اگر میں مصور ہوتا تو ایشیائی سیاست کے موجودہ منظرنامے کا اظہار الفاظ کے بجائے ان رنگوں سے کرتا جو موسم خزاں میں چار سو بکھر جاتے ہیں۔ وہ میلے اور مٹیالے رنگ جن پر ہجرت کرتے ہوئے پرندوں کی آوازیں بھی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ موسم خزاں میں اپنے آشیانوں سے دور ہونے والے پرندے بہت شور مچاتے ہیں، مگر موسم خزاں کی ہر شام پھر بھی خاموشی کا منظر پیش کرتی ہے۔
موسم خزاں کی خاموش شام آج کل مسلمان ممالک کی سیاست کا عکس پیش کر رہی ہے۔ اس خاموشی میں اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کیفیت میں مبتلا حکمرانوں کی دبی ہوئی چیخیں ہیں، مگر وہ خاموشی پھر بھی برقرار ہے۔ وہ خاموشی جو ہمارے حصے میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل سے شروع ہوئی اور پاکستان کو سعودی سرکار سے ملنی والی امداد تک اپنی زباں بندی برقرار رکھ کر چپ چاپ کھڑی ہے۔
کیا یہ بات عجیب نہیں کہ نہ صرف پاکستان کی ریاست بلکہ اس ریاست میں سیاست کرنی والی جماعتوں نے بھی ابھی تک جمال خشوگی کے اس قتل پر کسی مؤقف کا اظہار نہیں کیا، جس قتل کا اعتراف اب سعودی عرب بھی کر چکا ہے۔ پاکستان کی ریاست تو دو دوستوں کے درمیان پریشان ہے۔ ایک طرف وہ ترکی ہے، جس نے پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا اور دوسری طرف وہ سعودی عرب ہے، جس نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی معاشی مدد کی ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا معاشی مددگار ہے، لیکن ترکی پاکستان کا سیاسی ساتھی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی مدد کسی مسلمان ملک نے اس طرح نہیں کی، جس طرح ترکی نے کی ہے۔ یہ ترکی ہی تھا، جس نے پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سفیر کو مظفرآباد میں ایک ہفتے تک قیام کرنے کی ہدایت کی تھی۔ یہ ترکی ہے، جس کے سربراہ رجب طیب اردگان نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاک بھارت مذکرات پر زور دیا ہے۔ اس دنیا میں پچاس سے زائد ممالک کے حکمران مسلمان ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ کشمیر کے عوام کا سب سے بڑا جرم مسلمان ہونا ہے؟ مگر اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے لیے نہ ایران نے اسٹینڈ لیا ہے اور نہ کسی عرب ملک نے! اور یہ بات صرف کشمیر تک محدود نہیں، بلکہ جب اسرائیل غزہ پر بارود کی بارش شروع کرتا ہے، تب اس کی شدید مخالفت ترکی کے طرف سے آتی ہے۔ ترکی نے کشمیر کے عوام کی عملی حمایت کی ہے۔ اس لیے پاکستان پر ترکی کا یہ احسان ناقابل فراموش ہے۔ اس کے علاوہ ترکی اور پاکستان کے تعلقات ابھی کے نہیں۔ ان تعلقات کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ ایک وقت ایسا تھا جب ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان ’’آر سی ڈی‘‘ وہ مشہور فورم تھا، جس کی طرف سے ڈاک کے ٹکٹ بھی جاری ہوئے تھے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی ہے، مگر وہ بھارت کے زیادہ قریب ہے۔ مگر ترکی پاکستان سے جغرافیائی طور پر دور ہونے کے باوجود تاریخی اور سیاسی طور پر پاکستان کے قریب رہا ہے۔ ترکی کی پاکستان سے قربت میاں نواز شریف کی حکومت کے دوران کچھ زیادہ تھی، مگر اب بھی ترکی پاکستان کا قریبی دوست ہے۔
اس وقت جب امریکہ آئی ایم ایف کی معرفت پاکستان کو کھل کر بلیک میل کر رہا تھا۔ جس وقت پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے چین بھی چپ تھا۔ اس وقت سعودی عرب نے پاکستان کو جس طرح ادھار پر تیل دینے کے علاوہ پاکستان کی معاشی مدد کے لیے کیش دینے کا بھی اعلان کیا وہ عمل ثابت کرتا ہے کہ اچھا دوست وہ ہے جو ضرورت کے وقت کام آئے۔ اکثر سیاسی مبصرین کا مؤقف ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کی مدد اس لیے کی ہے، کیوں کہ وہ امریکہ کی طرف سے دباؤ کا شکار تھا۔ مگر کچھ سیاسی مبصرین اس کے برعکس یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ پاکستان کو قرض کی صورت امداد دے کر سعودی عرب نے امریکہ کو زیادہ ناراض کر دیا ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ سعودی عرب پر امریکی ناراضگی کے اسباب اور ہیں، مگر کیا سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کی مدد کرنے والا عمل امریکہ کے جلتے دل پر تیل انڈیلنے جیسا نہیں ہے؟ سعودی عرب نے پاکستان کو امریکہ کی بلیک میلنگ سے بچانے میں جو کردار ادا کیا ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ پاکستان بھی سعودی عرب کی بھرپور حمایت کرے، مگر پاکستان سعودی عرب کے سلسلے میں اس وقت بھی خاموش تھا، جس وقت امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی بادشاہ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’تم ہمارے بغیر دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے‘‘ اس وقت پاکستان کو امریکی بیان پر اگر غصے کا نہیں تو کم از کم افسوس کا اظہار تو کرنا چاہئے تھا۔ مگر پاکستان خاموش رہا۔ عالمی ڈپلومیسی میں کبھی ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار‘‘ بننا پڑتا ہے۔ پاکستان کے ہونٹ اس وقت بھی سلے ہوئے ہیں، جب ترکی اور سعودی عرب کے درمیان کشمکش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ امریکہ کی جمال خشوگی سے کوئی ہمدردی نہیں۔ امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ سرد جنگ کے دوران جب یورپی ممالک اور امریکہ کے لبرل حلقے سعودی عرب پر سخت تنقید کرتے تھے۔ جب امریکہ پر دباؤ آتا تھا کہ جمہوریت کا عالمی چیمپئن کا داعی ملک سعودی عرب کی حمایت کس طرح کرسکتا ہے؟ اس سوال کے سامنے امریکہ نے ہمیشہ ’’قومی مفاد‘‘ کی دیوار کھڑی کردی۔ مگر اب امریکہ کو سات عشروں کے بعد اچانک خیال آگیا ہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ یہ پامالی اس وقت جائز تھی جس وقت سعودی عرب کے بارے میں بی بی سی اور سی این این کبھی یہ رپورٹ پیش کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے کہ اس ملک میں سیاسی قیدیوں کی تعداد کتنی ہے؟ جس وقت سعودی عرب میں عورتوں پر سخت پابندیاں تھیں، اس وقت امریکہ سعودی عرب سے خوش تھا، مگر اب جب سعودی عرب اصلاحات کے راستے پر چل رہا ہے۔ جب وہاں خواتین گاڑیاں بھی چلا رہی ہیں اور برف پر ہاکی بھی کھیل رہی ہیں، تب سعودی عرب پر امریکہ سختی کر رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو سعودی عرب کی کھل کر حمایت کرنی چاہئے یا نہیں؟ اس سوال پر ملک کی سیاسی قوتوں کو سوچنا چاہئے۔
پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کم کرنے میں کامیاب کردار ادا کرے۔ پاکستان نے کچھ عرصہ قبل ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ایک کوشش کی تھی، مگر ایران سے پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں تھے کہ ایران پاکستان کی بات مان لیتا۔ اس وقت ایران نے انتہائی غرور اور تکبر کا مظاہرہ کیا۔ ایران کا پاکستان کے وفد سے پیش آنے کا انداز بھی اچھا نہیں تھا۔ جب کہ ترکی کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن بہتر ہے۔ پاکستان ترکی سے کھل کر بات کر سکتا ہے اور امریکہ کے موجودہ رویئے کے حوالے سے پاکستان ترکی کو قائل بھی کرسکتا ہے کہ سعودی عرب کی طرف اپنے رویئے میں کچھ نرمی پیدا کرے۔ اس کام میں پاکستان کے لیے امریکی ناراضگی کا خطرہ بھی موجود ہے۔ مگر پاکستان کو دو دوستوں کے درمیان تعلق بہتر بنانے کے لیے یہ خطرہ قبول کرنا چاہئے۔
پاکستان کو اس بات کا پتہ ہے کہ امریکہ کی دوستی اور دشمنی کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ سعودی عرب اس کی تازہ مثال ہے۔ سعودی عرب نے ایسا کچھ نہیں کیا، جس سے امریکہ کو اصولی طور پر ناراض ہونے کا حق حاصل ہو جائے۔ امریکہ سعودی عرب کو بھرپور طرح سے استحصال کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب کے تیل اور سعودی عرب کے سرمائے پر اس کا کنٹرول ہو۔ سعودی عرب جب امریکہ سے ایک آزاد ملک کی حیثیت میں بات کرتا ہے تو امریکہ کو غصہ آجاتا ہے۔ امریکہ اس بات کو بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ سعودی عرب اپنے لیے دیگر آپشنز پر سوچے۔ سعودی عرب چین کے ساتھ معاشی سرگرمیاں شروع کر سکتا ہے اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے اس کے گرد حفاظتی دیوار کا کام دے سکتے ہیں، مگر سعودی عرب جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔
جس طرح پاکستان معاشی طور پر مشکل حالات میں تھا اور سعودی عرب نے امریکی ردعمل کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی، اسی طرح اس وقت سعودی عرب سخت امریکی دباؤ میں ہے اور اس صورتحال کو غنیمت سمجھ کر پاکستان کو آگے بڑھ کر سعودی کو سیاسی طور پر بیل آؤٹ کرنے کا کردار ادا کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ امریکہ کے پاس تو پاکستان کے وزیر اعظم کے لیے بھی وقت نہیں۔ پاکستان امریکہ کو سعودی عرب پر سختی ختم کرنے کے سلسلے میں راضی نہیں کرسکتا، مگر پاکستان ترکی اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کو پتہ ہے کہ اگر اس نے ایسا کردار ادا کیا تو امریکہ سخت ناراض ہو جائے گا، مگر امریکی ناراضگی کے خوف سے پاکستان اپنے وفادار دوستوں سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔
پاکستان اس وقت شیکسپیئر کے مشہور کردار ’’ہیملیٹ‘‘ کی طرح ’’کرنے اور نہ کرنے‘‘ کی کشمکش میں ہے۔ پاکستان کی یہ مشکل پاکستان کی وہ سیاسی جماعتیں آسان بنا سکتی ہیں، جو اس وقت خاموش ہیں۔ اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اپنی خاموشی ختم کی تو ملک کے لیے بہتر راستہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کی اقتدار پرست سیاسی جماعتیں امریکہ کی امکانی ناراضگی سے کانپ جاتی ہیں۔ اس لیے وہ موجودہ صورتحال میں خاموش ہیں۔ وہ خاموشی خزاں کی شام بن کر مسلمان ممالک پر چھائی ہوئی ہے۔ خزاں کا موسم اکتانے والا ہوتا ہے۔ خزاں کا موسم اداسی سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ مگر خزاں کے موسم کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے۔ خزاں کی اس خوبصورتی کو نظر میں رکھتے ہوئے البرٹ کامو نے کہا تھا کہ’’خزاں ایک ایسا بہار ہے جس میں ہر پتہ پھول بن جاتا ہے۔‘‘
پاکستان کو علاقائی اور عالمی سیاست میں مسلمان ممالک پر چھائے ہوئے موسم خزاں میں موجود خوبصورتی کو تلاش کرنا چاہئے اور اس موسم میں خاموشی کو ختم کرتے ہوئے ایسی آواز بلند کرنی چاہئے جیسی آواز موسم کے کانوں میں جھمکے بن کر جھولتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭