پاکستان کے لئے پانی زندگی اور موت کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے، لیکن اس کے حصول اور تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ پچھلے دنوں چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس جانب توجہ دی، قوم کو پانی کی قلت کے باعث پیش آنے والے آئندہ خطرات سے آگاہ کرنے اور ڈیم فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا تو لوگوں کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ نئی حکومت نے بھی اس میں شرکت کا اعلان کرکے سپریم کورٹ کے قائم کردہ فنڈ کے ساتھ وزیر اعظم کا نام بھی شامل کرکے اپنے نمبر بڑھانے کی کوشش کی۔ چیف جسٹس کی جانب سے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا عزم ظاہر کرنے اور ان کے لئے عوام سے فنڈ جمع کرنے کا اعلان کیا گیا تو بعض بچونگڑے قسم کے سیاستدانوں نے اعتراض کیا کہ عدالتوں کا کام ڈیم بنانا نہیں، انہیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ یہ اعتراض اس حد تک تو درست قرار دیا جا سکتا ہے کہ ڈیم بنانے کی ذمے داری عدالت عظمیٰ کی نہیں ہے، لیکن اس بات کا کیا جواب ہے کہ جن لوگوں یعنی حکمرانوں، سیاستدانوں، ماہرین اور نوکر شاہی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بنیادی انسانی مسئلے پر توجہ دیں، لیکن نااہلی، فرض نا شناسی اور بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ عوام کے لئے پینے کے صاف اور فصلوں کے لئے ضرورت کے مطابق عام پانی فراہم کرسکیں، نہ قدرتی پانی کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کرسکیں تو کیا کوئی بھی اس جانب توجہ نہ دے اور وطن عزیز کو آئندہ برسوں کے دوران قحط و خشک سالی کی نذر ہونے دیں۔ پانی کے مسئلے میں نئی حکومت کی شرکت بیرون ملک پاکستانیوں سے فنڈز فراہم کرنے کے مطالبے تک محدود ہے، جو شامل باجا سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی، جبکہ معروضی حقیقت یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں کام کرنے والوں نے وزیراعظم کی اپیل پر مثبت ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے وہی کچھ کہا جو اندرون ملک شہری کہہ رہے ہیں کہ محنت مزدوری کرنے والوں سے کوئی بااختیار حکومت چندہ یا بھیک مانگے تو یہ اسے زیب نہیں دیتا۔ تحریک انصاف نے برسر اقتدار آنے سے پہلے بڑے دعوے کئے تھے کہ حکومت میں آکر وہ قومی دولت کے لٹیروں سے ایک ایک پیسہ وصول کرے گی۔ اس رقم کی وصولی کے لئے اگر فوری اور ضروری اقدامات کئے جاتے تو اب تک مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے علاوہ کئی ڈیم بنانے کے وسائل مہیا ہو سکتے تھے، لیکن موجودہ حکومت کا حال تو یہ ہے کہ وہ عوام کو ہر چیز کی مہنگائی کا تحفہ دینے کے باوجود کشکول ہاتھ میں اٹھائے کبھی آئی ایم ایف کی جانب بھاگتی ہے تو کبھی سعودی عرب، چین، قطر اور دیگر ممالک سے بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔
لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لئے آئینی و قانونی رکاوٹوں کو بہانہ بنانے کے بجائے انقلابی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ایک حد سے زیادہ آمدنی رکھنے والے ہر پاکستانی شہری کو اپنی تحویل کی باقی رقم قومی خزانے میں جمع کرانے پر مجبور کیا جائے، بصورت دیگر اسے بحق سرکار ضبط کرنے کے لئے پارلیمان سے کوئی بل منظور کرانا ضروری نہیں ہے۔ ہنگامی حالات میں آرڈی نینس کے نفاذ سے کام لیا جاسکتا ہے، جبکہ ایوان صدر، قومی اسمبلی اور دو صوبوں میں تحریک انصاف کا پرچم بلند ہے۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ بنی گالہ سے لے کر جہانگیر ترین کے مال و دولت تک، حکمران پارٹی کے بہت سے لوگ گرفت میں آجائیں گے۔ لہٰذا عوام سے چندے وصول کرنے اور ان پر مہنگائی کا بوجھ لادنے چلے جانے ہی میں عافیت تلاش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سمیت فاضل ججوں کے پاس عوام کو متحرک کرنے کے سوا کوئی اختیار ہے نہ چارہ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کہتے ہیں کہ نئی نسل کو پانی سے محروم نہیں ہونے دیں گے۔ پانی کے تحفظ اور فراہمی کے لئے ہر حد تک جائیں گے۔ پانی سے زندگی جڑی ہوئی ہے۔ چالیس سال تک اس مسئلے کی طرف توجہ نہ دے کر قوم کے ساتھ بہت ظلم کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس امر پر شدید دکھ اور تشویش کا اظہار کیا کہ انہیں کراچی میں پینے کا ایسا پانی دیکھنے کو ملا، جس میں فضلہ شامل تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سات سو ایسی جگہیں تھیں، جہاں پانی میں فضلہ پایا گیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے دور دراز اور پس ماندہ علاقوں کے لوگ کیا کچھ کھاتے اور پیتے ہوں گے۔ فاضل چیف جسٹس کو یہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ شہریوں کے لئے فلٹر پلانٹس لگا کر صاف پانی فراہم کرنے کا جو ناٹک رچایا گیا ہے، وہاں سے حاصل ہونے والے پانی میں بھی لوگوں نے کیڑے چلتے ہوئے دیکھے ہیں۔ منرل واٹر کے نام سے صارفین کے ساتھ جو فراڈ کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس پچھلے دنوں اس کا بھی نوٹس لے چکے ہیں۔ پانی کے تحفظ اور حصول کے لئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بڑا صوفیانہ اور حکیمانہ نسخہ پیش کیا ہے کہ ایک سال کے لئے پاکستان کو اپنا معشوق بنالیں۔ کیا ہم پاکستان سے عشق نہیں کر سکتے؟ پاکستان کے عوام و خواص اگر خلوص دل کے ساتھ اپنے وطن سے محبت کرنے لگیں اور اس کی خاطر ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہو جائیں تو شاید ایک سال سے بھی کم عرصے میں ان کے بڑے مسائل حل ہو جائیں، جن میں پانی کا مسئلہ بھی شامل ہوگا۔ کہا جاسکتا ہے کہ پانی پر توجہ دینے کی اصل ضرورت تو خواص کو ہے، جو مقتدر متمول طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں صاف پانی کی تمام مراعات سے محروم کرکے تالابوں اور جوہڑوں کا پانی ایک دو روز کے لئے ہی پینے پر مجبور کردیا جائے تو وہ چند روز میں ملک کے بیس کروڑ عوام کو صاف پانی فراہم کرنے لگیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی مشہور تصنیف خلافت و ملوکیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امانت میں خیانت بھی گناہ کبیرہ کی مانند ہے۔ فرض اور ذمے داری امانت ہوتی ہے، فرائض کی بجا آوری دیانتداری کا تقاضا کرتی ہے۔ اس میں خیانت گناہ کبیرہ ہے۔ قوم کا پیسہ میرے اور آپ کے پاس امانت ہے۔ قائداعظم کے عشق کی وجہ سے پاکستان بنا تھا۔ ہمیں بھی اس سے عشق ہو جائے تو اس کے لئے جان کی بازی لگا دیں گے۔ آئیے ہم سب مل کر ایک سال کے لئے پاکستان کو معشوق بنالیں۔ پاکستان باقی ہے تو ہمارا وجود بھی قائم ہے۔ پاکستانی قوم چیف جسٹس کو یقین دلاتی ہے کہ اس کی ملک سے محبت لازوال اور غیر متزلزل ہے۔ اس کی خاطر وہ ستر سال سے ہر قسم کی قربانیاں دیتی چلی آئی ہے۔ اب اعلیٰ طبقوں سے قربانی کی مثالیں سامنے آنی چاہئیں۔ وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بہت عیش کر چکے۔ اب بھی اگر وہ رضاکارانہ طور پر قوم کی لوٹی ہوئی دولت اور ضرورت سے کہیں زائد فاضل اثاثوں سے ملک کے حق میں دستبردار ہونے کو تیار نہ ہوں تو دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کا درّہ ہی ان کا علاج ہے۔