کنویں سے مرا ہوا کتابھی نکالیں(گزشتہ سے پیوستہ)

کوئی مانے یا نہ مانے، تاریح ضرور لکھے گی کہ ایک قوم ایسی بھی تھی جس کے پاس ڈیم بنانے کے لئے پیسہ نہیں تھا، مگراس کی پولیس روزانہ کی بنیاد پر اسی قوم سے رشوتوں اور بھتوں کی مد میں کروڑوں نہیں، اربوں روپے جمع کیا کرتی تھی۔ لوگوں کی اصلاح کی غرض سے وجود میں آنے والا پولیس کا محکمہ ساری دنیا میں کام کرتا ہے، مگر تیسری دنیا اور بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک کے حکمراں اس محکمے کو اپنے ذاتی مقاصد کے استعمال کے سبب اخلاقی پستی کے اس مقام پر پہنچا چکے ہیں، جہاں انہیں حلال و حرام کی تفریق بتانے والا کسی اور دنیا کی مخلوق دکھائی دیتا ہے۔ کراچی میں ایک غریب رکشہ ڈرائیور بھی گزشتہ دنوں پولیس کے ایسے ہی رویئے سے دل برداشتہ ہوکر خود سوزی کر بیٹھا اور پولیس کے پورے محکمے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔
رکشہ ڈرائیور خالد یوسف نے پولیس اہل کار اے ایس آئی حنیف کو پچاس روپے رشوت دینے سے انکار کیا تو اس نے غریب کا ایک سو ستر روپے کا چالان کاٹ ڈالا، جس پر رکشہ ڈرائیور خالد نے صدر تھانے کے سامنے احتجاجاً خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگالی تھی اور اگلے ہی روز وہ دوران علاج انتقال کر گیا۔ رکشہ ڈرائیور خالد نے پولیس کو رشوت دینے کے بجائے اپنی جان دے کر حکمرانوں اور اعلیٰ پولیس حکام کو غیرت دلانے کی جو کوشش کی، وہ انتہائی کوشش بھی اس کی لاش کے ساتھ ہی دفن ہوگئی، کیوں کہ متعلقہ راشی پولیس اہل کار کا کسی نے کیا بگاڑ لیا؟ اسے تو اس کے پیٹی بند بھائیوں نے ڈھیلی ڈھالی دفعات لگا کر دوسرے ہی دن عدالت سے بری کرالیا، کیوں کہ وہ تو اپنے محکمے کے لئے پیسہ کمانے کی مشین ہے۔
رکشہ ڈرائیور خالد کی خود سوزی پر اس کے انتقال سے قبل آئی جی سندھ نے ڈی آئی جی ٹریفک سے رپورٹ ضرور طلب کی، جس پر آٹے میں نمک کے برابر پیش رفت یہ ہوئی کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ دوڑے دوڑے زخمی خالد کو دیکھنے اسپتال پہنچ گئے تھے، جہاں انہوں نے روایتی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمی کے اہل خانہ کو کچھ پیسے دے کر ان کی ہمدردی حاصل کرنی چاہی تھی، جسے زخمی ڈرائیور اور اس کے اہل خانہ نے شکریئے کے ساتھ مسترد کر دیا تھا۔ اس موقع پر آئی جی کراچی نے پریس کے سامنے مزید فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹریفک پولیس کو ہدایت کی تھی کہ رکشے والوں کا سو ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ کا چالان نہ کیا جائے۔ مزید یہ کہ اگر کوئی غریب رکشے والا اس چالان کی ادائیگی سے بھی قاصر ہو تو وہ یہ چالان اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ آئی جی امیر شیخ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ٹریفک پولیس کا کوئی اہل کار کسی سے ناانصافی کرے تو ہمیں بتایا جائے، جو اہل کار ناانصافی کرے گا، اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ آئی جی صاحب کی یہ بات کہ رکشہ ڈرائیوروں کا چالان سو ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ نہ کیا جائے، ایسا ہے جیسے چالان کرنے کی فیس کیلئے کوئی قانون مقرر نہ ہو، بلکہ ان کی صوابدید پر مقرر کی جاتی ہو۔ موصوٖف سے یہ سوال پوچھنے کی توفیق موقع پر موجود کسی صحافی دوست کو بھی نہیں ہوئی؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ ٹریفک اہل کار آئی جی صاحب کے کہنے پر رکشہ ڈرائیوروں کا سو ڈیڑھ سو سے زائد کا چالان نہیں کریں گے، مگر جو غریب چالان ادا کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوں گے، وہ آئی جی صاحب سے چالان ادا کرانے کے لئے انہیں کہاں ڈھونڈھتے پھریں گے؟ اگر کوئی غریب رکشہ ڈرائیور ان کی اس بات کو سچ سمجھ کر شیخ صاحب کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تو نہ جانے ان تک رسائی میں کتنے چکر پولیس ہیڈ آفس کے لگانے پڑیں گے، اس دوران اسے کتنے روپے کا اضافی فیول خرچ کرنا پڑے گا؟ حافظ جی کا خیال ہے کہ آئی جی کراچی کی اس قسم کی باتیں راول پنڈی والے شیخ رشید کی باتوں سے ہرگزکم نہیں، ممکن ہے آئی جی امیر شیخ، سیاست داں شیخ رشید سے متاثر ہوں کہ اس قسم کے بیانات تو سیاست دان ہی دیتے ہیں اور پھر اپنے آئی جی کے نام میں بھی تو ’’شیخ‘‘ آتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ شیخ رشید کے نام میں شیخ سابقہ ہے اور امیر شیخ کے نام میں لاحقہ۔
حافظ جی کو یاد ہے کہ رکشہ ڈرائیور کے سانحے پر آئی جی کراچی نے موٹر سائیکل سواروں کے خلاف بھی پولیس اہل کاروںکو ایک ہفتے مزید کوئی کارروائی نہ کرنے کی ہدایت کی تھی، مگر اس کے دوسرے ہی روز حافظ جی نے جابجا موٹر سائیکل سواروں کو پولیس اور ٹریفک پولیس کے نرغے میں پایا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے، اب اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو اہل کار اپنے محکمے کے سربراہ کے احکامات ہوا میں اڑا دیتے ہوں، عوام کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہوتا ہوگا؟ ہمارے آئی جی صاحب چھاپے مارنے میں یگانہ ہیں، انہیں چاہئے کہ کسی روز پولیس اور ٹریفک پولیس کے مذکورہ روئیے کو جانچنے کے لئے سادہ لباس موٹر سائیکل سوار کا روپ دھار کر اپنے ماتحتوں کے پبلک سے رویئے کا امتحان ضرور لیں، اس کے بعد ہمیں کچھ لکھنے اور پولیس اہل کاروں کی چیرہ دستیوں کو یوں بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
گستاخی معاف! اعلیٰ پولیس افسران کے علم میں اب تک یہ بات یقیناً آچکی ہوگی کہ ٹریفک اہل کار اے ایس آئی حنیف کی زیادتی پر خود سوزی کرکے موت کی نیند سونے والا رکشہ ڈرائیور خالد یوسف ایک سمجھدار اور باشعور فرد تھا، جو وطن کی محبت سے سرشار ہوکر بیرون ملک سے ملازمت چھوڑ کر پاکستان آیا اور اس نے یہاں محنت مزدوری کو ترجیح دی۔ اسے رشوتوں کا لین دین ناپسند تھا، ورنہ تو اے ایس آئی کے طلب کردہ رشوت کے پچاس روپوں کی فی زمانہ حیثیت ہی کیا؟ حافظ جی کی نظر میں خالد یوسف نے پولیس اہل کاروں کی چیرہ دستیوں پر حکومت اور اعلیٰ پولیس افسران کی توجہ اس جانب مرکوز کرانے کی کوشش میں اپنی جان دی، جس پر فی الفور ایکشن کی ضرورت تھی، مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا اور روایتی افسوس کا اظہار کرکے سب اپنے اپنے دھندوں میں مصروف ہوگئے، یہ سوچے سمجھے بنا کہ کنویں میں کتا گرکر مر جائے تو صرف چند ڈول پانی نکال دینے سے کنویں کا پانی پاک نہیں ہو جاتا، بلکہ پہلے کنویں سے مرا ہوا کتا بھی نکال کر پھینکنا ہوتا ہے۔ کاش! حافظ جی کی اس بات کو ذمہ داران سمجھ سکیں۔ (وما توفیقی الاباللہ)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment