کے بچوں کا مستقبل کیا ہوتا، معاشرہ تو اچھے اچھوں کو جینے نہیں دیتا، اس کی بیٹیوں کو کیسے جینے دیتا؟ وہ دل پر یہ بوجھ لئے گھسٹ گھسٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور تھی، وہ اندر ہی اندر گھلے جا رہی تھی، اس کی نظریں کسی ہمدرد غمگسار کو تلاش کر رہی تھیں۔ ایک روز دل غم سے پھٹنے لگا تو سیلانی سے رابطہ کرنے والی لڑکی کے سامنے وہ رو پڑی۔ وہ لڑکی بے چاری تو گنگ ہو گئی، کاٹو تو لہو نہیں، وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سب سن کر وہ لڑکی بھی رو پڑی۔ وہ اس مسئلے کا کیا حل نکالتی۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو سیلانی کے سامنے معاملہ رکھ کر اسے بھی مضطرب کر ڈالا۔
عجیب اتفاق ہے کہ بالکل ایسا ہی کیس راولپنڈی کے بے نظیر بھٹو اسپتال میں بھی رپورٹ ہوا تھا۔ مہینہ بھر پہلے اسپتال کی او پی ڈی میں آٹھ نو برس کی بچی لائی گئی، جس کی آنکھوں میں وحشت اور چہرے پر خوف کے آثار تھے، وہ وحشت زدہ نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی، اس کی ماں نے اسے بازو سے یوں پکڑ رکھا تھا، جیسے ذرا سی بھی گرفت کمزور ہوئی تو وہ ہاتھ چھڑا کر بھاگ جائے گی، اس کی ماں ڈاکٹر کو بتانے لگی کہ اس کی بیٹی بیمار ہے، لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ اسے کیا بیماری ہے۔ وہ بچی کئی بار خود کشی کی کوشش بھی کر چکی تھی۔ ڈاکٹروں نے بخار چیک کیا، نہیں تھا، بلڈ پریشر بھی نارمل تھا، انہوں نے اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیج دیا، سائیکاٹرسٹ نے ماں کو کمرے سے باہر نکالا اور بچی کو سامنے بٹھا دیا، گم صم سی بچی سامنے بیٹھ کر میز کو خالی خالی نظروں سے گھورنے لگی۔ ڈاکٹر سمجھ گئی کہ بچی کسی صدمے کی کیفیت میں ہے، اب یہ اس کا امتحان تھا کہ وہ اس صدمے تک کیسے پہنچتی ہے، اس نے بچی کو مختلف کارڈز دیئے، رنگ بھرنے کے لئے تصویری خاکے دیئے، ہمدردی اور توجہ سے بات چیت شروع کر دی، لڑکی نے جب وہ پزل مکمل کیا تو ڈاکٹر جان گئی کہ بچی جنسی زیادتی کا شکار ہے، اس نے ہمدردی سے بچی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا:
’’وہ کون ہے جو آپ کے ساتھ یہ سب کرتا ہے؟‘‘
جواب میں بچی نے جس شخص کا نام لیا، وہ کوئی غیر نہیں، سگوں سے بڑھ کر سگا تھا۔
اس کہانی کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ اس بچی پر گزرنے والی قیامت کا اس کی ماں کو علم تھا، اس کے گھر میں لگی آگ اس کی آٹھ سالہ بیٹی کو تو لپیٹ میں لے ہی چکی تھی، اب اس کے ننگے لپیٹے اس کی چھوٹی بیٹی جس کی عمر بمشکل پانچ برس تھی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے اس کی ماں سے بات کی تو اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ میں اسے چھوڑ دوں تو کہاں جاؤں؟ بچے کون پالے گا؟ انہیں کون رکھے گا؟ ہم سب ہی رل جائیں گے۔
اسلام آباد کا رہائشی کفایت اللہ قاضی ایڈووکیٹ سیلانی کا دوست ہے، چھوٹی سی عمر میں دنیا کے سرد وگرم دیکھ رکھنے والے کفایت اللہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بھی لرز کر رہ گیا۔ وہ یہ کہانی لے کر سیلانی کے پاس آگیا کہ اس بچی کی کس طرح مدد کی جائے، اس سے پہلے کفایت نے ایک انسانی حقوق کی چیمپئن وکیل صاحبہ سے رابطہ کیا تھا۔ یہ محترمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی وکیل ہیں اور انسانی حقوق کے ایک ویلفیئر ٹرسٹ کی بانی اور چیئرپرسن بھی ہیں۔ خدائی خدمت کی دعویدار یہ بی بی سائبر کرائمز، جنسی سراسیمگی کے مقدمات کی بزعم خود نمبر ون وکیل ہونے کا دعویٰ بھی رکھتی ہیں۔ یہ دعو یٰ انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اپنے تعارف میں لکھ رکھا ہے۔ اسلامی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ کفایت بھی اسی یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہے۔ اسی تعلق کی بنا پر اس نے بی بی سے رابطہ کیا کہ عورت ہونے کے ناطے یہ بی بی اس بچی کی دل و جان سے مدد کرے گی اور ہم مل کر اس بچی کو اس ظالم شخص کے چنگل سے نکال لیں گے، لیکن اس نے چھوٹتے ہی کہا کہ فیس کون دے گا؟ کفایت کے پوچھنے پر پچھتر ہزار روپے فیس کے بتائے گئے اور بنا فیس کے مقدمہ لڑنے سے معذرت کر لی گئی۔ کفایت بتانے لگا: سر! میں نے اسے کہا کہ بچی بہت ہی غریب ہے، اس کی ماں گھروں میں محنت مزدوری کرتی ہے، وہ تو پچھتر روپے بھی نہیں دے سکے گی، جو دینا ہوگا، وہ میں اپنی جیب سے دوں گا، آپ اپنی فیس میں کچھ کمی کر دیں، جس پر اس خاتون وکیل صاحبہ نے حاتم کی قبر پر لات مارتے ہوئے پچیس ہزار چھوڑ دیئے، اسے اس سے غرض نہیں تھی کہ ایک چھوٹی بچی کس ظلم کا شکار ہے، اس کے لئے دن کا سورج کیا اذیت لے کر طلوع ہوتا ہے اور شب کی تاریکی کیا ظلم ڈھاتے ہوئے آتی ہے۔
کفایت بتانے لگا کہ میں یہ فیس بھی دینے کو تیار تھا، میں نے اپنے بڑے بھائی سے بات کر لی تھی، وہ اس فیملی کو مکمل تحفظ اور رہائش دینے کے لئے تیار ہے، لیکن جب ڈاکٹر نے خاتون سے بات کی تو وہ بچی کو بازو سے پکڑ کر لے گئی، تب سے ان کا سیل نمبر بھی بند ہے، پتہ بھی کسی کچی آبادی کا اور نامکمل ہے۔ سیلانی کفایت کے ساتھ بے نظیر بھٹو اسپتال راولپنڈی بھی گیا۔ وہ اس ڈاکٹر سے بھی ملا، جس کی بچی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے بتایا کہ بچی کی ذہنی حالت بہت خراب لگ رہی تھی۔ وہ اس چھوٹی سی عمر میں خود کشی کی کئی کوششیں کر چکی تھی۔ اسے ہم نے سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیج دیا تھا، جہاں پتہ چلا کہ وہ جنسی زیادتی کا شکار ہے، اس کی ماں سے بات کی تو وہ اسے خاموشی سے لے کر چلی گئی۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات اب رپورٹ ہونے لگے ہیں، بہت ہی عجیب صورتحال ہے۔
سیلانی اسپتال سے واپس لوٹ آیا، اس نے صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ کے صدر صارم برنی کا نمبر ڈائل کیا۔ صارم اک عرصے سے خدمت خلق کے کاموں میں لگا ہوا ہے، محدود وسائل کے باوجود اس نے بے گھر لوگوں کے لئے شلٹر ہوم بنا رکھا ہے، اس کے وکلاء کی ایک ٹیم بھی متحرک رہتی ہے۔ سیلانی نے صارم کے سامنے دونوں کیس رکھ دیئے اور کہنے لگا:
’’یار! کیا کیا جائے ان بچیوں کی کیسے مدد کی جائے؟ میں نے تو جب سے سنا ہے میں عجیب سی کیفیت میں ہوں اللہ رحم کرے، ہم کہاں جا رہے ہیں۔‘‘
سیلانی کی بات سن کر صارم کہنے لگا ’’بھائی! میں تو کہتا ہوں کہ قیامت آکیوں نہیں جاتی، وہ وہ کچھ سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے کہ آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے پر یقین نہیں آتا… اس بچی کی ماں اگر ہمت کرتی ہے تو میرا نمبر دے دو، ہمارے پاس آجائے، ہم اس خبیث انسان کو جیل بھی بھجوائیں گے اور اس بچی کو مکمل تحفظ بھی دیں گے، وہ ہمارے شلٹر ہوم میں رہے گی، اسے وہاں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ ہوگا، لیکن اس کے لئے اس بچی کو کچھ کرنا بھی ہوگا، قانون تو شواہد اور ثبوت مانگتا ہے ناں‘‘۔
صارم برنی کے بعد سیلانی نے کراچی میں اپنے دوست مفتی عامر مشوانی سے رابطہ کیا اور صورتحال اس کے سامنے رکھ دی۔ مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں اس شخص پر اس کی بیوی حرام ہوگئی، اس عورت کو طلاق ہو گئی، وہ اس کے ساتھ کسی صورت نہیں رہ سکتی۔ مفتی صاحب نے تاسف بھرے انداز میں بتایا کہ اس قسم کے واقعات اب سامنے آنے لگے ہیں، میرے پاس تو اس طرح کے ظلم کا شکار بچیوں کے التجائیہ خطوط بھی موجود ہیں کہ خدارا ہمیں یہاں سے نکالا جائے…
مفتی صاحب نے دوٹوک بات کی تھی، لیکن بات گھوم پھر کر وہیں آگئی کہ کیا کیا جائے؟ قانون کو حرکت میں لانے کے لئے تحریری شکایت اور بیان کی ضرورت پڑتی ہے اور صرف بیان ہی کافی نہیں ہوتا، شواہد بھی چاہئے ہوتے ہیں، ایک بچی کے لئے یہ سب کس طرح ممکن ہے؟؟؟ اس صورت میں جب اس کے منہ بدنامی کی کالک ملے جانے کا بھی خطرہ ہو، اس کے بعد اس لڑکی اور اس کے گھر والوں کا کیا مستقبل ہوگا؟ یہ اچھوت بن کر نہیں رہ جائیں گے؟ مسائل جو بھی ہوں، حق سچ یہ ہے کہ ایسی صورت میں میاں بیوی کا آپس کا تعلق قطعی حرام ہو جاتا ہے۔ صارم کا کہنا تھا کہ نکاح کو عام آسان اور جلد کر دیں، بچیوں کو جلد ان کے گھروں کا کریں اور دوسری شادی کو بدنامی کا طوق نہ بنائیں، ایک شخص کی خواہش باعزت طریقے سے پوری ہورہی ہو تو اس کے بھٹکنے کے امکانات کم رہ جاتے ہیں… صارم برنی کی اس بات سے اختلاف اور اتفاق اپنی اپنی جگہ، لیکن سچ یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد کا بے نتھا سانڈ بننا قبول کرلیا گیا ہے… سیلانی ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا، اس کی سماعتوں میں کسی کم سن لڑکی کی دبی دبی سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں، اس نے آنکھیں موند لیں تو بند آنکھوں کے سامنے کسی کی وحشت زدہ آنکھیں سامنے آگئیں۔ سیلانی تڑپ کر رہ گیا۔ کاش سیلانی ان بچیوں کی مدد کر سکتا۔ کاش، کاش اور اے کاش… سیلانی نے بیچارگی سے ہونٹ کاٹتے ہوئے آنکھیں پھر سے بند کرلیں اور بند آنکھوں سے کسی کونے میں دبکی کم سن لڑکی کو سسکتا ہوا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔