آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے حکومت کے خلاف وسیع تر اتحاد (گرینڈ الائنس) کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی نااہلی بہت کم وقت میں سامنے آگئی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر قومی اسمبلی میں حکومت کی ناکامی سے متعلق قرارداد پیش کرنی ہوگی۔ ادھر مسلم لیگی رہنما مشاہد اللہ خان کو اتحاد جلد بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔ آصف علی زرداری کے بقول عمران خان پرائم منسٹر سلیکٹ یعنی بعض قوتوں کے منتخب کردہ وزیراعظم ہیں۔ ان کی حکومت خود چل سکتی ہے نہ ملک چلا سکتی ہے۔ انہوں نے اسلام آباد کو سازشوں کا شہر اور حکومت کو سازشوں کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے این آر او سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایم کیو ایم والوں نے اس کے فوائد سمیٹے اور شاید نواز شریف کو بھی فائدہ پہنچا ہو۔ آصف علی زرداری کی پریس کانفرنس کے بعد مسلم لیگ کی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، خاص طور پر اس وقت جب مشاہد اللہ خان نے فوراً ہی ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا اتحاد جلد بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ان کے خیال میں مشترکہ مقاصد کا حصول باہمی اتحاد ہی سے ہوتا ہے اور مقاصد حاصل ہونے پر اتحاد ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ اس کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال خود برے نہیں ہیں۔ ہم نے انہیں لگایا ضرور تھا، لیکن کرسی پر بیٹھنے کے بعد لوگوں کی سوچ بدل جاتی ہے۔ نیب میرے گھر کے نوکروں کو بلا کر تحقیقات کر رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ ایک سلیکٹڈ وزیر اعظم ہے، جو دولہا بن کر ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر گھر جاتا ہے۔ اس کے گھر کو ریگولرائز کرنے یعنی قانون کے دائرے میں لانے کو کہا جاتا ہے، جبکہ اردگرد کے باقی گھروں کو گرانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ آصف علی زرداری نے طویل خاموشی کے بعد زبان کھولی ہے، شاید اس لئے کہ ان کے خلاف نیب کا گھیرا تنگ ہونے جا رہا ہے۔ وہ اور ان کی بہن شریف برادران اور ان کے اہل خانہ کی طرح قانون کی گرفت میں آکر سزاؤں کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ آصف علی زرداری کو مفاہمت اور جوڑ توڑ کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ وقت کے ساتھ بدلتے دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوست بنانے کیلئے اپنے اصولوں اور بیانات کو بالائے طاق رکھ کر ملنے اور بچھڑنے کا گر جانتے ہیں۔ یہ گر جاننے کی کسی ایسے سیاستدان کو ضرورت ہی نہیں، جس کا کوئی اصول نہ ہو اور جو اپنے ذاتی خاندانی اور گروہی مفادات کیلئے کبھی بھی اور کچھ بھی کرنے کے لئے آمادہ ہو۔ اس وقت تو آصف علی زرداری کو ایک ایسا مہرہ مل گیا ہے جسے وہ ضرورت کے تحت آگے بڑھانے اور پیچھے ہٹانے پر پوری طرح قادر ہیں۔ انہوں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے اور افواج پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے بعد کچھ عرصہ بیرون ملک جاکر خاموشی سے گزارا اور اس دوران اپنے ہونہار بروا بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کے معاملات چلانے اور بیان بازی کے لئے چھوڑ دیا۔
ایک مدت کے بعد انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرکے اب جو کچھ فرمایا ہے، وہ ان کی تضاد بیانی اور موقع پرستی کا شاہکار ہے، جسے وہ اپنی مفاہمانہ پالیسی قرار دیتے ہیں۔ چند برسوں کی ملکی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ میثاق جمہوریت اور این آر او کے تحت یا ان کے بغیر بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی باری باری نہیں، بلکہ مل جل کر حکومت کرتی رہیں۔ حکومت کسی ایک کی رہی تب بھی دوسری جماعت کو تمام فائدے اور لوٹ کھسوٹ کے مواقع حاصل رہے۔ اپنے حامیوں اور عوام کو دھوکا دینے کیلئے وہ بظاہر ایک دوسرے کے خلاف الفاظ اور بیانات کی گولا باری کرتے رہے، لیکن اندر سے ایک تھے، ہیں اور رہیں گے۔ اس دو طرفہ تعلق و اتحاد میں الطاف حسین کی قیادت میں ملک دشمن ایم کیو ایم بھی آتی جاتی رہی۔ اس اتحاد ثلاثہ کے خفیہ روابط آج بھی قائم و برقرار ہیں۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت نے بہت کم وقت میں اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرکے انہیں کھل کر ایک دوسرے کے قریب آنے کا ایک بار پھر موقع فراہم کردیا ہے۔ مشاہد اللہ خان نے یہ کہہ کر ان کے گٹھ جوڑ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے کہ مشترکہ مقاصد کا حصول باہمی اتحاد سے ہوتا ہے۔ وہ اس بات کی بھی وضاحت کردیتے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ مفادات کیا ہیں۔ اپنے طویل دور اقتدار میں تو دونوں جماعتوں نے ملک اور قوم کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ لوٹ کھسوٹ کو البتہ دونوں بڑی جماعتوں کا مشترکہ مقصد قرار دیا جاسکتا ہے۔ آصف علی زرداری لاکھ انکار کریں، خود انہوں نے، ان کے خاندان نے اور ساتھیوں نے این آر او سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ پھر جب سپریم کورٹ نے این آر او کے تحت قائم ہونے والے قتل و غارت، لوٹ مار اور سماج دشمن سرگرمیوں کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ دیا تو ان سب کی پریشانی دیدنی تھی۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کا انتخاب برسر اقتدار اور حزب مخالف کے قائدین کی باہمی رضامندی سے کیا جاتا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنی تقرری کے بعد آزادانہ احتساب کا اعلان کیا اور اس پر عملدرآمد بھی ہونے لگا تو مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی، دونوں نے واویلا شروع کردیا کہ ان کے رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائی ہورہی ہے اور اس ادارے کو ختم کردینا چاہئے۔ آصف علی زرداری جن لوگوں کو اپنے گھر کے نوکر قرار دے کر شکایت کررہے ہیں کہ نیب کیوں ان سے تحقیقات کررہا ہے تو یہ ان کے تکبر اور غلط بیانی کا گھٹیا اظہار ہے۔ نیب نے جن افراد کو گرفتار کیا ہے، وہ سرکاری خزانے سے تنخواہ پانے والے نوکر شاہی کے کل پرزے تھے اور ان میں سے کئی لوگ ثبوت و شواہد کے ساتھ نیب حکام کے سامنے آصف علی زرداری اور ان کے پورے ٹولے کا کچا چٹھا کھول کر وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے تیار ہو چکے ہیں۔ نیب اور دیگر اداروں کی جانب سے بے ایمان اور بدعنوان حکمرانوں کے خلاف بلا امتیاز احتساب ہی نے آصف علی زرداری کو نواز شریف سے ازسرنو گفت و شنید پر راغب کیا ہے۔ عدالتوں کی سست رفتاری، افواج پاکستان کی جانب سے سیاسی امور میں عدم مداخلت کی پالیسی اور عمران حکومت کی نااہلی کے باعث اگر قومی دولت کے یہ لٹیرے مزید کچھ عرصے تک عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہے تب بھی ان کا انجام بخیر نظر نہیں آتا۔ ان شاء اللہ وہ مکافات عمل سے ضرور گزریں گے۔ اڈیالہ جیل میں نواز شریف کے ساتھ اکٹھا ہونے کی پیش گوئی آصف علی زرداری بہت پہلے کر چکے ہیں، جہاں وہ بیک آواز یہ نوحہ پڑھتے ہوئے نظر آئیں گے ؎
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment