اگلے پانچ سات دنوں میں سب تفصیلات معرض بحث میں لے آئی گئیں۔ بچوں کے بارے میں مرزا فخرو بہادر نے کہلایا کہ نکاح کے چند دن بعد نواب مرزا کو قلعے میں بلایا جائے گا اور وہ ولی عہد سوئم کے فرزند کی حیثیت سے قلعے میں تربیت پائیں گے، تعلیم حاصل کریں گے، اور ماں کے ساتھ ولی عہد سوئم کے مکان اندرون قلعہ میں قیام پذیر ہوں گے۔ ان کی تعلیم، تربیت، نگہداشت، سب ولی عہد سوم کے ذمہ ہوگی۔ شاہ محمد آغا کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ابھی بہت چھوٹے ہیں، ان کی پرورش و پرداخت اندرون حویلی مبارک کماینبغی نہ ہوسکے گی۔ ان کے لئے کچھ روزینہ مقرر ہوجائے گا، لیکن ان کے پالنے پوسنے کا انتظام وزیر خانم کو بیرون حویلی خود کرنا ہوگا۔ وزیر نے دل میں سوچا کہ اصل وجہ یقیناً کچھ اور ہوگی، اور وہ یہ کہ شاہ محمد آغا ہر چند کہ شیر خوار نہ تھے، لیکن ننھے بچے تھے۔ اگر وہ ساتھ ہوئے تو میری بہت ساری توجہ اور بہت ساری مصروفیت انہیں کی طرف ہوگی۔ بدیں صورت میں روزاں وشباں صاحب عالم بہادر کی خدمت نہ کرسکوں گی۔ اسے غصہ تو بہت آیا، لیکنٹھنڈے دل سے سوچیں تو بات میںوزن تھا۔ نواب مرزا کو بلوالیا جانا ایک طرح وزیر کی بڑی کامیابی تھی۔ لیکن یہ خود اللہ رکھے نواب مرزا کے ہونہار پن اور اہل نظر کی نگاہوں میں ان کی قدر و قیمت آئندہ کے لئے ان سے توقعات کا ثبوت تھا۔
مہر کے بارے میں کہلایا گیا کہ ایک لاکھ روپئے مہر شاہی (یعنی کمپنی بہادر کا روپیہ نہیں، چودہ آنے خالص چاندی کا محمد شاہی روپیہ) اور سو اشرفیاں شاہ عالمی مجوز ہیں، لیکن یہ سب موجل ہوگا، معجل کچھ نہ ہوگا۔ اس کے عوض یہ بھی تھا کہ لڑکی والوں کی طرف گھوڑے جوڑے، دعوت مدارات، زیور کپڑے کی قسم سے کچھ مطلوب نہ تھا۔ دلہن کے ساتھ بطور جہیز ایک یا دو خادمائیں بخوشی آسکتی ہیں، انہیں بھی قلعے میں جگہ دی جائے گی۔ دلہن کو چڑھاوے میں اور سلامی میں جو کچھ ملے گا وہ اس کا حق ہوگا۔ ایک نکاحی جوڑا بادشاہ ذی جاہ کی طرف سے اور ایک صاحب عالم وعالمیان مرزا فخر و بہادر کی طرف سے عطا ہوگا۔ نکاح نامہ لکھا جائے گا اور اس پر دستخط نکاح خواں کے ساتھ دستخط ناکح و منکوحہ کے بھی ہوں گے۔ نکاح کے بعد قلعہ میمون سے نالکی مع دو سوار اور چار چوبدار آئے گی اور دلہن کو سوار کرا کے اندرون حویلی لے آئے گی۔
وزیر کو ترکِ شاہ محمد آغاز کے سوا سب شرطیں منظور تھیں اور بار بار اس کے جی میں آتی تھی کہ صاف کہلادوں، آغا صاحب نہیں تو ہم بھی نہیں۔ لیکن ایک طرف بائی جی کی بات یاد آتی تھی کہ بچوں کا حال اچھا ہی رہے گا، اور یہ سب امور تو مقرر ہیں، اور دوسری طرف اپنے اور نواب مرزا کے مستقبل کا خیال آتا تو قلعے کی زندگی سے بہتر اور کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اس کے جی میں آئی کہ ایک بار بائی جی کے پاس چلئے اور پھر پوچھئے کہ سچ معنوں میں میرے حق میں اچھا کیا ہوگا۔ لیکن اس کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ یہ سراسر گستاخی تھی۔
بالآخر وزیر نے مفاہمت کی ایک صورت نکال لی۔ ٹھیک ہے، میں شاہ محمد کا آغا کا کچھ اور انتظام کر لوں گی، لیکن جب وہ بڑے ہوجائیں گے تو انہیں بھی قلعے میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔ اور جب تک وہ چھوٹے ہیں، مجھے حق ہوگا کہ کبھی کبھی ان کو قلعے بلوا کر دیکھ لوں یا اگر ان کا جی ماندہ ہو تو ان کے معالجے اور تیمار داری کے لئے انہیں اپنے پاس بلوالوں۔
ولی عہد سوئم بہادر نے بتکلف یہ بات منظور کرلی۔ شاہی جوتشی کے مشورے سے مبارک دن متعین کیا گیا۔ اس سے ایک رات قبل وزیر خانم رخصتی کے لئے بڑی بیگم کے گھر منتقل ہوگئیں۔ وقت مقررہ پر مولوی امام بخش صہبائی نے وزیر سے اجازت مانگی کہ کیا میں وکیل بن کر تمہارا نکاح صاحب عالم و عالمیان مرزا محمد سلطان غلام فخر الدین فتح الملک بہادر ولی عہد سوم دولت ہندوستان سے بعوض ایک لاکھ روپئے مہر شاہی اور سو اشرفیاں عالم شاہی بہ گواہی مولوی محمد نظیر رفاعی مجددی احترام الدولہ عمدۃ الحکما حکیم محمد احسن اللہ خان بہادر پڑھا دوں؟ وزیر کی طرف سے حرف ایجاب سن لینے کے بعد مولانا صہبائی اور مولوی محمد نظیر سوار ہو کر قلعے تشریف لے گئے، جہاں مختصر محفل نکاح برپا کی گئی تھی۔ گواہوں اور حضار مجلس کی موجودگی میں مولانا صہبائی نے نکاح پڑھایا اور نکاح نامے پر صاحب عالم اور گواہان کے دستخط لئے۔ ہر طرف سے مبارک سلامت کا شور اٹھا۔ مرزا فتح الملک اس قدر مسرور تھے گویا ان کی نو عمری ہو اور ارمان بھرا پہلا نکاح ہو۔ تقسیم شیرینی کے بعد محفل برخاست ہوئی۔
مرزا فتح الملک بہادر نے نواب زینت محل کی خاص نالکی بادشاہ سے کہہ کر اپنی دلہن کے لئے مہیا کرالی تھی۔ انہوں نے اپنی پہلی بیوی مرحومہ کے خاص نکاحی جوڑے جو موجود بیوی کو نہ دیئے تھے، وزیر کے لئے پہلے ہی روانہ کر دیئے تھے۔ منجھلی بیگم جنہیں نوابین اور ارباب حکومت کے طور طریقوں کا تجربہ تھا، چاہتی تھیں کہ قلعے سے جو سامان اور سواری اور سواران آئیں ان کے علاوہ لڑکی والوں کی طرف سے کچھ نہ جائے۔ لیکن وزیر، جو اب تک تو سب انتظامات خاموشی سے دیکھ رہی تھی، اس نے صاف کہا کہ حبیبہ تو جائے گی، لیکن حبیبہ کے سوا بھی بڑی باجی اور دولہا بھائی صاحب کچھ بھیجنا چاہیں وہ ضرور جائے گا۔ نہیں تو قلعے والے جائیں چولھے بھاڑ میں۔
’’اے ہے بنے کیسے کلام منہ سے نکالتی ہے!‘‘۔ عمدہ خانم نے کہا۔ ’’کوئی سن سنا لے گا تو ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی ہوجائے گی‘‘۔
’’اللہ آپ کی بات تو ٹھیک ہے منجھلی باجی۔ پر یہ کیونکہ ہوسکے ہے کہ میں سر ڈولی پاؤں کہار آئیں بیوی نو بہار کی مصداق بن کر بے حیائی سے ننگی بوچی کے قلعے میں دھنس پڑوں‘‘۔
’’بات تو منجھلی ٹھیک کہتی ہیں کہ قاعدے کے موافق تو یہی ہونا چاہیئے‘‘۔ بڑی نے کہا۔ ’’لیکن چھوٹی کو بطور خاص چاہا گیا ہے، وہ کوئی عام طرح کی دلہن تھوڑی ہے۔ میں تو سمجھتی ہوں نواب کے زمانے کے کچھ اپنے قیمتی زیور اور لباس ضرور ساتھ لے جانے چاہئیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭