"See You”

بٹ صاحب سے سیلانی کی دعا سلام جمعہ جمعہ چار دن کی ہے، گورے چٹے پچاس کے پیٹے کے بٹ صاحب کسی سرکاری ادارے میں اٹھارہ گریڈ کے سینئر افسر ہیں اور پرامید ہیں کہ کچھ ہی عرصے میں وہ انیسویں گریڈ میں چلے جائیں گے۔ بٹ صاحب پیچھے سے کشمیری ہیں، دو نسلیں پہلے تک ان کے اجداد سری نگر میں رہائش پذیر تھے۔ سیلانی کی بٹ صاحب سے سر راہ ملاقات اکثر چنبیلی روڈ پر صبح سویرے ہوتی تھی۔ گورے چٹے بٹ صاحب ناک کی سیدھ میں تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ چہل قدمی کی راہداری پر نظریں ملنے پر سیلانی سلام کرتا تو کبھی جواب دے دیتے اور کبھی نظر انداز کرکے یوں آگے بڑھ جاتے جیسے کسی چھوٹے اسٹیشن پر دو ریل گاڑیاں ایک دوسرے کو کراس کرکے آگے نکل جاتی ہیں۔ پہلے پہل بٹ صاحب کے سلام کا جواب بھی سرکاری افسروں کے مخصوص انداز میں گردن کے اشارے تک رہتا تھا۔ ابتداء میں یہ انداز بہت عجیب لگا، پھر اسے سمجھ آگئی کہ جو جتنا بڑا افسر ہے، اس کے سلام کا جواب بھی اسی کے گریڈ کے مطابق ہوتا ہے۔ گریڈ سترہ کا افسر باآواز بلند جواب دیتا ہے، اٹھارہ کا گردن کے اشارے سے بتا دیتا ہے کہ صاحب نے سلام قبول کر لیا ہے، گریڈ انیس کا بس اک نظر ڈالتا ہے اور بیس کا سنی ان سنی کر دیتا ہے اور پھر گریڈ اکیس میں دو درجے ہوتے ہیں، ایک وہ جو نئے نئے ’’اکیسیئے‘‘ ہوتے ہیں، ان کے تو پاؤں زمین پر نہیں لگتے، دوسرے وہ جن کی ریٹائرمنٹ قریب آچکی ہوتی ہے اور ان کے نام کے ساتھ ’’ریٹائرڈ‘‘ لگنے والاہوتا ہے، اپنے کروفر کا خاتمہ قریب دیکھ کر ان کی گردن کا سریا بھی آنے والے وقت کے پیش نظر ذرا نرم پڑجاتا ہے۔ یہ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں اور بعض تو اس طرح سے دیتے ہیں گویا کل ہی مولانا طارق جمیل صاحب کی مجلس میں شریک ہوئے ہوں۔
بٹ صاحب سے شناسائی اشاروں کنایوں سے آگے نہ بڑھتی اگر وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے پھسل نہ گئے ہوتے، وہ گرنے کو تھے کہ ان کے پیچھے موجود سیلانی نے آگے بڑھ کر سہارہ دے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد سیلانی خود گرتے گرتے رہ گیا۔ بٹ صاحب نے پہلے تو سی ڈی اے (کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی) کی شان میں خالص پنجابی میں ایک موٹی سی گالی دی اور اس کے بعد سیلانی کا انگریزی میں شکریہ ادا کیا۔ اس واقعے کے بعد بٹ صاحب کی سیلانی سے اچھی سلام دعا ہوگئی اور جب انہیں پتہ چلا کہ سیلانی کسی ادارے میں کلرک شلرک نہیں، اک آزاد منش صحافی ہے تو انہوں نے بات چیت کرنے میں عار محسوس نہیں کی، ورنہ یہاں ایک افسر اپنے سے کم درجے کے ملازم سے میل جول نہیں بڑھاتا۔ اب بٹ صاحب سیلانی کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے چہل قدمی بھی کر لیتے ہیں۔ جامعہ پنجاب سے سیاسیات میں ایم اے کی سند رکھنے والے بٹ صاحب زمانہ طالب علمی میں ’’بائیں بازو‘‘ کی طرف جھک گئے تھے، تب سے ان کی فکری چال میں لنگ ہے، ابھی بھی وہ بائیں ٹانگ پر زیادہ زور دے کر چلتے ہیں، خیر یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ سیلانی کو مسئلہ تو تب ہونے لگتا ہے، جب وہ سیلانی کو بھی اپنی چال میں چلانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں، انہیں اپنی کسی تھیوری سے اختلاف پسند نہیں، فوراً ہی ان کی سرخ و سپید فراخ پیشانی پر لکیریں پڑ جاتی ہیں۔ اس وقت بھی ان کی یہی کیفیت تھی، وہ پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ کہنے لگے: ’’یہ بتائیں صحافی صاحب! شیخو کی پاریس (پریس) کانفرنس دے کھی (دیکھی) تھی کہ نہیں؟‘‘
’’بٹ صاحب! آپ ذرا کم چلا کریں، آپ کی سانس زیادہ پھولنے لگی ہے۔‘‘
سیلانی کی بات سن کر بٹ صاحب گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگے ’’آپ ایم بی بی ایس کیا ہومیو پیتھی ڈاکٹر بھی نہیں ہو، بلکہ اتائی ڈاکٹر بھی نہیں ہو، اس لئے خواہ مخواہ مفت مشورے نہ دیا کریں، یہ بدن پر چڑھی ہوئی چربی اور پھولتی سانسیں بٹ برادری کا انتخابی نشان ہیں آئی سمجھ، ہم بٹوں کا وزن ایسے بڑھتا ہے جیسے ملک پر قرضہ…‘‘ ان کی بات پر سیلانی بے ساختہ ہنس پڑا۔
’’شیخ رشید کی پریس کانفرنس دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا کہ نہیں؟‘‘ انہوں نے اپنی بات پھر دوہرائی۔
’’جی جی، جناب کہہ رہے تھے کہ ہم یومیہ چھ ارب روپے قرضوں کا سود دیتے ہیں اور اسی دن اسد عمر صاحب کہہ رہے تھے کہ اب خطرے والی صورت حال نہیں رہی۔‘‘
’’بالکل بالکل، اب پتہ ہے ہو گا کیا، یہ سبسڈیاں دینا بند کر دیں گے، گیس مہنگی کرکے انہوں نے آغاز کر دیا ہے، ابھی آپ دیکھنا ہوتا کیا ہے، بجلی، پیٹرول کی قیمتیں بھی کہاں جاتی ہیں… مشکل وقت آنے والاہے، لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہ سب نہ کریں تو اور کیا کریں، یہ جو میٹرو بس چلتی ہے ناں، ایک دن کا خسارہ پانچ ملین یعنی کیا کہتے ہیں کہ پچاس لاکھ روپے ہے … او بھئی! اتنے لگژری منصوبے کی ہمیں فی الحال ضرورت نہیں ہے، ہمیں پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ہمیں نان چھولے چاہئیں قرض ادھار لے کر پلاؤ، چرغے کھانا کہاں کی عقل مندی ہے، میں تو کہتا ہوں کپتان کو چاہئے کہ فوری طور پر اس قسم کے منصوبوں پر پابندی لگا دے اور ساتھ ساتھ ایک اور کام کرے، جو مجھے پتہ ہے کہ وہ کر نہیں سکتا۔‘‘ بٹ صاحب نے سیلانی کا تجسس بڑھایا’’وہ کیا؟‘‘
’’دفاعی بجٹ پر بھی نظر ثانی ہونی چاہئے، ہمارا 2018ء کا دفاعی بجٹ بیس فیصد اضافے کے ساتھ ایک ٹریلین روپوں کو کراس کر چکا ہے اور ہماری معیشت کا حال یہ ہے کہ روزانہ چھ ارب روپے سود کے لئے چاہئیں، آپ تو صحافی ہو، آپ کو علم ہوگا ہی، ہمارے یہاں غریب کا کیا حال ہے، وہ کیا کہتے ہیں کہ وہ لکیر نہیں ہوتی…‘‘
’’خط غربت!‘‘ سیلانی نے لقمہ دیا۔
’’ہاں وہی، ایشین ڈیولپمنٹ بینک کہہ رہا ہے کہ لگ بھگ تیس فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، حد ہوتی ہے، وہ کیا کہتے ہیں کہ ہر نیا دن ان کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے، بھئی کوئی ان کے لئے بھی سوچے، تیس فیصد ننگے بھوکوں کے ساتھ آپ اللو تللوں پر کیسے خرچہ کر سکتے ہیں‘‘۔
سیلانی سمجھ گیا کہ بٹ صاحب نے کسی روشن خیال کالم نگار کا تازہ تازہ مضمون پڑھا ہے اور آج شاید سارا دن دفتر میں چائے کی چسکیوں کے ساتھ اسی موضوع پر بات ہوتی رہے گی۔ سیلانی نے اپنی رفتار ذرا کم کی اور ٹریک سوٹ کی جیکٹ کی زپ نیچے کرتے ہوئے کہنے لگا ’’بٹ صاحب! بھارت میں ننگے بھوکوں کی تعداد بائیس فیصد یعنی تقریباً ساڑھے بائیس کروڑ ہے، دو تہائی افراد کی یومیہ آمدنی دو امریکی ڈالر اور تیس فیصد کی سوا ڈالر سے بھی کم ہے، میں سوشل سائینسز کا طالب علم رہا ہوں، میرا آنرز اور ماسٹرز بھی اسی مضمون میں ہے، بھارت کے آٹھ سو ملین لوگ غربت کی تعریف پر پورا اترتے ہیں، یعنی پکے پکے غریب ہیں…‘‘
سیلانی کی بات سن کر بٹ صاحب کی پیشانی پر بل پڑنے شروع ہو گئے، لیکن سیلانی نے بات جاری رکھی: ’’اس کے باوجود گولے بارود خریدنے میں بھارت دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، اس کا دفاعی بجٹ 52.5 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے… اس غربت کے باوجود بھارت نے ابھی روس سے جدید ترین S-400 ڈیفنس سسٹم خریدا ہے، بٹ صاحب! یہ میزائل سسٹم سولہ گاڑیوں کی ایک رجمنٹ ہے، کہتے ہیں کہ ایک گاڑی کی قیمت تقریباً پچیس کروڑ ڈالر ہے اور وہ بھارت جس کی تیس فیصد آبادی خط غربت میں رہ رہی ہے اور جس کے بائیس کروڑ لوگ خط غربت سے بھی نیچے سسک رہے ہیں، وہ ایسے پانچ سسٹم خرید چکا ہے، پانچ بلین ڈالر کی ڈیل کی ہے اس نے۔ سامنے کی بات ہے اس چنبیلی روڈ پر میری اور آپ کی چہل قدمی کے لئے اور ہمارے ملک میں بسنے والے تیس فیصد بھوکے ننگوں کے لئے اور پیٹ بھرکر ڈکار مارنے والوں کی زندگی حیاتی کے لئے ’’تیاری‘‘ تو رکھنی ہوگی کہ نہیں، خدا نہ کرے ہم برابر کی تیاری میں پیچھے رہ گئے تو اس ملک کا غریب بچے گا نہ امیر۔ میری والدہ کو کینسر ہو گیا تھا، الحمد للہ ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص ہوگئی، سرجری ہوئی اور پھر وہ الحمد للہ ٹھیک ہوگئیں، بعد میں ڈاکٹر نے فالواپ کے طور پر ایک دوا لکھ کر دی، جو اچھی خاصی مہنگی تھی، میری جیب پر بھاری بھی تھی، لیکن معاملہ والدہ کی زندگی کا تھا، اس لئے خریدتا تھا اور کئی سال تک خریدتا رہا…‘‘
سیلانی کی بات پر بٹ صاحب کی پیشانی پر پڑی شکنیں کم نہیں ہوئیں، وہ سیلانی کی بات کا رد بھی چاہتے تھے، لیکن شاید کوئی دلیل بھی سمجھ بھی نہیں آرہی تھی، انہوں نے گھڑی پر نظر ڈالی اور کہنے لگے: ’’میرا مطلب تھا کہ دونوں کو عقل کرنی پڑے گی، ورنہ اس خطے کو جنگ اور گولا بارود ختم کرے یا نہ کرے، غربت اور افلاس ضرور کھا جائیں گے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر see you کہتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ سیلانی نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’سر! اس see you کے لئے بھی تو یقین بھرے تحفظ کے احساس والی صبح چاہئے ناں؟!‘‘ بٹ صاحب نے سیلانی کی بات سنی ان سنی کر دی، جس کے بعد سیلانی نے بھی گھر کی راہ لی اور جاتے جاتے تھوڑے تھوڑے سے ناراض بٹ صاحب کو جاتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment