وزیراعظم عمران خان برسراقتدار آنے کے بعد دوسری مرتبہ سعودی عرب پہنچے۔ انہوں نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی، جو پاکستان کی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے حوالے سے بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ یاد رہے کہ عمران خاں نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کے سوا کسی اور ملک کا دورہ نہیں کیا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی انہوں نے اپنی جگہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھیج دیا تھا۔ جنہوں نے اقوام عالم کے سامنے مختلف امور پر پاکستان کے مؤقف کی نہایت بھرپور اور کامیاب نمائندگی کی۔ تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخابات میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر یہ تاثر دیا تھا کہ اس نے ملک کے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے پورا ہوم ورک کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں پارٹی کے برسر اقتدار آتے ہی پاکستان میں تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں گی اور لوگ پریشانیوں سے نجات پاکر اپنی زندگی میں بڑا سکون محسوس کریں گے۔ لیکن ساری قوم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی اہم ترین اور نہایت سنگین تبدیلی یہ نظر آئی کہ پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں کے علاوہ کئی ٹیکسوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اشیائے صرف تیزی سے مہنگی ہونے لگیں۔ ملک کی تاریخ میں ڈالر پہلی مرتبہ ایک سو سینتیس روپے سے بھی زیادہ مہنگا ہو گیا، اسٹاک مارکیٹ تیزی سے نیچے آگئی، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے اور توازن ادائیگی بری طرح بگڑ گیا۔ چنانچہ تحریک انصاف کی حکومت بوکھلاہٹ میں بڑے نرالے اور متضاد بیان دینے لگی۔ پہلے وہ سختی سے کہتی رہی کہ ہم آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیں گے، لیکن بعد میں دوست ملکوں سے امداد سمیت آئی ایم ایف کے آگے کشکول پھیلانے کو بھی آپشن قرار دیا جانے لگا۔ کئی یو ٹرن اور بیانات کی قلابازیوں کے بعد وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب سے تعاون حاصل کرنے کو اولین ترجیح دی۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر مشکل گھڑی میں اسی مملکت نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مدد کی ہے۔ عمران خان کے پہلے دورے سے قبل شاید ان کا یہ بیان سعودی حکمرانوں تک پہنچ گیا تھا کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے قطع نظر بھی سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستانی حکمرانوں کے بجائے عوام سے رشتہ برقرار رکھا۔ اسی باعث انہوں نے عمران کا دو مرتبہ پرتپاک خیرمقدم کیا اور ان کے دوسرے دورے میں پاکستان کے لیے بارہ ارب ڈالر پیکیج کا اعلان کر دیا۔ حکومت میں آتے ہی تحریک انصاف کو اقتصادی بحران کی معروضی حقیقت معلوم ہوئی تو اس نے حسب روایت خزانہ خالی ہونے کا سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈالتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر ہمیں بارہ ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے، ورنہ معیشت دھڑام سے نیچے آجائے گی۔ غریب عوام کا خیال تھا کہ نئی حکومت انقلابی اقدامات کے ذریعے لوٹی ہوئی قومی دولت فوراً واپس لائے گی تو قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ہی ملک غربت سے نجات پاکر ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ لیکن اب تک اس جانب تیز رفتار پیش رفت نظر آتی ہے، نہ دولت کی واپسی۔
ملک کے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کو بارہ ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کی ضرورت تھی۔ اس نے اپنی کوششوں کے پہلے مرحلے میں سعودی عرب سے اتنی ہی رقم کا پیکیج ضرور حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ بہ یک وقت اور یکمشت ادائیگی پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ چار حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ اول، توازن ادائیگی کے لیے تین ارب ڈالر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکائونٹ میں منتقل کئے جائیں گے۔ دوم، ایک سال کے لیے تین ارب ڈالر مالیت کا تیل پاکستان کو ادھار دیا جائے گا۔ سوم اور چہارم، ایک سال بعد اور پھر اگلے ایک سال کے آخر میں اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ اسی طرح تین سال کے عرصے میں نو ارب ڈالر کا سعودی تیل پاکستان کو سالانہ بنیاد پر ادھار ملتا رہے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ اس معاہدے کی روشنی میں حکومت کو فوری طور پر بارہ ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگی کے لیے یقینا دوسرے دروازوں پر دستک دینی ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان کے دوسرے دورۂ سودی عرب کے بارے میں پاکستان کے سرکاری اعلامیہ میں یہ خوش آئند خبر بھی دی گئی ہے کہ سعودی مملکت نے پاکستان میں آئل ریفائنری کے منصوبے میں سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب پاک و چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) میں شمولیت پر رضامندی کے ساتھ پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ گوادر میں آئل سٹی قائم کر کے دور دراز ملکوں تک تیل کی باآسانی منتقلی کو آسان بنائے گا۔ سعودی حکام نے بلوچستان میں معدنیات کی تلاش کے لیے بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ علاوہ ازیں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستانی کارکنوں کے لیے سعودی ویزا فیس میں کمی کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ دورے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان سے سعودی وزیر خزانہ، وزیر تجارت اور وزیر توانائی سمیت دیگر کئی اعلیٰ حکام نے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر وزیراعظم نے سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری سرگرمیوں میں سہولتیں پیدا کرنے کے لیے ’’ون ونڈو آپریشن‘‘ کا اعلان کیا تاکہ ایک ہی جگہ پر سارے دوطرفہ معاملات طے پاجائیں۔ ریاض میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کو درپیش مشکلات کا احاطہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور منی لانڈرنگ ہے۔ ہمیں مالیاتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ ورثے میں ملا ہے۔ پاکستان کے لیے تین سے چھ ماہ سخت ہیں، لیکن ہم اس مدت کے دوران صورت حال پر قابو پالیں گے۔ غربت اور کرپشن پر قابو پانے کا طریقہ ہم دوست ملک چین سے سیکھیں گے۔ انہوں نے پاکستان دشمنی پر مبنی بھارتی رویئے اور افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات کا بھی ذکر کیا۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ، لیکن تحریک انصاف کی حکومت کو سب سے زیادہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو بار بار کے یو ٹرن سے نہیں، درست فیصلوں اور اقدامات کے استقلال میں مضمر ہے۔ اس کا آغاز لوٹی ہوئی دولت کو وطن واپس لانے سے نہ کیا گیا تو وزیراعظم عمران خان اب تک باقی رہ جانے والا اعتماد بھی کھو دیں گے۔٭