لیفٹیننٹ کرنل (ر)عادل اختر
دنیا میں بہت سے افراد نے اپنے عقیدے کی خاطر اپنی جان قربان کر دی ہے، ان لوگوں میں سب سے مشہور نام سقراط ہے، جس نے چار سو صدی قبل مسیح میں اپنے عقیدے کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیا تھا۔ آج ایسی دو خواتین کا ذکر کرنا مقصود ہے، جنہوں نے اپنے عقیدے سے توبہ کرنے کے بجائے اپنا جان قربان کردی۔ ایک لڑکی فرانس کی رہنے والی تھی۔ دوسری ایران کی رہنے والی۔
جون آف آرک (Joan-de-Arc) پندرہویں صدی میں انگلینڈ اور فرانس کے درمیان جنگ چل رہی تھی۔ انگلینڈ نے شمالی فرانس پر قبضہ کر رکھا تھا۔ فرانس کے بادشاہ سے باغی ایک قبیلہ برگنڈی تھا۔ جو انگریزوں کا ساتھ دے رہا تھا۔ اسی زمانے (1412) میں فرانس کے ایک کسان کے گھر میں ایک لڑکی (جون) پیدا ہوئی۔ تیرہ برس کی عمر میں جون کو محسوس ہونے لگا کہ اسے غیبی اشارے (خواب) آرہے ہیں کہ اٹھو اور فرانس کو آزاد کرو۔ انگریزوں کی چالاکی سے فرانس کے بادشاہ کو معزول کر کے ’’ولی عہد‘‘ بنا دیا گیا اور انگلینڈ کے بادشاہ ہینری V کو انگلینڈ اور فرانس کا بادشاہ قرار دیا گیا۔ 17 برس کی عمر میں جون آف آرک اپنے گھر سے نکلی۔ بڑی مشکلوں کے بعد فرانس کے ولی عہد کے دربار تک پہنچی اور اسے بڑی مشکلوں سے رام کیا کہ اسے فرانس کو بچانے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ جون مردانہ لباس پہنتی تھی۔ گھوڑا، جھنڈا اور تلوار ہر وقت اپنے پاس رکھتی۔ بہت سے لوگ اس کے معتقد ہوگئے۔ بادشا نے بے دلی کے ساتھ اسے کچھ فوجی مہیا کردیئے، جون ان فوجیوں کے ساتھ انگریزوں کے مقبوضہ قلعے تک پہنچی۔ یلغار کے وقت وہ سب سے آگے ہوتی تھی۔ وہ بہت بہادری سے لڑی اور انگریزوں سے قلعہ چھین لیا۔ سارے فرانس میں اس کی شہرت پھیل گئی۔ لوگ اس فتح کو کرامت سمجھنے لگے۔ جنگ سے واپس آکر اس نے فرانس کے کمزور ولی عہد کی تاج پوشی کی اور اسے چارلس ہفتم کے نام سے بادشاہ قرار دیا۔ بادشاہ کے بہت سے درباری جون سے حسد کرنے لگے۔ خاص طور پر آرک بشپ یعنی بڑے پادری صاحب، جنہوں نے جون کو ایک کافرہ قرار دیا۔ اگلے سال 1430 میں جون کو پھر محاذ جنگ پر جانا پڑا۔ جہاں وہ گھوڑے سے گر گئی اور اسے قید کر لیا گیا۔ اس پر مقدمہ چلانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ اس پر ستر الزامات لگائے گئے۔ خاص الزامات یہ تھے: جادو گرنی، کافرہ اور مردوں کا لباس پہنے والی عورت۔ ایک سال تک یہ کارروائی چلتی رہی۔ کورٹ نے اسے مجرم قرار دیا، لکڑیوں کا ایک ڈھیر بنا کر اسے باندھ دیا گیا اور زندہ جلا دیا گیا۔ بائیس برس کے بعد اس کا مقدمہ دوبار کھولا گیا اور اسے معصوم قرار دیا گیا۔ 1920 میں اسے ولی (SAINT) قرار دیا گیا۔ اب اس کا شمار فرانس کی عظیم ہیروئن کے طور پر ہوتا ہے۔
ایران: جس زمانے میں نپولین فرانس میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا دہلی میں مرزا غالب اپنا بے مثال کلام مرتب کر رہے تھے۔ ایران میں بڑے معتبر ملاؤں کا ایک گھرانہ رہتا تھا۔ اس گھرانے میں 1817ء میں ایک لڑکی فاطمہ بارغانی پیدا ہوئی۔ باپ جو خود ایک معلم تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو پڑھایا۔ لڑکی میں حسن، ذہانت وافر مقدار میں موجود تھے۔ اسی زمانے میں ایران میں ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ نئے نبی کا نام عبد البہا تھا۔ جس کے نام پر آج بھی بہائی مذہب قائم ہے۔ لڑکی جوان ہوئی تو ایک جہاں اس کے حسن کے دیوانہ ہو گیا۔ ایک اور مذہبی اسکالر علی محمد باب کو قرۃ العین تاج نے اپنا پیر (مہدی) مان لیا۔ اگرچہ اس سے کبھی ملی نہیں۔ مگر اس کی شان میں بے مثالیں نظمیں لکھیں۔ ساری زندگی ماری ماری پھری اور اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتی رہی۔ اس کے خیالات پر علما نے شدید تنقید کی۔ آخر پکڑی گئی۔ قید ہوئی۔ مقدمہ چلا، پھانسی کی سزا تجویز ہوئی۔ بادشاہ نضر الدین شاہ نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا۔ اس کے حسن اور ذہانت سے بے خود ہوگیا اور شادی کی پیشکش کردی۔ اس نے کہا قرۃ العین ایران کی ملکہ بھی بن سکتی تھی اور پھانسی گھاٹ تک بھی جاسکتی تھی۔ طاہرہ نے پھانسی کے پھندے کا انتخاب کرلیا۔ ایک صبح اسے تہران کے ایک باغ میں اس کے اپنے سفید ریشم کے دوپٹے سے پھانسی دے دی گئی۔ لاش ایک خشک کنویں میں پھینک دی گئی۔ قرۃ العین حیدر اور عزیر احمد کے ناولوں میں طاہرہ کا تذکرہ موجود ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭