جوہر چورنگی پر گندگی و تاریکی – فکس اِٹ کی منتظر

شاعر نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
لیکن آج مصطفی زیدی زندہ ہوتے اور گلستان جوہر کی مشہور جوہر چورنگی پر واقع کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کے پارک کے سامنے رہائش پذیر ہوتے تو پتھروں کے ساتھ کیچڑ کا اضافہ کر کے کہتے کہ انہی پتھروں پہ چل کر اور اسی کیچڑ سے گزر کر اگر آ سکو تو آئو کہ یہ کوئی فوجی علاقہ یا کلفٹن کی پوش بستی نہیں ہے۔ یہاں قدم قدم پر ناہموار سڑکیں اور اونچے نیچے، آڑے ٹیڑھے پتھروں کا راستہ آج سے نہیں، کم و بیش دو سال سے راہ گیروں کی جسمانی قوت اور ہڈی پسلی کی سلامتی کا امتحان لے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نہ جانے کنٹونمنٹ بورڈ یا واٹر بورڈ کی مہربانی سے ہمہ وقت ابلتے رہنے والے گٹر کا پانی کبھی ٹخنوں سے بھی اوپر آ کر گھٹنوں کی خبر لیتا ہے تو کبھی مستقل کھڑے رہنے کی وجہ سے کیچڑ کا روپ دھار لیتا ہے۔ تقریباً دو سال قبل گٹر کی مرمت کے نام پر جو سڑک توڑی گئی تھی، اسے بنانے کی توفیق آج تک کسی کو نہیں ہوئی، جبکہ گٹر کے پانی کی سڑک پر روانی کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔ موسم برسات میں تو لوگ اس کے تین اطراف میں واقع راستے کو استعمال کر ہی نہیں سکتے۔ البتہ پارک میں سے کچھ لوگ نکل کر پانی کو اِدھر اُدھر پھیلا کر خشک کرتے اور راستہ صاف کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی وردیوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ واٹر بورڈ کے نہیں، کنٹونمنٹ بورڈ کے ملازم ہیں۔ کوئی ادارہ دوسرے ادارے کے حصے کا کام فی سبیل اﷲ نہیں کرتا، اس لئے گمان ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کے ایک ذمے دار شخص کا یہ بیان درست نہیں کہ گٹر کے ابلنے اور سڑک کو توڑنے پھوڑنے کا الزام CBF پر عائد نہیں ہوتا، کیونکہ واٹر اینڈ سیوریج کا انتظام اس کے دائرئہ کار میں نہیں آتا۔ مصطفی زیدی نے مندرجہ بالا شعر کے دوسرے مصرع میں کہکشاں کو استعارے کے طور پر استعمال کیا ہو گا کہ میرے گھر کا راستہ ہموار اور روشنیوں سے جگمگاتا ہوا نہیں ہے، یہاں تو متعلقہ اداروں کے ظلم نے وہ ظلمت پھیلا رکھی ہے کہ اردگرد کے فلیٹوں اور دکانوں کی روشنی نہ ہو تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔
کنٹونمنٹ بورڈ فیصل اس علاقے میں ہائوس ٹیکس اور کنزروینسی ٹیکس کے نام پر مکینوں سے جو بھتا وصول کرتا ہے، اس کے باوجود وہ اگر ٹوٹی پھوٹی سڑک کی مرمت، گندے پانی اور کیچڑ کی صفائی کی ذمے داری قبول نہ کرے تو لوگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اسے تو اپنے قیام و بقاء کے لئے ان بستیوں کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ جو فوجی اور پوش علاقوں میں واقع ہیں۔ اس صورت حال کے ذمے دار اداروں اور اہلکاروں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ انہیں ان بچے بچیوں کی بھی پروا نہیں، جو اس شکستہ اور غلاظت بھری جگہ سے گزر کر چند قدم دور قائم دو بڑے اسکولوں تک جانے پر مجبور ہیں۔ بھاری فیس وصول کرنے والے ان اسکولوں کے مالکان یا منتظمین بھی اپنے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کرام کی اس مستقل تکلیف کی جانب واٹر بورڈ اور سی بی ایف کی توجہ نہیں دلاتے۔ معیاری تعلیم کے نام پر خود انہوں نے لوٹ مار کا جو بازار گرم کر رکھا ہے، اس میں سے چند ہزار روپے نکال کر گٹر اور سڑکوں کو درست کرا دیں تو ان کے مال میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ نیک نامی اور اخروی اجر کے وہ الگ سے مستحق قرار پائیں گے۔ بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پارک کے باہر کی سڑکوں کو اچھی حالت میں رکھنے کا ذمے دار کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نہیں ہے، لیکن یہ بورڈ اس بات سے تو ہر گز انکار نہیں کر سکتا کہ پارک کا انتظام اس کے ہاتھوں میں ہے۔ اس پارک سے متصل ایک بڑا پارک اور بھی ہے۔ ان دونوں پارکوں میں مذکورہ بورڈ نے کئی ماہ سے اندھیرے کا خصوصی اہتمام کیا ہوا ہے۔ رات کے وقت یہ پارک بھوتوں کے مسکن نظر آتے ہیں۔ یہاں چہل قدمی کے لئے آنے والوں میں شریف خاندانوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ اندھیرے میں سایوں کی طرح چلتے یا دوڑتے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے خوف کھانے لگے ہیں۔
سیانوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ بورڈ نے بڑے ہوٹلوں کی کینڈل لاٹئس سے متاثر ہو کر پارک کو تاریک رکھنا پسند کیا ہے۔ اردگرد کے فلیٹوں، دکانوں اور مین روڈ پر چلتی ہوئی گاڑیوں کی روشنیوں کو کافی سمجھ کر ایک طرف انتظامیہ ٹیکسوں سے وصول ہونے والی رقم بچاتی ہے تو دوسری جانب پارک میں رومانی ماحول پیدا کر کے پریمی جوڑوں کی دعائیں لیتی ہے۔ جو یہاں آ کر دل کے ارمان پورے کر لیتے ہیں۔ پارک کے کونے کھدروں میں ان کی کھسر پھسر انگریزی اور بھارتی، بلکہ اب تو پاکستانی فلموں کے مناظر کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ اندھیرے میں جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے رقوم اور موبائل فونز کی چھین جھپٹ کے خدشات پر حکام شاید اس لئے توجہ نہیں دیتے کہ جب ملک بھر میں لوٹ کھسوٹ جاری ہے تو چھوٹے موٹے چور اچکوں، اٹھائی گیروں اور راہزنوں کو روک ٹوک کر کے اور ان کی روزی چھین کر بد دعائیں کیوں لیں۔ بڑے بڑے قومی لٹیروں کے مقابلے میں تو یہ بے چارے بہت چھوٹے اور معصوم ہی لگتے ہیں۔
کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نے جوہر چورنگی کے قریب اس پارک میں پانی صاف کرنے کا یعنی واٹر فلٹر پلانٹ لگا رکھا ہے، جو کبھی کھلتا اور کبھی کئی کئی روز تک بند رہتا ہے۔ ہم بھی یہ پانی استعمال کر کے بڑے فخر سے لوگوں کو بتاتے تھے کہ بورڈ کی مہربانی سے ہمیں بالکل صاف و شفاف پانی ملتا ہے۔ جو منرل واٹر سے بہتر اور مفت ہونے کی وجہ سے ہمارے گھریلو بجٹ کو بھی قابو میں رکھتا ہے۔ لیکن ایک دن بیگم نے ہمیں فلٹر پلانٹ کے پانی کی بوتل میں کیڑے تیرتے ہوئے دکھائے تو ہماری ساری شیخی دھری کی دھری رہ گئی۔ ہم نے ایک واقف کار سے تذکرہ کیا تو اس نے بتایا کہ صاف پانی سارا ڈراما ہے۔ پارک کے اندر سے اکثر عام پانی کھول کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسے فلٹر کر کے باہر کے نلوں سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ہم نے بیگم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ پانی کے کیڑے بھی غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ اس مفت خدمت کے لئے ہمیں کنٹونمنٹ بورڈ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ ہم نے مثال دی کہ دودھ کو جما کر جو دہی بنایا جاتا ہے، سائنسدان اور ماہرین تغذیہ اسے مکمل طور پر بیکٹیریا قرار دیتے ہیں۔ جو حیاتیاتی خلیوں (جراثیم کی بعض اقسام) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ تاہم بیگم نے ہماری کوئی دلیل یا تاویل قبول نہیں کی اور ہمیں اب مجبوراً منرل واٹر پر رقم خرچ کرنی پڑ رہی ہے۔
اس علاقے سے منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے عالمگیر خان نے ’’ فکس اِٹ‘‘ کے نام سے کچھ عرصہ قبل کراچی میں صفائی کی مہم شروع کی تھی۔ وہی ذرا جوہر چورنگی کے عام شہریوں کو گندگی اور تاریکی سے دوچار کرنے والے اداروں سے نجات دلانے میں کوئی کردار ادا کریں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment