شیراز چوہدری
تحریک انصاف کی حکومت کو اپوزیشن اناڑی کہتی ہے اور اپوزیشن کے اس دعوے کو درست ثابت کرنے کے لئے حکومتی رہنما ایڑی چوٹی کا زور لگاتے نظر آتے ہیں، انہوں نے 50 روز میں اپنا اناڑی پن ثابت کر دیا ہے۔ ضمنی الیکشن میں بھی ان کا اناڑی پن واضح نظر آتا ہے۔ ایک تو خیر سے پہلی بار حکومت ملی ہے تو پارٹی کا کوئی رہنما ایسا بچا نہیں جسے کوئی نہ کوئی عہدہ نہ دیدیا گیا ہو اور پھر وہ اس عہدے میں ڈوب نہ گیا ہو، ضمنی الیکشن میں حکومتی جماعت اپنی چھوڑی ہوئی تین قومی نشستوں سے ہاری، جن میں سے دو تو وزیر اعظم عمران خان نے خالی کی تھیں، اسی طرح صوبائی اسمبلیوں میں بھی گورنر خبیر پختون شاہ فرمان کی خالی کردہ نشست سمیت پنجاب اور کے پی میں وزرائے اعلیٰ کے آبائی اضلاع میں صوبائی نشستوں پر بھی اسے شکست ہوئی ہے، تحریک انصاف کا کمال یہ ہے کہ یہ شکست کو بھی فتح بنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں، ضمنی الیکشن میں ان نشستوں پر شکست کے معاملے میں بھی انہوں نے یہی کیا اور یہ کہہ کر کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ حکومت میں ہونے کے باوجود انہوں نے مداخلت نہیں کی، اس لئے وہ ہار گئے، دوسری طرف میڈیا میں تجزیہ کار شکست کو مہنگائی اور غلط حکومتی پالیسی کا نتیجہ قرار دیتے نظر آئے، حالاں کہ نشستیں ہارنے میں ان کے اناڑی پن کا زیادہ دخل ہے، کیوں کہ اگر حکومتی پالیسی کے اثرات پڑتے تو وہ ان کے اتحادی چوہدری برادران پر بھی پڑتے، لیکن انہوں نے اپنی چھوڑی ہوئی گجرات اور چکوال کی دونوں نشستیں بڑے مارجن سے جیت لیں، کیوں کہ وہ اناڑی نہیں بلکہ سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں۔
ہارنے والے پی ٹی آئی کھلاڑی بھی نجی محفلوں میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ پارٹی کے اناڑی پن کی وجہ سے ہارے ہیں، ایک رہنما کا تو یہ جملہ سینہ بہ سینہ پہنچا ہے کہ قیادت نے ضمنی الیکشن میں ان کے ساتھ اس ضرب المثل والا سلوک کیا کہ ’’اپنی کھا آنا اور ہمارے لئے لیتے آنا‘‘۔ باہر کے لوگ تو پہلے دن سے کہہ رہے تھے، لیکن اب تو پی ٹی آئی کے اندر سے بھی یہ آوازیں سنائی دینے لگی ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختون دونوں صوبے اناڑیوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ پرویز خٹک جیسے اچھے کھلاڑی کو کھڈے لائن لگا کر محمود خان کو وزیر اعلیٰ خیبر پختون بنا دیا گیا، جن کی کارکردگی یہ رہی کہ ان کے آبائی ضلع سوات میں پارٹی صوبائی نشست نہ بچا سکی، جبکہ دوسری طرف پرویز خٹک نے وفاق میں ہونے کے باوجود نوشہرہ میں خالی ہونے والی نشستیں پھر جتوا دیں اور رہے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تو وہ اس پنجابی کہاوت کی زندہ مثال نظر آتے ہیں کہ ’’جئی چوراں کھڑی تے جئی کلے بندی‘‘۔ یعنی ان کے ہونے نہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عثمان بزدار کی صورت میں تو لگتا ہے وزیر اعظم عمران خان نے یا تو پنجاب سے کوئی بدلہ لیا ہے یا پھر اپنی پارٹی سے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے عثمان بزدار جیسے کمزور شخص کو وزیر اعلیٰ یہ سوچ کر بنایا ہے کہ وہ خود اسلام آباد سے صوبے کو کنٹرول کریں، لیکن اگر یہ سوچ ہے تو پھر اسے اناڑی پن کی انتہا ہی کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ وزیر اعظم کے پاس تو اپنے فرائض کے لئے وقت نہیں ہوتا اور پنجاب چلانا تو وزارت عظمیٰ سے بھی مشکل کام ہے، اس لئے یہ نوٹ کرلیں کہ جلد یا بدیر عثمان بزدار کو مستقل وزیر اعلیٰ رکھنے پر بھی آپ کو یوٹرن نظر آئے گا یا پھر ان کی پنجاب میں اقتدار کی ٹرن ہی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کیوں کہ اتنا بڑا اور اہم صوبہ زیادہ دیر اس صورت حال میں نہیں رکھا جاسکتا، نہ ہی اسے کھلاڑیوں کے اناڑی پن کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے۔ اس لئے پی ٹی آئی کوئی اچھا کھلاڑی نہ لائی تو کوئی اور لے آئے گا۔ پنجاب اسمبلی کی تاریخ ویسے بھی ٹرن بدلنے کے حوالے سے بھری ہوئی ہے۔
ضمنی الیکشن میں شکست کے حوالے سے پی ٹی آئی رہنما جو تاویلیں پیش کرتے ہیں، ان میں وزراء اور ارکان اسمبلی پر مہم میں شرکت پر پابندی کا جواز بھی شامل ہے، پھر وہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی وجہ سے انتخابی مہم سے دوری کو بھی وجہ بتاتے ہیں، حالاں کہ اگر عمران خان انتخابی مہم سے دور تھے تو دوسری جانب نواز شریف بھی شریک نہیں ہوئے، جبکہ شہباز شریف گرفتار ہو چکے تھے، وزرا اور ارکان اسمبلی پر پابندی کا جواز بھی اناڑی پن ظاہر کرتا ہے، کیوں کہ حمزہ شہباز بھی رکن اسمبلی ہیں، انہوں نے لاہور میں بھرپور مہم چلائی، اسی طرح پی ٹی آئی کے ارکان بھی مہم چلا سکتے تھے، اگر روکا جاتا تو دونوں جماعتوں پر اس کا اطلاق ہوتا، پھر ماضی میں اس پابندی کا حل خود عمران خان
نکالتے رہے ہیں اور وہ یہ کہ جس حلقے میں الیکشن ہوتا تھا، وہاں جانے کے بجائے اس حلقے کی سرحد پر جلسے کرلئے جاتے تھے، اب تو حکومت تھی، جلسے نہ بھی کئے جاتے تو پنجاب کی سیاست میں برادری اور بااثر افراد کا بڑا کردار ہوتا ہے، ان حلقوں کی اہم شخصیات کو بلاکر ملاقاتیں کی جا سکتی تھیں، چوہدری برادران نے بھی تو یہی کیا، انہوں نے چکوال میں تو ن لیگ کا امیدوار ہی آخری وقت میں دستبردار کرا دیا۔ مگر اناڑی تو اس وقت پہلی بار ملنے والی حکومت کے مزے لوٹنے میں مصروف رہے، کے پی کے وزیر اعلیٰ اور گورنر تو صوبے میں اپنے ناراض رہنمائوں کو دستبردار نہ کراسکے۔ حالانکہ وہ ناراض رہنمائوں کو بلا کر انہیں اہمیت دیتے تو وہ دستبردار ہو جاتے، پھر حکومت کے پاس دینے کے لئے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ لیکن اناڑی وزیراعلیٰ اور گورنر تو وقت تک نہ دے سکے۔
خود وزیر اطلاعات فواد چوہدری اپنی چھوڑی ہوئی نشست پانچ سو ووٹوں سے ہروا بیٹھے، حالاں کہ وہ حلقے کے بااثر لوگوں کو اسلام آباد یا جہلم میں اپنے گائوں لدھڑ بلاکر دو چار بار ملاقاتیں کر لیتے تو اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ بچا سکتے تھے، اسی طرح علیم خان جیسے کھلاڑی کے لئے لاہور میں چند ہزار ووٹ اپنے امیدوار کو دلانا کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوتا، مگر کیا کیا جائے کہ نئی نئی وزارتیں ملی ہیں، سو سب اس میں مگن رہے اور رہتے بھی کیوں ناں جب ان کا قائد، وزارت عظمیٰ میں گم ہوکر اپنے امیدواروں کا حال چال پوچھنا بھی بھول گیا تو نیچے والوں نے بھی تو یہی کرنا تھا۔ اس لئے ہمارا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ اپوزیشن کی کوئی اور بات مانے یا نہ مانے کم از کم اناڑی پن کا لقب ضرور قبول کرلے۔ ٭
٭٭٭٭٭