بینکنگ نظام اور وفاداری

شیراز چوہدری
جعلی اکائونٹ کے اسکینڈل کی وجوہات کو اگر ایک لائن میں بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کی وجہ ہمارے بینکنگ نظام سے جڑے لوگوں میں وفاداری کم ہو جانا ہے۔ وفاداری کم ہونے کے ذمہ دار ان بینکوں کو چلانے والے لوگ ہیں، جنہوں نے کمرشل ازم کو حاوی کرلیا اور ملازمین کی وفاداری کھودی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس دور میں جب کمپیوٹرائز شناختی کارڈ موجود ہیں، بینکوں میں بائیو میٹرک مشینیں لگی ہوئی ہیں، ایک سیکنڈ میں کھاتیدار کا بائیو ڈیٹا چیک کیا جاسکتا ہے، پیسے جمع کرانے اور نکلوانے والی سلپ اور چیک تک کو کمپیوٹر کا دیدار کرایا جاتا ہے، ان سب کے باوجود جعلی اکائونٹ چلتے رہے، ان میں ایک کھرب روپے گھوم پھر کر باہر پہنچ گئے اور کسی کو بروقت پتہ ہی نہ چلا۔ کیوں کہ یہ نظام چلانے والا بینکنگ عملہ اپنے ادارے کے ساتھ وفادار نہیں تھا، اس کے لئے ملازمت سے زیادہ پیسہ کی اہمیت تھی، ایک وہ وقت تھا جب نہ کمپیوٹرائز شناختی کارڈ ہوتے تھے اور نہ ہی بائیو میٹرک کی سہولت، آج کل تو کمپیوٹر کے ذریعے سارا ریکارڈ اوپر تک جا رہا ہوتا ہے، اس وقت تو سب کچھ فائلوں اور برانچ تک محدود ہوتا تھا، مگر کبھی ایسے اسکینڈل سامنے نہیں آئے، اس وقت بینک گارڈ ڈکیتی کی صورت میں رقم بچانے کے لئے جان دے دیتے تھے، لیکن اب گارڈ خود ہی رقم لوٹ کر لے جاتے ہیں، بینکنگ کے شعبے میں یہ تبدیلی کیسے آئی اور ملازمین کیوں اتنے وفادار نہیں رہے؟ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ نجکاری کے بعد بینکوں نے منافع بڑھانے کے لئے اپنے اوپر کمرشل ازم حاوی کرلیا، مستقل ملازمتیں ختم کر دیں، کنٹریکٹ سسٹم کو اپنا لیا، پرانے دور میں بینک گارڈ اس لئے پیسے بچاتے ہوئے جان دے دیتا تھا، کیوں کہ وہ بینک کو اپنے گھر کی طرح سمجھتا تھا، اس کی ادارے سے وفاداری ہوتی تھی، اسے علم ہوتا تھا کہ جب وہ ریٹائرڈ ہوگا تو اسے اچھی خاصی رقم اور پنشن ملے گی، پھر اس کا بیٹا بھی سن کوٹے پر بھرتی ہو جائے گا، ان کا اپنے ادارے کے ساتھ جذباتی تعلق ہوتا تھا، بینک ان کی شناخت ہوتی تھی، لیکن آج کل کے گارڈ ڈاکوئوں سے بچانا تو درکنار خود بھی بعض اوقات بینک لوٹ لیتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا جذباتی تو چھوڑیں بینک سے عمومی تعلق بھی نہیں ہوتا، وہ کسی سیکورٹی کمپنی میں بارہ پندرہ ہزار پر بھرتی ہوتے ہیں، جو انہیں کبھی کہیں اور کبھی کہیں ڈیوٹی پر بھیج دیتی ہے، اسی طرح باقی بینک عملے کا معاملہ ہے، آپ کو ایک منیجر کبھی ایک بینک میں ملے گا اور کبھی دوسرے بینک میں، جہاں زیادہ تنخواہ کی پیشکش آگئی، وہ شفٹ کر جائے گا، بینکنگ نظام میں وفاداری پرانی بات ہوئی، تو جعلی اکائونٹ جیسے اسکینڈل بھی سامنے آگئے۔
جعلی اکائونٹ کا معاملہ زندوں سے نکل کر مردوں تک پہنچ گیا ہے، ان افراد کے نام پر بھی کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز سامنے آگئی ہیں، جو اس دنیا سے کافی عرصہ پہلے جا چکے ہیں، اس معاملے کا ایک پہلو تو منی لانڈرنگ کا ہے، جس کی جے آئی ٹی تحقیقات بھی کررہی ہے، لیکن اس سے بڑا پہلو اعتماد خراب ہونے کا ہے، جس پر اب تک اسٹیٹ بینک اور حکومت نے بھی توجہ نہیں دی، یہ اکائونٹ تو اومنی گروپ اور اس کی سرپرست شخصیات نے سندھ میں کھلوائے اور چلائے، لیکن اس کا ارتعاش بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی محسوس کر رہے ہیں اور ایسے وقت میں جب ملک کو ان کے سرمائے کی شدید ضرورت ہے، کئی پاکستانی تارکین وطن اس تشویش کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں کہ جعلی اکائونٹ کی طرح بینک عملے نے کہیں ان کے کھاتوں کے ساتھ بھی کوئی کھیل کھیل دیا، ان کے اکائونٹ صاف کردئیے، تو کیا ہوگا؟ کیوں کہ یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے کھاتے بھی طویل عرصے کے لئے غیر فعال رہتے ہیں اور وہ اسی وقت انہیں استعمال کرتے ہیں جب چھٹی پر آئے ہوں، خاندان کے ہمراہ یورپ میں مقیم خاندانوں کی آمد تو کئی کئی برسوں بعد ہوتی ہے۔ اس طرح جعلی اکائونٹس سے ایک نقصان تو ایک کھرب سے زیادہ کی منی لانڈرنگ سے ہوا ہے اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ ہمارے بینکنگ نظام پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے، اب تک جن بینکوں کے نام اس اسکینڈل میں آئے ہیں، ان میں اگرچہ بڑے بینک شامل نہیں، بلکہ زیادہ تر سندھ میں زیادہ آپریشن رکھنے والے چھوٹے اور نسبتاً نئے بینک ہیں، لیکن اس کے باوجود اس اسکینڈل سے بینکنگ نظام پر اعتماد متاثر ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ جس پر اسٹیٹ بینک کو توجہ دینے کی ضرورت تھی اور ہے، مگر اب تک صرف ایک اقدام سامنے آیا ہے اور وہ بھی بہت تاخیر سے۔ جس میں کھاتیداروں کی بائیو میٹرک تصدیق کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چلیں اچھی بات ہے، کچھ تو ہل جل کی، لیکن یہ تصدیق بھی بینکنگ عملے پر چھوڑ دی گئی ہے، اب اس کی تصدیق کیسے ہوگی کہ بینکنگ عملہ نے درست فرد کی بائیو میٹرک کی ہے، اس پر راوی خاموش ہے۔ اتنے بڑے اسکینڈل کے بعد تو اسٹیٹ بینک کو بائیو میٹرک کے لئے کوئی ایسا نظام وضع کرنا چاہئے تھا، جو قابل بھروسہ ہو، جس میں کوئی تیسرا فریق بھی شریک ہو، نادرا سے کوئی نظام منسلک کرنے کے لئے اقدامات کئے جا سکتے تھے، تاکہ بینکنگ عملہ آئندہ اس طرح کے اکائونٹ کھول اور چلا نہ سکے، اسی طرح ملوث بینکوں اور عملے کے خلاف بھی نہ تو اسٹیٹ بینک اور نہ ہی جے آئی ٹی کی طرف سے کوئی سخت اقدام سامنے آیا ہے، بینکنگ نظام کو خطرے میں ڈالنے والے ان افراد کو تو فوری گرفتار کرنا چاہئے تھا، ان پر تاحیات بینکوں میں ملازمت پر پابندی لگانی چاہئے تھی، تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جعل سازی کا حصہ بننے کی جرأت نہ ہو، لیکن یہاں تو وہ بینک بھی چل رہا ہے، جس کے صدر تک اس میں ملوث نکلے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment