ایک شہری شاعر نے تھر کے عام شخص سے پوچھا تھا کہ ’’یہ مور کہاں سے آتے ہیں؟‘‘
اس شخص نے پتے کی بیڑی سے گہرا کش لگاتے ہوئے تھا ’’سائیں! مور تو آسمان سے آتے ہیں۔‘‘ یہ وہ دور تھا جب تھر کے مور اور ماؤں کے بچے اس طرح نہ مرتے تھے، جس طرح آج کل مر رہے ہیں۔ اب تو وہ شہری شاعر بھی اس دنیا میں نہیں رہا۔ اگر وہ شاعر اب تک زندہ ہوتا اور تھر کی کشش اس کو ایک بار پھر ریت کے بلندو بالا ٹیلوں پر لے جاتی تو وہ کسی تھری سے یہ سوال ضرور کرتا کہ ’’سنو! مور مرنے کے بعد کدھر جاتے ہیں؟‘‘
اور شاید وہ تھر کا باسی اس سوال کا جواب نہ دے پاتا۔ کیوں کہ مرنے کے بعد مور اپنے رنگین پر تو دھرتی پر چھوڑ جاتے ہیں، مگر تھر کے لوگوں کو معلوم ہے کہ مور صرف رنگین پروں کا مجموعہ نہیں ہوتے۔ مورساون میں برستے ہوئے سانولے بادلوں کے نیچے رقص بھی ہوتے ہیں۔ مور کارونجھر پہاڑ کی تاریک راتوں میں چاند کے لیے ایک ایسی پکار بھی ہوتے ہیں جو کٹار کی طرح وقت کے سینے میں پیوست ہو جاتی ہے۔ مور صرف صحرائے تھر کا حسن نہیں ہوتے، بلکہ مور ان معصوم بچوں کا عکس بھی ہوتے ہیں، جو نیا نیا چلنا سیکھتا ہے۔ جو ڈر ڈر کر پیر اٹھاتا ہے۔ جو ہر قدم پر گرتے گرتے سنبھلتا ہے۔ اس لیے تو سندھ کی مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو ’’مور‘‘ کہہ کر بلاتی ہیں۔ وہ بچے مور کی طرح رنگین بھی ہوتے ہیں اور ان کی ٹور بھی مور جیسی ہوتی ہے۔
ہم پھر کالم کی ابتدا میں پوچھے گئے سوال پر پھر لوٹ آتے ہیں کہ مور کہاں سے آتے ہیں اور مر کر کہاں جاتے ہیں؟ مگر اس بار جب ہم موروں کا تذکرہ کر رہے ہیں تو مور کا مطلب صرف رنگین پرندہ نہیں ہے، بلکہ مور کا مطلب وہ معصوم بچہ بھی ہے، جس کے منہ میں تازہ تازہ دانت نکلتے ہیں اور وہ اپنی تھری ماں کا میلا آنچل مزے سے چوستا رہتا ہے۔ اس طرح وہ پہلی بار مٹی کے ذائقے سے مانوس ہوجاتا ہے۔ جس انسان نے تھر کی ریت کو نہیں چکھا، اس کو کیا معلوم کہ درد کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟ جس کی آنکھ میں بارش کی بوند نہیں اتری، اس کو کیا پتہ کہ جب برسات کا پہلا قطرہ مور کے پروں پر گرتا ہے، تب تھر کے پورے صحرا کا دل مسرت سے کس طرح مچل اٹھتا ہے۔
مور بھلے آسمان سے آئیں، مگر وہ ہیں تو صحرا کے بچے۔ صحرا موروں کی ماں ہوتا ہے اور جن کے بچے مٹھی اسپتال میں مر جاتے ہیں یا جو بچے مٹھی اسپتال پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں، ان کی مائیں بھی تو صحرا جیسی ہوتی ہیں۔ پھر صحرا صحرا سے گلے مل کر روتا ہے۔ اس رونے میں کوئی اشک نہیں بہتا۔ کیوں کہ دونوں صحرا پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ اگر کسی صحرا کی آنکھوں میں پانی کی بوند ہوتی تو وہ اسے آنسو بنا کر کیوں بہاتا؟ وہ پیاس سے مرنے والے مور کو نہ پلاتا؟
بھوک اور پیاس سے مر جانے والے موروں کا قصہ بہت طویل ہے۔ اگر درد کی یہ کہانی اپنی حقیقی کیفیت کے ساتھ سننی ہے تو پھر کسی چاندنی رات کا انتخاب کرو اور چلو سونیا نامی ریت کے بڑے ٹیلے پر! اس ٹیلے پر جس ٹیلے سے چراغوں کی ننھی لو بہت موہوم سی صورت میں نظر آتی ہے۔ اس ٹیلے پر آسمان اس قدر جھک جاتا ہے کہ انسان کا دل کرتا ہے کہ وہ ستاروں کو بیروں کی طرح توڑ کر جیب میں بھرلے اور چاند کو اس طرح چومے، جس طرح ایک ماں اپنے دھلے دھلائے بچے کا منہ چومتی ہے۔
مائیں صرف ہنستے اور غوں غوں کرتے بچوں کا منہ نہیں چومتیں، ماؤں کو سفید کفن میں لپٹے ہوئے اپنے مردہ لال کے گال بھی چومنے پڑتے ہیں۔ کس قدر پھیکے اور سرد ہوتے ہیں مردہ بچوں کے رخسار! جس طرح تھر کی غریب ماں بیماری کے باعث مرنے والے بچے کو چوم چوم کر اسے زندہ کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے، اسی طرح صحرا کے کسی گمنام گوشے میں مر جانے والے موروں کو موت کی گہری نیند سے بیدار کرنے کے لیے ریگستان کی ریت صحرا کی ہوا سے کہتی ہے ذرا تیز چلو کہ میرا مور جا گ جائے؟ اور پھر صحرا کی ہوا تیز تیز چلنے لگتی ہے، اس میں مرے ہوئے مور کے رنگین پر شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح اڑتے رہتے ہیں اور پھر رات دیر تک چلنے والی ہوا کے باعث وہ مور صحرا میں دفن ہو جاتا ہے۔
کیا کسی نے کبھی کسی مور کے مزار پر کوئی کتبہ دیکھا ہے؟ تھر کے بچوں اور تھر کے موروں پر کوئی کتبہ نہیں لگتا۔ کیوں کہ کتبے پر تو نام بھی لکھا جاتا ہے اور کتبے پر عمر بھی کندہ کی جاتی ہے۔ کتبوں کی الگ تاریخ ہوتی ہے۔ کتبے تو اس کتاب کی طرح ہوتے ہیں جو پوری کی پوری گم ہو جاتی ہے، صرف اس کا پہلا صفحہ باقی بچ جاتا ہے۔ اگر تھر کے موروں اور تھر کے بچوں کی قبروں پر کتبے نصب کیے جائیں تو پڑھنے والے ان کی موت کی وجہ بھی پوچھیں گے۔ اس وقت حکمران کیا کہیں گے؟
کیا بتا پائیں گے حاکم کہ کوئی مور کیوں مرا اور کوئی بچہ ماں کی آغوش سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر دھرتی کے سخت سینے میں سدا کے لیے سما گیا۔ سوال پیدا ہوگا کیوں؟
سیاست میں ہر سوال کا جواب موجود ہوتا ہے، مگر کچھ سوالات کے جوابات دینے کا عمل اخلاق کے برعکس ہوتا ہے۔ مگر بے شرم سیاست پھر بھی باز نہیں آتی۔ وہ پھر بھی چینل کے لوگو والے مائیک کے سامنے اپنی بد زباں قابو میں نہیں رکھ سکتی اور اس سبب کو بیان کرتی ہے، جس کے باعث کارونجھر پہاڑ کے سائے میں بہت سارے مور مر گئے اور کچھ بچے مٹھی اسپتال کے وارڈ میں، کچھ بچے مٹھی اسپتال کے دروازے پر اور کچھ بچے مٹھی اسپتال کی طرف آتے راستے میں مر گئے۔
یہ سوال تو ابھی تک سوال ہی ہے کہ مرنے والے مور اور مدفون بچے کہاں جاتے ہیں؟ اگر وہ مکمل طور پر ختم ہو جاتے ہیں تو پھر خوابوں میں کیوں آتے ہیں؟ تھر کی مورنیاں اپنے مرے ہوئے موروں کے خواب دیکھ کر پوری رات ’’انصاف…انصاف…‘‘ پکارتی ہیں اور
تھر کی مائیں اداس صبحوں کے وقت اپنی سہیلیوں کو بتاتی ہیں کہ ’’کل رات بھی میں نے اس کو خواب میں دیکھا۔ وہ کافی بڑا لگ رہا تھا۔ اپنے پیروں پر چل رہا تھا۔ بالکل مور لگ رہا تھا‘‘
مٹھی اسپتال مردہ بچوں کی یادوں سے چھلک رہا ہے اور کارنجھر بے سبب مرجانے والے موروں کے باعث اپنا توازن قائم رکھنے میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اس موسم میں سردھڑو کا چشمہ نہیں بہتا۔ اس موسم میں وہ پھول نہیں پھوٹتے، جن کی وجہ سے تھر کا پہاڑ دولہے کی طرح نظر آتا ہے۔ اس موسم میں صرف بچے ہی نہیں مرتے، بلکہ وہ مائیں بھی مرجاتی ہیں جو جسمانی طور پر زخمی مورنیوں کی طرح بڑی تکلیف کی ساتھ چلتی نظر آتی ہیں اور ایک ایک کو روک کر بتاتی ہیں کہ ان کا بچہ کس طرح موت کی آغوش میں چلا گیا؟ وہ بتاتی ہیں کہ ’’بہن! ابھی اس کو تھوڑا سا بخار ہوا تھا۔ میں نے اس سوچا کہ موسم کا اثر ہے۔ جلد اتر جائے گا۔ مگر پھر وہ اس پودے کی طرح کملانے لگا، جس کو گرم ہوا میں پانی کی بوند نہ مل پائے۔ پھر اس کے ہونٹ کالے گلابوں کی پتیوں جیسے ہونے لگے۔ ہم نے تیاری کی کہ مٹھی شہر چلتے ہیں۔ اس دن گاڑی بہت دیر سے آئی۔ میرے بچے کی آنکھیں دو دن سے بند تھیں۔ میری چھاتیوں میں سوائے غم کے اور کچھ نہ تھا بہن! پھر ہم شام کے وقت ڈھلتے ہوئے سورج کے ساتھ مٹھی اسپتال پہنچے۔ ڈاکٹر نے اس کی کلائی میں سوئی چبھوئی، مگر وہ رویا بھی نہیں۔ بس اس نے آدھی آنکھیں کھولیں۔ مجھے دو دن کے بعد دیکھا اور پھر ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرکے سو گیا۔ ڈاکٹر نے اس کے چھوٹے سے چہرے پر چادر ڈال دی…!!‘‘
ہر مور کی ایک کہانی ہوتی ہے۔ ہر مر جانے والے بچے کا ایک افسانہ ہوتا ہے۔ تھر کے اسٹیج پر بھوک کا بے رحم ساز بج رہا ہے۔ صحرا کے اسٹیج پر موت کا رقص جاری ہے۔ ایک طرف معصوم بچوں جیسے مور مر جاتے ہیں اور دوسری طرف موروں جیسے بچے موت کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو جاتے ہیں۔
مگر ہمارے حکمرانوں کے لیے یہ باتیں بہت چھوٹی ہیں۔ ان کے لیے بڑی باتیں اربوں کھربوں کی کرپشن سے لوٹا ہوا مال واپس لانے میں درپیش مشکلات کا تذکرہ ہے۔ ہمارے حکمران عالمی اور علاقائی صورتحال پر سوچتے ہیں اور کسی ملک کی دوستی اور کسی ملک کی دشمنی کا اندازہ لگا کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران نئی تقریر کے لیے نئے الفاظ یا پرانے الفاظ کی نئی ترتیب کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ہمارے حکمران کوشش کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے تیور دیکھ کر ان کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نہ نظر آئیں۔ ہمارے حکمران بڑی بڑی باتوں پر سوچتے ہیں۔ ہمارے حکمران ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر اڑتے ہوئے موروں اور چھوٹے سے معصوم بچوں کے مرجانے پر نہیں سوچتے۔ اس لیے قومی اسمبلی میں تو کیا، کبھی سندھ اسمبلی میں بھی تھر کے کسی مور یا تھر کے کسی معصوم بچے کی موت پر فاتحہ کے لیے ہاتھ نہیں اٹھائے گئے۔
کاش! اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان اور کراچی میں چیف منسٹر مراد علی شاہ کو آدھی رات کے وقت کسی گمنام نمبر سے فون آئے اور فون کرنے والا صحرا یا صحرا کی بیٹی اس سے صرف اتنا پوچھے کہ ’ ’مرنے کے بعد مور اور معصوم بچے کہاں جاتے ہیں؟‘‘ ٭