قانونی رکاوٹوں کی آڑ میں این آر او

عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد قوم سے اپنے تیسرے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان کو کرپشن کے کینسر نے مفلوج کر دیا ہے۔ اس میں ملوث افراد جتنا چاہیں شور مچائیں یا جو مرضی ہو کر لیں۔ ان سب کا احتساب ضرور ہو گا۔ کان کھول کر سن لیں، کسی کو این آر او جیسی رعایت نہیں ملے گی۔ ہم کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔ عوام سے وعدہ کیا ہے کہ کرپٹ افراد کو جیل میں ڈالیں گے۔ قوم بالکل فکر نہ کرے، اسے تھوڑے دنوں کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنی حکومت کے دو ماہ بعد بھی وزیر اعظم عمران خان عوام کو وعدے وعید پر ٹرخا رہے ہیں۔ قوم کو ان کے بار بار خطاب اور وزراء کی وضاحتی پریس کانفرنسوں کی ضرورت نہیں، وہ تو اپنے بنیادی مسائل کا فوری حل چاہتی ہے۔ اسی لیے عوام نے حالیہ انتخابات میں ملک کی دو بڑی پارٹیوں کو ٹھکرا کر تحریک انصاف کے امیدواروں کو بڑی تعداد میں اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دوسرے دورۂ سعودی عرب میں فوری طور پر تین ارب اور آئندہ تین برسوں کے لیے مزید نو ارب ڈالر کی امداد حاصل کی ہے۔ جس کے باعث اسٹاک مارکیٹ میں فوری طور پر تیزی، ڈالر اور سونے کی قیمت میں کمی ہوئی۔ دو مزید دوست ملکوں سے قرضے ملنے کی امید ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کا آئی ایم ایف پر انحصار اور اس کا دبائو بہت حد تک کم ہو جائے گا۔ اس کے باوجود اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے صارفین پر یہ احسان جتایا ہے کہ نیپرا نے تو تین گنا زائد نرخ بڑھانے کی سمری بھیجی تھی۔ حکومت اب بھی ان نرخوں کو معقول سطح پر رکھنے کے لیے بجلی کمپنیوں کو زرتلافی (سبسڈی) دے گی۔ یہ رقم ظاہر ہے کہ سرکاری خزانے سے ادا کی جائے گی، جس میں عوام ہی کے خون پسینے کی کمائی جمع ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں بجلی اوسطاً سوا روپے فی یونٹ مہنگی کی جا رہی ہے، تاہم اضافے کا اطلاق تین سو یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں پر نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس زرعی صارفین کو پچاس فیصد رعایت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ زرعی شعبہ ہر دور حکومت میں یہ کہہ کر ٹیکسوں سے چھوٹ اور بہت سی رعایتوں کا مستحق قرار دیا جاتا ہے کہ ملک کی ستر فیصد آبادی زراعت پیشہ اور غریب ہے۔ اس حقیقت اور کسانوں کو مراعات دینے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ غریب کسانوں کی اکثریت بڑے بڑے زمینداروں، جاگیرداروں، سرداروں اور وڈیروں کی وسیع و عریض اراضی پر شب و روز کام کر کے صرف اتنا معاوضہ پاتی ہے کہ ان کے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ جائے۔ ان کے بچوں کو روٹی و پانی، صحت اور تعلیم کی سہولتیں ملک بھر میں کہیں بھی حاصل نہیں ہیں۔ تھر جیسے علاقوں میں وہ جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ زرعی شعبے اور کسانوں کے نام پر حکومتوں کی جانب سے دی جانے والی تمام رعایتوں، ٹیکسوں میں چھوٹ، زرعی آلات، ٹیوب ویل اور کھاد کی قیمتوں میں کمی کے تمام فوائد جاگیردار اور زمیندار سمیٹ کر غریب کسانوں کو ان سے محروم رکھتے ہیں۔ مزید ظلم یہ کہ وہ بجلی پانی کی چوری میں ملوث ہو کر قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور اپنی زرعی آمدنی پر ٹیکس بھی نہیں دیتے۔
امداد اور قرضے نہ لینے کا بار بار اعلان کرنے والی تحریک انصاف نے برسراقتدار آتے ہی سب سے پہلے تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھائیں، جس سے مہنگائی کا شیطانی چکر شروع ہو گیا اور اب بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور مزید مہنگائی کا اہتمام کر کے قوم کو دلاسہ دیا جا رہا ہے کہ بس کچھ روز اور انتظار کر لیں، اس کے بعد ان کے دلدر دور ہو جائیں گے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو پانچ بار مؤخر کر کے حکومت کا بالآخر اس طرف آنا عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ ابھی دو روز قبل ہی وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ بجلی چوروں کے خلاف فوری طور پر کارروائیاں شروع کی جائیں۔ انہیں یہ منظور نہیں کہ کسی دوسرے کی چوری کا خمیازہ عوام بھگتیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی اسی روز یہ کہا کہ بجلی کے بلوں کی وصولی کا عمل بہتر ہونے تک میں بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھنے دوں گا۔ تحریک انصاف کے ہر یوٹرن کی طرح بجلی کے معاملے میں بھی اپنے اعلان کے تیسرے روز ہی پلٹ جانا اس کی وعدہ خلافی کی عادت کے علاوہ سیاسی ناپختگی کو ظاہر کرتا ہے۔ بدعنوانی اور نااہلی میں ملوث سابق حکمرانوں، ان کے اعزہ و اقارب اور نوکر شاہی کے لٹیروں کے احتساب کا بار بار تذکرہ سننے سے زیادہ عوام ان سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے منتظر ہیں تاکہ ان پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہ لادا جائے اور اربوں کھربوں روپے وصول کر کے ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھایا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کے دعوئوں کے برعکس ملک کے سب بڑے لٹیرے اب تک آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس میں بلاشبہ قانونی پیچیدگیوں اور فیصلوں کی سست رفتاری کا بھی دخل ہے۔ لیکن اچھی حکمرانی کا تقاضا یہ ہے کہ ہنگامی حالات میں ہنگامی قوانین نافذ کر کے تمام قاتلوں، معاشی دہشت گردوں اور لٹیروں کو سرسری سماعتوں کے ذریعے فوراً ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ اتفاق سے صدر مملکت، دو صوبوں کی مکمل حکومتیں، وفاقی حکومت اور سندھ میں گورنر، سب کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ بلوچستان کی حکومت بھی اس کی حمایت یافتہ ہے، لہٰذا ملک و قوم کو انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھنے کے بجائے صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے ضروری آرڈی نینس نافذ کرائے جائیں اور ملک دشمن عناصر کو بلاامتیاز اور تیز رفتار کارروائیوں کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ کسی آرڈی نینس کو پارلیمان سے منظوری کے لیے تین ماہ کی مہلت حاصل ہوتی ہے۔ اس دوران اگر تمام جرائم پیشہ سیاستدان اور دوسرے لوگ پس دیوار زندان پہنچا دیئے جائیں تو اہل وطن یقینا خوشی کے ساتھ حکومتی اقدامات کی تائید و حمایت کریں گے۔ موجودہ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اتحاد کے نام پر بدترین انتشار میں مبتلا ہیں۔ جبکہ اعلیٰ عدالتوں اور افواج پاکستان کی بھی شدید خواہش ہے کہ پاکستان جلد از جلد کرپشن فری ملک بن کر ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن اور عوام اپنے دیرینہ مسائل و مشکلات سے نجات پاکر سکون و عزت کی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ فوری اور سخت احتساب کے لیے قانونی رکاوٹیں دور کر کے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت میں اس کی جرأت نہ ہو تو وہ کم از کم بلند بانگ دعوئوں ہی سے گریز کرے، ورنہ اس کی کم ہمتی اور کمزوری بجائے خود عملاً این آر او کے مترادف ہو گی۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment