ایثار و قربانی اچھے مسلمان کی صفت (پہلا حصہ)

عبدالمالک مجاہد
مسلمانوں کی تاریخ ایثار و قربانی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جب میں اپنی روشن روشن اور سنہری تاریخ کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی قسمت پر ناز بھی آتا ہے کہ میں ایک ایسے مذہب کو ماننے والا ہوں جس نے اخلاقیات کے حوالے سے بڑی عمدہ تعلیمات دی ہیں اور اس کے ماننے والوں نے نہایت روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے قائد اپنے رہبر و رہنما اور سرور کائناتؐسے بہت کچھ سیکھا اور اسے اپنی عملی زندگی میں بھی اپنایا۔
قارئین کرام! آج کے اس مضمون میں ایثار و قربانی کے حوالے سے چند واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔ مسجد نبوی میں شام کے وقت ایک مسافر آتا ہے ۔ مہمان کو بھوک لگی ہوئی ہے، اسے اپنی بھوک مٹانی ہے۔ جانتے ہیں یہ کس کا مہمان ہے؟ یہ رسول اکرمؐکا مہمان ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ حضورؐسب سے بڑے مہمان نواز تھے۔
آپؐنے اپنی ایک اہلیہ کے ہاں پیغام بھیجا کہ ایک مہمان آیا ہے اس کو کھانا کھلانا ہے۔ گھر میں کھانے کے لیے کچھ ہے؟ جواب میں ہماری اماں جان نے کہلوا بھیجا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں ۔ قارئین کرام! آگے بڑھنے سے پہلے ذرا سوچئے ، غور کیجیے کہ یہ بیت نبوی ہے، مگر گھر میں سوائے پانی کے کچھ نہیں۔ اماں عائشہ صدیقہؓسے ایک حدیث میںیہ الفاظ ہیں کہ ہمارے گھر میں بعض اوقات کئی ماہ گزر جاتے، مگر چولہا جلنے کی نوبت نہ آتی تھی۔ سوال کرنے والے نے پوچھ لیا: اماں جان! پھر آپ کا گزارہ کس چیز پر ہوتا تھا؟ انہوں نے جواب دیا:بیٹا! ہمارا گزارہ پانی اور کھجور پر ہوتا تھا ۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ اس روز بیت نبوت میں کھجوریں بھی نہیں تھیں۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کو شفقت بھری نگاہوں سے دیکھااور سوال کیا:آج تم میں سے کون میرے مہمان کی مہمان نوازی کرے گا؟ صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابی ابو طلحہ انصاریؓ کہتے ہیں: حضور! آپ کے اس مہمان کی میزبانی میںکروں گا۔ میں اسے اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہوں۔ ابو طلحہ انصاریؓ مدینہ کے بڑے مشہور اور امیر لوگوں میں سے تھے۔ ان کا گھر مسجد نبوی سے ملا ہوا تھا، بلکہ اب تو وہ مسجد نبوی کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کی اہلیہ ام سلیمؓ بھی بڑی عظیم صحابیہ تھیں۔ گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ رات کا وقت تھا، اندھیرا پھیل چکا تھا۔ ابوطلحہؓ نے مہمان کو ساتھ لیااور اپنے گھر آ گئے۔ مہمان کو مہمان خانہ میں بٹھایا، اپنی اہلیہ سے کہا: یہ رسول اکرمؐکا مہمان ہے ،اس کی عزت کرنی ہے۔ مہمان کی عزت کیا ہے؟ یہی کہ اس کی تکریم کی جائے، اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے۔ اس کا مسکرا کر استقبال کیا جائے۔ حضورؐ کی مشہور حدیث ہے:
’’جو شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔‘‘
ابو طلحہؓ اپنی اہلیہ سے پوچھ رہے ہیں:اس وقت گھر میں کھانے کے لیے کیا کچھ ہے؟ انہوں نے جواب دیا : گھر میں سوائے بچوں کی خوراک کے اور کچھ نہیں۔ قارئین کرام! اس میں کوئی شک نہیں کہ ابو طلحہؓ بڑے امیر آدمی تھے۔ ان کا کھجوروں کا باغ تھا، مگر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ بعض اوقات امیر لوگوں کے ہاں بھی کھانے پینے کی اشیاء ختم ہو جاتی ہیں۔ دونوں میاں بیوی آپس میں مشورہ کر رہے ہیں کہ کھانا تو ایک فرد کا ہے۔ بچوں کو کیا کھلایا جائے؟
ابو طلحہؓ سیدہ ام سلیمؓ سے کہتے ہیں: ایسا کرو کہ کھانا تیار کرو، بچوں کو بھوکا سلا دو۔ جب مہمان کھانے کے لیے بیٹھ جائے تو چراغ کو بجھا دینا۔
ام سلیمؓ اور ابو طلحہؓ ایثارو قربانی کی ایک نئی داستان رقم کرنے جارہے ہیں۔ ام سلیمؓ نے کھانا تیار کرنا شروع کیا۔ رات ہو چکی تھی، بچوں سے کہا جاتا ہے کہ تم سو جاؤ۔ انہیں بھوکا ہی سلا دیا جاتا ہے۔ ام سلیمؓ نے دستر خوان لگایا، کھانا صرف ایک ہی شخص کے لیے کافی تھا۔ شرفاء کے ہاں دستور چلا آ رہا ہے کہ میزبان بھی مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے۔ اب اگر میزبان بھی مہمان کے ساتھ کھانا کھائے گا تو مہمان تو بھوکا رہ جائے گا۔ پروگرام پہلے سے طے ہو چکا ہے کہ ام سلیمؓ چراغ درست کرنے کے بہانے چراغ بجھا دیں گی۔ میزبان مہمان کے ساتھ بیٹھے گا، مگر کھانا نہیں کھائے گا۔ مہمان کو کھانا کھانے کا پورا موقع دیا جائے گا۔اس طرح وضع داری پر بھی آنچ نہیں آئے گی اور مہمان پیٹ بھر کر کھانا کھا لے گا۔
مہمان کو آوازدی جاتی ہے: کھانا تیار ہے، تشریف لائیے۔ میزبان اور مہمان دستر خوان پر بیٹھ گئے ہیں۔ ادھر مہمان نے لقمہ منہ میں ڈالا، ادھر ام سلیمؓ چراغ کو درست کرنے کے بہانے بجھا دیتی ہیں۔ مقصد بڑا واضح ہے کہ مہمان کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو جائے۔ کہیں مہمان بھوکا نہ رہ جائے، مہمان کھانا کھاتا رہا۔ ابو طلحہؓ نے کھانا نہیں کھایا۔ آج کی رات ابو طلحہ کا پورا گھرانہ بھو کا رہا ہے۔ مہمان کھانے سے فارغ ہو کر باعزت طریقے سے اپنے سونے کی جگہ چلا جاتا ہے۔
صبح ہوتی ہے، ابو طلحہ حسب معمول رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ آپؐنے فرمایا : فلاں مرد اور فلاں عورت پر حق تعالیٰ ان کے رات والے ایثار و قربانی پر خوش ہوا اوررب تعالیٰ ان کے طرز عمل پر ہنس پڑا۔
رب العزت نے ایسی ہی شخصیات کے بارے میں سورۃ الحشر آیت نمبر 9میں فرمایا ہے:
ترجمہ: ’’ وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
قارئین کرام! مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ لکھتے ہیں: اگر کسی شخص میں مندرجہ ذیل دو مذموم صفات پائی جاتی ہوں تو وہ نہایت بد قسمت اور اخلاق سے گرا ہوا انسان ہے۔ ایک تو مال و دولت جمع کرنے میں حریص ہونا ۔ دوسرا مال و دولت خرچ کرنے میں انتہائی بخیل ہونا۔ اب ایسے شخص میں تنگ نظری تنگ ظرفی، سنگدلی بے مروتی وغیرہ جیسی صفات پیدا ہو سکتی ہیں اور ان کا ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے۔ قارئین کرام! میرا ذاتی تجربہ ہے کہ فقر و فاقہ اور بخیلی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ کسی بھی شخص کا مفلس یا قلاش ہونا کوئی جرم نہیں۔ جرم دراصل بخیل ہونا اور مال کی محبت میں اس حد تک آگے بڑھ جانا ہے کہ آدمی دولت کے پیچھے اندھا ہو جائے اور دولت کا پجاری بن جائے۔ یہ انتہائی قبیح خصلت ہے اور اسلام اس بد خصلت کے علاج کے لیے راہ حق میں خرچ کرنا ،صدقات اور ایثار کی راہ دکھاتا ہے۔ جس سے وسعت نظر، ہمدردی ، مروت اور اخوت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment