قسط نمبر: 70
جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے ناقدانہ نکات و نیز پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن کی آرا مطالعہ اور فیصلے کے لیے نقل کی جاتی ہیں۔
آٹھ اپریل 2002ء کی صبح میں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں آگاہ کیا کہ میرا ایرانی دورے کا پریزنٹیشن تیار ہے۔ اور وہ جب بھی حکم دیں گے میں اس کے لیے حاضر ہو جائوں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ توقف کے بعد فرمایا کہ ’’آپ کا پریزنٹیشن میرے آفس میں انشاء اللہ پرسوں یعنی دس اپریل کو صبح نو بجے شروع ہو گا۔ اگر ناگزیر حالات کی بنا پر پریزنٹیشن کے وقت اور تاریخ میں کوئی تبدیلی کرنی پڑی تو اس کے بارے میں ڈاکٹر نذیر صاحب آپ کو آج شام تک آگاہ کر دیں گے‘‘۔ اور ابھی دفتری اوقات ختم ہونے میں چند گھنٹے باقی تھے کہ ڈاکٹر نذیر صاحب کا ٹیلی فون آگیا۔ وہ میرے پریزنٹیشن کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کے دیئے گئے وقت اور تاریخ کو کنفرم کر رہے تھے۔
10 اپریل 2002ء کے روز میرے پریزنٹیشن کے معزز سامعین حسب ذیل تھے۔
-1 ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب، نشان امتیاز و بار، ہلال امتیاز، اسپیشل ایڈوائزر ٹو دی چیف ایگزیکٹو آف پاکستان برائے اسٹرٹیجک پروگرام۔
-2 جنرل (ر) سکندر حیات صاحب، سابق چیئرمین پاکستان اسٹیل کراچی اور اس زمانے کے ممبر اسٹیل کمیٹی آف پاکستان۔
-3 ڈاکٹر انوارالحق صاحب، چیئرمین پاکستان سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) اسلام آباد۔
-4 محمد فہیم صاحب فنانشل ایڈائزر و سیکریٹری، ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب۔
-5 شاہد صاحب پرسنل اسسٹنٹ، ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب۔
جنوری 2002ء کے آخری ہفتے میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب ہی کے آفس میں مجوزہ نوکنڈی اسٹیل مل پر میرے ایک پریزنٹیشن کے بعد جنرل (ر) سکندر حیات صاحب کے اس اہم اور منطقی اعتراض پر مجھے ایران بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ:
’’ایران کے جن کوکنگ کوئلے کے ذخائر پر آپ نے نوکنڈی کی مجوزہ اسٹیل مل کی بنیاد رکھی ہے، کیا ان ذخائر کو خود بھی جاکر دیکھا ہے کہ آیا وہ اتنے وسیع ہیں کہ اصفہان اسٹیل مل کے علاوہ نوکنڈی اسٹیل مل کی ضروریات کو بھی پورا کر سکیں گے؟ اور کیا حکومت ایران آپ کے ساتھ کوکنگ کوئلے کی سپلائی کا طویل المدتی معاہدہ کرنے پر تیار ہو گی؟‘‘۔
تو اصل روح رواں جن کے لیے یہ محفل سجی تھی، جنرل (ر) سکندر حیات صاحب ہی تھے اور میرا اصل مقصد ان ہی کو مطمئن کرنا تھا کہ ایران کے کرمان/ طبس کی 350 کلو میٹر لمبی اور 130 کلو میٹر چوڑی کوئلے کی بیلٹ میں اتنا کوکنگ اور نان کوکنگ کوئلہ موجود ہے کہ اگر ہم نوکنڈی جیسی بلوچستان میں دس اسٹیل ملیں بھی لگا لیں، پھر بھی آئندہ سو برسوں میں ہمیں کوئلے کی بہم رسانی کا کوئی مسئلہ پیش نہ آئے گا، بشرطیکہ ہم حکومت ایران سے ایک طویل المیعادی پٹے پر حاصل کردہ محدود رقبے میں ضروری معلوماتی کارروائیاں کر کے اپنی پیداواری کانیں تعمیر کر لیں۔ مگر اس ستم ظرفی کو کیا کہئیے کہ اس پریزنٹیشن کے دوران انہی جنرل (ر) سکندر حیات سے میرا جھگڑا ہو گیا۔ ویسے جو کچھ ہوا، اس کے لیے ’جھگڑے‘ کا لفظ ذرا زیادہ سخت ہوگیا۔ بس یوں سمجھئے کہ کچھ گرما گرمی ہو گئی۔ مگر سب سے زیادہ افسوسناک یہ حقیقت ہے کہ یہ گرما گرمی کرمان کوئلے کے ذخائر کے بارے میں دی گئی میری کسی تفصیل پر نہیں ہوئی کہ جنرل صاحب اور میرے تمام سامعین اس سے پوری طرح مطمئن اور میرے نقطۂ نظر کے معترف تھے۔ گرما گرمی بلوچستان کے ایک ایسے غیر اہم خام لوہے کے ذخیرے کے کوائف پر ہوئی، جس کا نوکنڈی اسٹیل مل کی اسکیم میں کہیں ذکر نہ تھا اور اگر تھا تو بس اس قدر کہ نوکنڈی اسٹیل مل کی فزیبلیٹی رپورٹ کے ایک سو دو سپورٹنگ انکلوژرس میں صرف ایک انکلوژر میں جس میں کہ پاکستان کے تمام معلوم خام لوہے کے ذخائر دکھائے گئے تھے، اس ذخیرے یعنی دلبند (قلات) خام لوہے کے ذخیرے کو بھی دکھایا گیا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل میٹنگ کے بیان میں آگے آئے گی۔
انتہائی معزز اور ماہرین فن ہستیوں کے روبرو مجھ ناچیز کا پریزنٹیشن صبح ساڑھے نو بجے شروع ہوا اور تقریباً ایک بجے دوپہر تک جاری رہا، کیونکہ سب ہی سامعین اسٹیل کے شعبے سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق رکھنے والے تھے اور سب ہی نوکنڈی اسٹیل مل کے منصوبے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے بالخصوص ایرانی کوئلے کے ذخائر کے حوالے سے۔ اس لیے سب نے پورے انہماک اور توجہ سے میری معروضات کو سنا اور متعدد سوالات کئے۔ مگر میری بدقسمتی سے پریزنٹیشن کے آخری حصے میں جنرل (ر) سکندر حیات صاحب نے مجھ سے ایک خاصا غیر متعلق سوال کر لیا کہ ’’آپ نے نوکنڈی اسٹیل مل کے لیے دلبند خام لوہے کے ذخائر کو ایک ممکنہ خام لوہے کے منبے کے طور پر کیوں نہ رکھا؟‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ وہ ایک دور افتادہ اور ادنیٰ درجے کا سلیشس (siliceous) سیڈی منٹری (تہہ دار) خام لوہا ہے، جو بغیر پیشگی افزودگی نوکنڈی مل کے بلاسٹ فرنیسوں میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ جبکہ پاچن کوہ (نوکنڈی)، چگین ڈک (نوکنڈی) اور چلغازی (دالبندین) کے خام لوہے کہ جن پر نوکنڈی اسٹیل مل کی بنیاد رکھی گئی ہے، اسٹیل مل کی جائے وقوع سے قریب بھی واقع ہیں اور اپنے اوسط 50 فیصد لوہے اور 12 فیصد تا 17 فیصد سلیکا (SiO2) کے ساتھ بغیر پیشگی افزودگی نوکنڈی کے بلاسٹ فرنیسوں میں استعمال ہو سکیں گے۔ جبکہ دلبند (Dilband) خام لوہا اور اپنے اوسط 35 فیصد لوہے (Fe) اور 19 فیصد سلیکا (SiO2) کے ساتھ نوکنڈی بلاسٹ فرنیسوں میں براہ راست استعمال نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ نوکنڈی کے بلاسٹ فرنیس 50 فیصد لوہے اور 16 فیصد سلیکا پر ڈیزائن ہوں گے۔ نیز دلبند خام لوہا ایک نسبتاً کم ضخامت یعنی صرف 2 میٹر خضامت والی عدسیاتی (lenticular) پرت پر مشتمل ہے، جو کہیں ہے اور کہیں نہیں۔ جنرل سکندر حیات صاحب کو دلبند خام لوہے کے بارے میں میری پیش کردہ کیمیائی تجزیاتی رپورٹ پر تحفظات تھے۔ ان کے نزدیک دلبند خام لوہے میں 35 فیصد تا 45 فیصد لوہا اور سلیکا 19 فیصد سے کافی کم تھا اور ان کا یہ بیان دلبند کے ذخائر پر کام کرنے والے جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے جیولوجسٹ مسٹر غضنفر عباس اور دلبند کے ذخائر پر کانکنی کا پٹہ رکھنے والے جناب عبدالمجید غوری صاحب کے دعوئوں کے عین مطابق تھا۔ گو میں نے اس وقت دلبند کے خام لوہے کے ذخائر کو ذاتی طور پر تو نہ چھانا پھٹکا تھا مگر میرے پاس اس ذخیرے کے نمونوں پر مختلف لیبارٹریز کی تفصیلی رپورٹیں اور جیولوجیکل سروے آف پاکستان کی ایک تفصیلی ارضیاتی رپورٹ ضرور موجود تھی اور اس حقیر نے اسے تفصیل سے پڑھ بھی رکھا تھا۔ علاوہ ازیں میں نے چوتھی پاکستان جیولوجیکل کانگریس منعقدہ اسلام آباد بتاریخ 27 فروری 2001ء کو دلبند خام لوہے کے ذخائر پر پیش کیا گیا ایک تفصیلی مقالہ اور اس پر کی گئی کڑی تنقید بھی سن رکھی تھی۔ نیز مقالے کے اختتام پر ڈائریکٹر جنرل جیولوجیکل سروے آف پاکستان (سید حسن گوہر صاحب) کی فیصلہ کن رائے زنی بھی سن رکھی تھی، جنہوں نے فرمایا تھا کہ دلبند خام لوہے میں لوہا (Fe) کی مقدار 25 فیصد تا 30 فیصد کے درمیان ہے۔ ان معلومات کی بنیاد پر میں اس معاملے میں خاصا پراعتماد تھا کہ میرے پیش کردہ تجزیاتی اعداد بالکل صحیح ہیں اور انہی بنیادوں کے سہارے میں اپنے نقطہ نظر پر جم گیا۔ ویسے بھی بحیثیت ایک جیولوجسٹ یہ میرا فیلڈ تھا اور جنرل صاحب کا نہیں۔ (جاری ہے)